یہ فاصلوں کے فیصلے!



”کورونا وائرس“ کے بعد ماہرین طب نے اس سے بچنے کی جو تدبیریں بتائی ہیں، ان میں سے ایک سماجی فاصلہ بھی ہے۔ جہاں پوری دنیا اس سماجی فاصلے پر عمل کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کررہی ہے، کچھ ممالک اس سماجی فاصلوں کا بھرپور فائدہ اٹھا کر کورونا وائرس کو مات دے چکے ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح چینی عوام نے بلند حوصلوں سے اس وبا کا سامنا کیا۔ چین کے شہر ووہان کو کورونا وائرس سے محفوظ قرار دیا گیا تو عوام نے جشن نے منایا، پورے شہر کی عمارتوں کو رنگارنگ برقی قمقموں سے روشن کیا گیا، نہ صرف چینی عوام بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگ جو چین میں رہائش پذیر ہیں، سڑکوں پر آکر ڈاکٹروں، نرسوں صحت کے شعبے سے منسلک کئی دوسرے افرادوں کو خراج تحسین پیش کیاجو اس کوروناکی جنگ میں اپنی جان کی خطرے میں ڈال کر مریضوں کو کورونا سے بچا نے میں دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ انسانی جان قیمتی ہوتی ہے، جس کی حرمت تمام مذاہب میں مسلم ہے، مگر دین اسلام نے جو نقطہ انسانی جان کے بچانے کا پیش کیا اس کی نظیر نہیں ملتی کہ ایک انسان کی جان بچاناپوری انسانیت پر احسان عظیم ہے۔

آج کے دور کے انسان کو کورونا نے بالکل بے بس کردیا ہے، اس حوالے سے عالمی دنیا کس کرب میں کورونا وائرس کا مقابلہ کررہی ہے ہم سوشل میڈیا کے ذریعے پل پل کی خبر سے باخبر ہیں۔ گو کہ پوری دنیا میں انسان جہاں کہیں بھی ہیں، سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے ان کے پاس سوشل میڈیا واحد ذریعہ ہے جس سے پوری دنیا ایک دوسرے سے رابطے میں ہے، ہم مختلف ممالک کے عوام کے چشم دید حالات و واقعات سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھ اور سن رہے ہیں۔

فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، لنکڈان جیسی مشہور سوشل سائٹس ہمیں بتاتی ہیں کہ شدید متاثرہ ممالک میں بسی انسانی آبادی کورونا وائرس سے کس طرح مقابلہ کررہی ہے، لوگ گھروں میں بندہو کر کیسا محسوس کررہے ہیں، لاک ڈاؤن کے دوران اپنا اور اپنے بچوں کا وقت کیسے گزار رہے ہیں، تعلیم کیسے حاصل کررہے ہیں، کاروبار کو کیسے چلا رہے ہیں، صحت کے مسائل کو کس طرح مینج کیا جا رہا ہے، بے روزگاری کو کیسے قابو کیا جائے گا، عالمی کساد بازاری کے بڑھتے خدشات کیسے کم ہوں گے، عالمی معیشت پر قبضہ جمانے کی دوڑ میں شریک ممالک اپنی قومی معیشت بچانے کے لالے پڑ گئے ہیں۔

کورونا کے پیش نظر سماجی فاصلے کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ہفتہ پہلے فلپائن کے صدر روڈریگو ڈیوٹرٹ نے ملک میں کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے لاک ڈاؤن نافذ کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گولی مارنے کا حکم دیا۔ پانچ دن پہلے فلپائن کے ایک شہری کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر گول مادی گئی اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں کوروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے پابندی نہ کرنے پر شہری کو گولی ماری گئی ہے۔

مغربی و مشرقی ممالک میں کورونا وائرس کی موجودہ صورت حال میں گھروں سے نکلنے پر سخت پابندی ہے۔ ان ممالک کے عوام کو کہا گیا ہے کہ سماجی فاصلہ رکھیں اور احتیاطی تدابیر پر عمل کریں، ایسے میں لوگ سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے محتاط رہ کر کورونا وائرس سے جنگ کررہے ہیں، یہ وہ جنگ ہے جوانسان اور معمولی نظرآنے والے بیکٹیریا کے درمیان ہے۔ اس جنگ کا فاتح جو بھی ہو، مگر جنگ کے انجام تک پہنچنے پہلے قابل غور اور تدبر کی بات یہ ہے کہ انسان کو اس جنگ میں نفسیاتی شکست کا سامنا ہے، کیوں کہ اس کے لیے قرابت ہی اس کیسب سے بڑی دشمن بن چکی ہے، جس کی مثال تاریخ انسانی میں کہیں نہیں ملتی۔ کورونا نے اس سماجی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان کو انسا ن سے دور کردیاہے۔ ایک ایساخوف ناک ماحول ہمارے سامنے کھڑا ہوگیا کہ جس میں ایک انسان کی جان اس لیے ارزاں ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے قریب آنا چاہتا ہے۔

کورونا وائرس نے پوری دنیا کے انسانوں کو مذہبی و مسلکی، ترقی یافتہ و ترقی پذیر، امیر وغریب کی تفریق سے بالاتر ہوکر بتایا ہے کہ تمہاری فکریں میلی ہو چکی ہیں، ایسے ممالک جہاں مذہب کے نام پر انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہے اور مذہب کو جدید ہتھیار کی شکل دے کر مخالف پر تان کر زبردستی ان کے آئینی حقوق پامال کیے جاتے ہیں، ان کے لیے کوروناوائرس بھیانک بدلہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثیریتی آبادی کو ہندستان کی ہندو حکومت نے کئی مہینوں سے بند کررکھا ہے۔

راجھستان سے ایک دوست نے بتایا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتاکہ حکومتِ ہندوستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ان کے گاؤں، دیہاتوں میں واردنہ ہوتے ہوں اور غریبوں پر بے بنیاد الزام لگا کر تشدد کا نشانہ نہ بناتے ہوں۔ فلسطین کی غزہ کی پٹی کے لوگوں کے لیے کورونا وائرس کا لاک ڈاؤن ایک عام سی بات ہے، کیوں کہ کئی عشروں سے وہ ایسے ہزاروں لاک ڈاؤن برداشت کرچکے ہیں، ہاں مگر کئی اہم امور قابل غور ہیں جن سے فلسطینیوں اور کشمیریوں پر اس عالمی وبا کا گہرا اثر پڑسکتا ہے۔

مثلاًغزہ کی پٹی میں صحت عامہ کے مسائل ہیں جو پہلے سے مخدوش حالت میں تھے اب ان میں تیزی سے اضافہ ہوگا، فلسطین کو ملنے والا بیرونی امداد کا بھاری ذخیرہ بحری راستوں کی بندش کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے گا اور امدادی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ کشمیری سات مہینوں سے لاک ڈاؤن میں ہیں کسی کو خبر ہوئی کہ لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے؟ گلوبل ویلج کا راگ الاپنے والوں کی دماغی پرتیں بھی کھل رہی ہیں کہ یہ فاصلوں کے فیصلے کوئی ہے جو کررہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments