کرونا ایک وبا، امتحان یا عذاب


سال دو ہزار بیس کی شروعات بالکل بھی اچھی نہی رہیں کیونکہ سال کے آغاز میں ہی ایک وبائی مرض کی دنیا پہ یلغار ہو چکی تھی اس مرض کی گرچہ شروعات چین سے ہوئیں لیکن دو تین ماہ کے اندر اس نے دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابتدا میں تھنک ٹینکس کی طرف سے یہ شبہ بھی ظاہر کیا گیا کے یہ شاید قدرتی وائرس نہی بلکہ لیب وائرس ہے یعنی یہ ایک حیاتیاتی حملہ ہے۔ اور شبہ یہ ظاہر کیا گیا کے شاید یہ حملہ امریکہ نے چین کو معاشی طور پہ کمزور کرنے کے لیے کیا ہے۔

لیکن آنے والے دنوں میں امریکہ اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور دنیا میں اس وائرس سے شکار ملکوں میں نمیر ون ملک بن گیا جبکہ اٹلی دوسرے نمبر پہ۔ اس سے یہ شبہ کمزور پڑ گیا اور دنیا اس کو ایک قدرتی آفت سمجھنے پہ مجبور ہو گئی۔

ملک پاکستان بھی اس وائرس سے متاثرہ ملکوں میں شامل ہے۔ مارچ کے اوائل میں ہی لاک ڈاون کا فیصلہ ہو گیا جب ابھی چند ہی مریض تھے جس کی وجہ سے اس مرض کے کنڑول میں بہت مدد ملی اور آج پورے ملک میں الحمدللہ صرف چار ہزار دو سو کے قریب متاثرہ مریض ہیں۔ جبکہ اسی دورانیہ میں دیگر ممالک میں تعداد کہیں زیادہ تھی۔ جس پہ حکومت پاکستان ریاستی ادارے اور عوام بھی قابل ستائش ہیں۔

لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کے کیا یہ کرونا وائرس اللہ کی طرف سے کوئی امتحان ہے؟

اگر ایسا ہے تو ہم بطور پاکستانی قوم یا ایک مسلم معاشرے کے کہاں کھڑے ہیں تاریخ اسلام بتاتی ہے اور اللہ کا مقدس کلام بتاتا ہے کہ بے شک امتوں پہ اللہ کے امتحان آئے اور اسی بھی قومیں تھیں جو صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

موجودہ ماضی قریب کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ پہلی بار نہی ہے اس پہلے بھی کرہ ارض پہ ایسے وبائی امراض آ چکے ہیں جن میں سوائن فلو، برڈ فلو، ایشین فلو وغیرہ لیکن ان میں سب سے مہلک وبا سال انیس سو انیس میں دنیا پر جو وارد ہوئی اس کا نام سپینشن فلو تھا اور اس سے ہونے والی اموات کی تعداد پانچ کروڑ ک لگ بھگ تھی۔ جو کہ جنگ عظیم اول میں ہونے والی اموات سے اڑھائی گنا زائد تھی۔ اس وبا نے دنیا کا نقشہ بدل کے رکھ دیا تھا۔ اور اب کرونا وائرس کی شکل میں جو امتحان ہے اس نبرد آزما ملک پاکستان کے باشندوں کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کی طرف سے آئے اس امتحان میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟

مجھے لگتا ہے کے ہمیں اپنے رویوں پہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا وہ معاشرے جن کو ہم مادر پدر آزاد معاشرے کہتے نہی تھکتے تھے ان کا کردار ہم سے بہتر نہی۔ کیا ان کافر اور یہود و نصاری کے امراء نے اپنی دولت کے بڑے حصے اس آفت سے نمٹنے کے لیے وقف نہی کر دیے۔ جب کہ ہمارا رویہ کیا ہے؟ کیا ہمارے ملک کا متمول طبقہ بھوک سے تڑپتے لوگوں کی مدد کو آگے آرہا ہے؟ کیا درمیانی طبقہ کی اکثریت بھی حکومتی امداد کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں نہی ہے؟ کیا کاروباری طبقہ، سرمایہ دار اور جاگیر اپنی قوم کے بھوک سے نڈھال بچوں بوڑھوں بیواٶں اور ناداروں کی مدد کو نکل چکا ہے؟ کیا ہم اجتماعی توبہ کی طرف آ گئے ہیں۔ آئیں، ان سوالوں پہ سوچیں۔ شاید ہم اپنے رویے بدل سکیں، شاید ہم ایک بے سمت گروہ کے بجائے ایک قابل فخر قوم بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments