اناج دشمن عناصر


ایک زمانہ تھا کہ حکومتین سماج دشمن عناصر کے خلاف مہمات چلایا کرتی تھیں آج کل حکومتیں اناج دشمن عناصر کے خلاف مہم چلانا چاہتی ہے۔ مگر اناج دشمن عناصر اناج کے بل بوتے پر یہ مہم چلانے نہین دیتے کہ مہم چلانے والوں کے کچن کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب کسی ذخیرہ اندوز کے خفیہ سٹور پر چھاپہ مار کر ذخیرہ کیا ہوا مال واگزار کرایا جاتا تھا اور کافی مقدار میں چھاپہ مارنے والوں کا حصہ بن جاتا تھا اور باقی اوپر چلا جاتا تھا مگر اب چھاپہ مارنے والوں کو کچھ بچتا ہی نہیں سب اوپر چلا جاتا ہے۔

کوئی نشہ بیچتا ہوتا تو اس کے اڈے پر چھاپہ مار کر اس سے منشیات برامد کرنے کی کوشش کی جاتی۔ آج کل منشیات اپنے پلے سے ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خواہ ثابت ہو یا نہ ہو! کوئی چور بازاری کر رہا ہوتا تو اسے ایسا کرنے سے منع کرنے کی جستجو کی جاتی تھی آج کل ترغیب دی جاتی ہے اور موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ جب بھی موقع ملے کوئی وبا پھوٹے کوئی آفت آئے تو اپنے حلقے پکے کر لئے جائیں۔

کبھی کبھی بھکاریوں کے خلاف بھی مہم چلائی جاتی تھی کہ وہ بھیک مانگنے سے باز رہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالیں۔ آج کل بھکاری بنائے جاتے ہیں کہ مانگ کر اور مانگنے کے نئے طریقے ایجاد کر کے نہائیت محنت سے اپنا اور اپنے اعزا کا پیٹ پالیں یا کاٹیں۔

وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اقدار بھی بدلتی ہیں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ وہ جو کبھی مجرم کہلاتے تھے اب محترم کہلاتے ہیں ایک نقطہ اپنا کام کر گیا ہے۔ دعا دینے والے اب دغا ہی دیتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والے اور چور بازاری کرنے والے اب بڑے باکمال ہو چکے ہیں۔ وہ یہ دھندے بند کرانے والوں کے ساتھ مل کر اب اپنا کام کرتے ہیں۔ انہیں اب ڈر نہیں کہ گھر والا گھر نہیں اور کسی کا ڈر نہیں۔ ان کا گھر والا گھر ہو تو انہیں ڈر نہیں لگتا۔

یہ اپنے تعلقات استعمال کرتے ہیں اپنی مالی قربانی یاد کرواتے رہتے ہیں یوں انہیں چشم کور سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ منشیات کی روک تھام کرنے کی بجائے یہ مشورے دیے جاتے ہیں کہ ان سے ادویات بنائی جائیں۔ تاکہ منشیات کا کاروبار بھی باعزت روزگار میں شمار ہو جائے۔ ویسے منشیات فروش پہلے ہی بہت معزز اور با وقار گردانے جاتے ہیں۔ منشیات والے چاہتے ہیں کہ ہر کوئی اپنی ہی مستی میں مست رہے اور اپنی اپنی بلو کو سائیکل پر بیٹھنے کی ترغیب دے اور کبھی سیدھے ہی شادی کی فرمائش کر دے ویسے میرا جسم میری مرضی کے بعد یہ بہت خوش ہوں گے کہ اب شادی کی ضرورت ہی نہیں! اس پہ مستزاد کہ ایسی بیہودہ گری کو ثقافت کا نام دے کر اس کی تصویر کشی کرنے والے چینلز کو سر آنکھوں پہ بٹھا لیا جائے!

یہ اب سماج دشمن عناصر تو کہلاتے ہی نہیں بلکہ ہم انہین اناج دشمن عناصر کہ سکتے ہیں کہ یہ اکثر و بیشتر آٹے چینے سبزی دال چاول مطلب اناج کا بحران پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی اناج ہی کھاتے ہیں مگر دشمن ان کے عوام ہیں۔ اللہ کرے کہ اناج کھانے والے راہ ہدایت پر آ جائیں ورنہ ان کے دشمن باقی نہیں رہ پائیں گے۔ اور پھر بچوں کے دودھ والے بھی ان عناصر کے خلاف بھی مہم چلاتے پھریں گے اور کہتے پھریں گے کہ یہ میرے بچوں کا دودھ بھی پی گئے یا کھا گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments