حقوق نسواں اور انسانی تاریخ


محفوظ شدہ انسانی تاریخ (جو کہ تقریباً پانچ ہزار سال پرانی ہے ) سے لے کر اکیسویں صدی تک عورت اپنی سماجی سیاسی اور انفرادی مقام کو لے کر زیر بحث رہی ہے اور شاید رہے گی۔ کسی بھی ملک کا قانون اٹھا لیں یا کسی بھی مذہب کی مقدس کتاب کو پڑھیں تو اس میں چند اوراق حقوق نسواں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ آئیے سب سے پہلے دنیا کی سب سے قدیم ضابطہ قانون میں حقوق نسواں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

حمورابی قدیم بابل کا ایک قابل بادشاہ اور بہادر سپہ سالار گزرا ہے۔ لیکن اس کی وجہ شہرت اس کا مرتب کردہ ضابطہ قانون ہے جس کے ذریعے وہ اپنی سلطنت پر حکومت کرتا تھا حمورابی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس نے دنیا کا پہلا تحریر کردہ قانون مرتب کیا۔

آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت حمورابی کے ہی بنائے ہوئے قوانین ہیں۔ جن کا ذکر بعد میں مختلف مذاہب نے اپنے قوانین میں کیا۔
حمورابی کے ضابطہ قانون میں حقوق نسواں سے متعلق شقوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے عورت کو اس معاشرے میں مساوی حقوق نہیں دیے گئے۔

مثلاً شق نمبر 130 میں لکھا ہے اگر کوئی شخص کسی شخص کی منکوحہ (جس کی رخصتی نہیں ہوئی ہو اور وہ اپنے والد کے پاس رہتی ہو ) کے پاس جاتا ہے اور لڑکی دھوکا کھاکے اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتی ہے تو اس شخص کی سزا موت ہوگی اور لڑکی بے قصور ہو گی۔

اس شق سے صاف ظاہر ہے کہ شادی کے معاہدے میں لڑکی کی مرضی اور پسند کو اہمیت نہیں دی گئی ہے اس کا والد یا بھائی اس کی شادی کا معاہدہ اس سے پوچھے بغیر کسی بھی مرد کے ساتھ کرسکتے تھے جسے اس نے دیکھا تک نہیں ہو۔

اسی طرح شق نمبر 132 میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی بیوی پر بے وفائی کا الزام عائد کرے اور وہ رنگے ہاتھوں نہیں پکڑی گئی ہو تو اسے تب بھی دریا میں چھلانگ لگانی ہوگی۔

دور قدیم میں یہ روایت تھی کہ ملزم کو پانی میں چھلانگ لگا کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑتا تھا۔ اس زمانے کا عقیدہ تھا کہ جو قصوروار ہوتا وہ ڈوب جاتا تھا اور جو بے قصور ہوتا وہ بچ جاتا تھا۔

تاہم ان شقوں پر حد سے زیادہ تنقید کرنا نا انصافی ہوگی کیونکہ ہمیں اس دور کے حالات کا مکمل ادراک نہیں ہے۔

اگر قدیم یونان کی بات کریں تو اس معاشرے میں عورت کی حیثیت بچے پیدا کرنے، بچے پالنے اور گھریلو کام کاج کرنے والی نوکر کی تھی۔ ایک ایک انتہائی دلخراش روایت یہ بھی ہے کہ مرد اپنی وصیت میں اپنی بیوی کو بطور نذرانہ کسی دوسرے کو پیش کرسکتا تھا۔

اس معاشرے میں افلاطون شاید وہ واحد فلسفی تھا جس نے کھل کر مرد اور عورت کے مساوی حقوق پر بات کی لیکن اس سماجی نظام میں اس کی بات کو اہمیت نہیں دی گئی۔ بادشاہ ضعیف العمر شہریوں کومجبور کرتے تھے کہ اپنی بیویوں کو نوجوان کے عقد میں دیں تاکہ وہ بچے پیدا کرکے فوج کی تعداد میں اضافہ کرسکیں۔

قدیم مصر اور ہندوستان ( ویدک زمانے ) میں عورت کی سماجی حالت باقی معاشروں کے مقابلے میں بہتر تھی وہ کاروبار کر سکتی تھی وہ اپنی مرضی سے شوہر کا انتخاب کر سکتی تھی لیکن آہستہ آہستہ ان معاشروں میں بھی عورت کا مقام دوسرے معاشروں جیسا ہو گیا یہ سماج بھی تنزلی کا شکار ہوگئے۔

بنت حوا پر مظالم کی داستانوں میں سے ایک ظلم غیرت کے نام پر قتل کی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے شواہد قدیم روم، وسطی ایشیا، ترکی، جزیرہ عرب، لاطینی امریکہ اور برصغیر میں ملتے ہیں یہ فرسودہ روایت آج بھی جاری و ساری ہے اور بدقسمتی سے وطن عزیز میں اس کی شرح دنیا کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کا مقصد خاندان کو بے عزتی سے بچانا ہے یا خاندان کی عزت بحال کرنا ہے۔ پاکستان میں مذہبی تعلیمات کو بطور عذر پیش کرکے اس ظلم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ حالانکہ مختلف علما نے قرآن اور حدیث کے حوالے دے کر اسے غیر شرعی قرار دے دیا ہے۔

یوں تو آئین پاکستان حقوق نسواں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے آرٹیکل 25 میں صاف صاف یہ کہاگیا ہے کہ جنسی امتیاز کی اجازت نہیں ہوگی لیکن وہ قانون ہی کیا جس پر عمل ہو۔ پاکستان کی عورتیں جنسی استحصال، گھریلو تشدد، رسوم کے بندھن، زبردستی کی شادی، امتیازی سلوک، تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں، زنا بالجبر، صحت کے مسائل سمیت کئی مسائل کے شکار ہیں۔

تعلیم ان سارے مسائل کے حل کی طرف پہلا قدم ہے تو اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو سونے اور چاندی سے پہلے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیجیے۔ تاکہ نوع انسان کے لیے ایسے معاشرے کا قیام عمل میں آجائے جس امن اور خوشحالی کی مثال کرہ ارض کی تاریخ میں نہیں ملتی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments