عشق آباد کی کہانی



کہتے ہیں بھلے وقتوں میں ایک گاؤں تھا عشق آباد۔ گاؤں کا یہ نام کسی من چلے کی شرارت نہیں تھی بلکہ عشق، تکریم اور حیا اس کے باسیوں کا بنیادی وصف تھا۔ کہتے ہیں کہ اچھا نام شخصیت کو اچھا بنا دیتا ہے ایسے ہی عشق آباد میں نسل در نسل عشق، تکریم اور حیا خون کا بنیادی جُز بن کر دوڑتے رہے۔ اس گاؤں میں کسان بھی تھے اور تاجر بھی، مذہبی نمائندے بھی تھے اور آزاد خیال لوگ بھی، استاد بھی تھے اور طالبعلمان بھی غرضیکہ ہر شعبہِ زندگی کے نمائندگان یہاں کے باسی تھے۔

نہیں تھے تو سرمایہ دار اور میڈیا کے لو گ کہ یہ دونوں بیانیے بلکہ کیفیات بھلے وقتوں میں ابھی دریافت نہیں ہوئی تھیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھلے وقتوں میں سرمایہ دار یا میڈیا نہیں ہوتے تھے، یہ تو ازل سے کسی نہ کسی صورت میں انسان کے ہمرکاب رہے۔ کائنات کا پہلا صحافی شیطان اور پہلا سرمایہ دار طبیب تھا اور آج بھی کم و بیش یہی صورتِ حال ہے۔ عشق آباد میں زندگی بہت سادہ تھی لوگ خود کفیل نہیں تھے لہٰذا سب ایک دوسرے کی ضرورت تھے، کسان کو کپڑا درکار ہوتا ہے وہ گندم کے بدلے خرید لیتا، حجام کے گھر کا راشن گاؤں والوں کی زلف تراشی سے نکل آتا، ایسے ہی سب ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے تھے۔

گاؤں میں ایک ہٹی ( دُکان ) بھی تھی۔ جس میں ہر وہ شے موجود تھی جس کے لیے لوگوں کو عموماً شہر جانا پڑا تھا۔ اس ہٹی کا مالک تاجا تھا جو مہینے میں ایک بار شہر کا چکر لگاتا اور اشیائے ضروریہ جو کہ مقامی طور پر بن نہیں سکتی تھیں وہ خرید لاتا تاہم اُس کے خریدار بہت کم تھے۔ لوگوں کے پاس کرنسی تو تھی لیکن بے وقعت تھی لہٰذا تاجا اکثر پریشان ہی رہتا۔ ایک مرتبہ تاجا شہر سے لوٹا تو گاؤں کے نمبردار کے گھر حاضر ہوا جو اُس کا شہر سے واپسی پر پہلا خریدار ہوتا کہ نمبردار تاجے سے شہر سے کچھ ”خاص“ اشیائے ضروریہ منگواتا تھا جن کا علم صرف نمبردار اور تاجے کو ہی ہوتا شاید اسی وجہ سے نمبردارنی تاجے کو پسند نہیں کرتی تھی۔

خیر اِس مرتبہ تاجے نے نمبردار کو کچھ خاص باتیں بتائیں اور چلتا بنا۔ نمبردار یہ سب سُن کر بہت پریشان ہوگیا اس نے اپنے کاموں کو ایک میٹنگ بلانے کا کہا۔ جلد ہی گاؤں کے لوگ ایک وسیع پنڈال میں اکٹھے ہوگئے۔ تاجا نمبردار کے دائیں ہاتھ کھڑا تھا۔ لوگ پریشان نہیں تھے کہ اس طرح کے جلسے یہاں کا معمول تھے کہ چھوٹے سے گاؤں میں جب کوئی پیغام سب تک پہچانا مقصود ہوتا تو سب کو یوں ہی اکٹھا کیا جاتا۔ تاہم اس مرتبہ نمبردار کے چہرے پر پریشانی کے آثار نے لوگوں کو متجسس ضرور کردیا۔

نمبردار نے کہا کہ تاجے ہٹی والے نے بتایا ہے کہ شہر اور دیگر دیہات میں ایک وبا پھوٹ پڑی ہے۔ لوگ بری طرح اس کا شکار ہورہے ہیں اس سے قبل کہ یہ وبا عشق آباد کے باسیوں کو شکار کرنا شروع کرے ہمیں اس سے بچاؤ کی کچھ سبیل کرنا ہوگی۔ یوں کافی بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ ہُوا کہ گاؤں کے چہار جانب ایک خندق کھود دی جائے کہ اس پر خرچ بھی نہ اٹھے گا گاؤں کے نوجوان اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے اور گاؤں کے اطراف میں ایک وسیع اور گہری خندق کھود دی گئی اور ایک طرف کو راستہ چھوڑ کر ایک دروازہ ایستادہ کردیا گیا۔

خندق اور دروازے پر پہرا دینے والے گاؤں کے باسی بڑی لگن سے اپنی ذمہ داری نبھاتے اور خوش رہتے۔ گاؤں میں چونکہ خود کفالت نہ تھی لہٰذا ایک دوسرے پہ انحصار نے لوگوں کو ایک دوسرے کی ضرورت بنادیا تھا اور وہ خود آگاہی سے زیادہ دوسروں کے دُکھ درد سے آگاہ رہتے۔ گاؤں میں کسی کو آنے اور کسی کو باہر جانے کی اجازت نہ تھی سوائے تاجے کے، کہ یہ نہ صرف شہر سے ”اشیائے ضروریہ“ بھی لاتا بلکہ خبریں بھی۔ اِس مرتبہ تاجا جب شہر جانے سے قبل نمبردار کے پاس گیا تو نمبردار نے اُسے شہر جانے سے منع کردیا لیکن تاجے نے کچھ لالچ دے کر نمبردار سے اجازت اینٹھ لی۔

تاجا شہر میں جس بڑی ہٹی پر جاتا وہاں پر اب گاؤں کے لوگوں کے ضروریات کی اشیا کی جگہ کچھ نئی چیزیں آگئی تھیں جیسے کہ نئی اقسام کے صابون، سینی ٹائزر، ٹشو پیپرز، ماکس، دوایاں وغیرہ۔ شہر میں اِکا دُکا دُکانیں ہی کھلی تھیں چہل پہل بھی ویسی نہ تھی۔ تاجا یہ سب دیکھ کر خاصا پریشان ہوگیا۔ دکان کے مالک نے اُسے کہا کہ وہ یہ سب چیزیں لے جائے رقم کا کیا ہے پھر آجائے گی، کون سی بے اعتباری ہے ظاہر ہے دونوں کا برسوں پر محیط تجارتی دوستانہ تھا۔

تاجا بولا کہ بات رقم کی نہیں مسئلہ یہ ہے کہ ان سب چیزوں کو خریدے گا کون اور وہ بھی کیوں؟ دُکان دار نے اُسے مشورہ دیا کہ لوگ خریدیں گے بشرطیکہ تم اُنہیں ان کی اہمیت سے آگاہ کرو اور وہ نہیں سمجھتے تو ان میں خوف پیدا کرو انہیں بتاؤ کہ یہ سب چیزیں ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے کتنی ضروری ہیں۔ تاجا اس امید پر چیزیں لے گیا تاہم گاؤں میں اُسے کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اگلی مرتبہ جب تاجا آیا تو اس نے دکان دار کو بتایا کہ گاؤں کے لوگ صحت مند اور خوش حال ہیں اور یوں بھی ہم نے گاؤں کے گرد حفاظتی حصار کے طور پرخندق کھودی ہوئی ہے کہ نہ کوئی آئے نہ کوئی جائے۔لہٰذا یہ منصوبہ تو ناکام ہوگیا۔

دُکان دار نے تاجے سے پوچھا کہ کیا گاؤں میں کوئی سرے سے بیمار ہوتا ہی نہیں؟ ہوتا ہے وہی موسمی نزلہ زکام کھانسی مگر دیسی ٹوٹکوں سے سب ٹھیک ہوجاتے ہیں، تاجے نے جواب دیا۔ دکان دار نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ گاؤں میں اپنے کچھ ایجنٹس بنائے جو لوگوں کو بتائیں کہ وبا کی یہی علامتیں ہیں لہٰذا اس کا ٹیسٹ کروانا از حد ضروری ہے۔ ورنہ یہ بیماری ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے اور پھر سارے گاؤں میں پھیل جائے گی اور بھاگنے کو جگہ بھی نہ ملے گی کہ چاروں طرف تو خندق ہے۔

تم اس طرح کرو یہ کچھ چیزیں لے جاؤ اور گاؤں کے طبیب یا حکیم صاحب کو اس بات پر قائل کرو اور انہیں ہماری طرف سے رقم کی یہ تھیلی بھی دے دینا۔ تاجا دکان دار کی اس کرم فرمائی پر خاصا حیران ہوا۔ خیر گاؤں کا طبیب جو پہلے ہی کم مریضوں کی وجہ سے ناخوش رہتا تھا جب کچھ طبی سامان اور رقم کی تھیلی دیکھی تو لالچ میں آگیا۔ اس مرتبہ موسمی بیماریوں کے شکار لوگوں کو پہلی مرتبہ طبیب نے کچھ ٹیسٹ کروانے کا کہا اور یوں گاؤں میں پہلی کچی پکی لیبارٹری قائم ہوئی۔

چونکہ ٹیسٹ کی فیس زیادہ تھی اور ٹیسٹ بھی نیگیٹو آتا لہٰذا لوگوں کے دل سے بیماری کا ڈر بھی جلد نکل گیا۔ شہری دکان دار عشق آباد کے تاجے ہٹی والے اور طبیب کی کارکردگی سے خاصا نالاں تھے کہ وہ لوگوں کو ان مصنوعات اور ٹیسٹ کٹس کی آزمائش پر قائل نہ کرسکے۔ معاملہ خاصا پریشانی کا تھا کہ دکان دار پر کمپنیوں کا خاصا دباؤ تھا اورقرض جدید کاروبار کا پہلا اصول تھا اور اس پر سُود تھا کہ دوگنا سے چوگنا ہوتا جا رہا تھا۔

دکان دار نے تاجے کو دکان میں اتنظار کرنے کا کہا اور خود دکان کے قریب ایک بڑے کارخانے میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ خوش خوش واپس آیا۔ کارخانے کے مالک نے اُسے ایک بہترین مشورہ دیا تھا کہ تمہارا کاروبار اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک گاؤں میں وبا کا خوف بڑے پیمانے پر پھیل نہیں جاتا اور اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بیماری کا گاؤں میں پہچنا بہت ضروری ہے۔ دُکان دار جب کارخانے سے واپس آرہا تھا تو اُس نے ذہن نے اس وائرس کے پہلے کیریئر کے طور پر تاجے کا انتخاب کرلیا تھا۔

سُنا ہے عشق آباد میں بیماری سے پہلی موت تاجے کی اور دوسری طبیب کی ہوئی۔ شہر میں بھی دُکان دار کے بیٹے بتاتے ہیں کہ وہ بھی وائرس سے ہی موت کا شکار ہُوا تھا۔ عشق آباد اب عشق نا آباد بن چکا تھا بلکہ عشق نا آباد کے ارد گرد اب بہت سے عشق نا آباد قائم ہوچکے تھے۔ اس سارے کھیل میں صحافی اور طبیب بظاہر بہت خوش تھے لیکن کوئی تیسرا بھی تھا جس کی شکل کسی نے نہیں دیکھی لیکن سب اُسے سرمایہ دار سرمایہ دار کہتے تھے۔ واللہ اعلم با الصواب، اور آج کا تازہ شعر : آپ اپنی نظر اُتارا کریں / آپ کی شکل اِتنی پیاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments