سیاست کی برمودا ٹرائی اینگل میں غرق ہوتے جہاز


برمودا ٹرائی اینگل سے کون واقف نہیں ہے۔ آج کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین اس دنیا میں برمودا ٹرائی اینگل بدستور ایک معمہ ہے اور ماہرین اس سے متعلق کوئی حتمی رائے نہیں دے سکے کہ برمودا، فلوریڈا اور پیورٹوریکو کے درمیان کم وبیش پانچ لاکھ مربع میل کے سمندر کی فضاوں سے گزرنے والے جہاز اور اس کے پانیوں پر چلنے والے بحری جہاز حادثات کا شکار ہو کر سمندر میں غرق کیوں ہوجاتے ہیں۔ اس ٹرائی اینگل کی پراسراریت اپنی جگہ پر جدید ٹیکنالوجی کے لیے سوالیہ نشان ہے تاہم اس ٹرائی اینگل یا تکون سے مماثلت رکھنے والی ایک نئی سیاسی ٹرائی اینگل یا تکون نے جب سے جنم لیا ہے اس تکون کی گتھی بھی سلجھائے نہیں سلجھ رہی ہے۔

جی ہاں یہ نئی سیاسی تکون تیسری دنیا کے اس مسائل زدہ ملک میں بنی ہے یا پھر بنائی گئی ہے جہاں پر کروڑوں انسان آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولیات آبادی کے تناسب سے ناصرف بہت کم ہیں بلکہ جو میسر ہیں اس سے بنی نوع انسان کی ناتو فکری آبیاری ہوسکتی ہے اور نا ہی صحت مند زندگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اس عہد جدیدمیں بھی نسل درنسل صدیوں پرانی روایات کو سینے سے لگائے فخر کے ساتھ جینے والی قوم کی ترجیحات کیا ہوسکتی ہیں یہ بھی کسی المیے سے کم نہیں ہے۔

جس ملک میں ایک ہمسائے لادین ملک کو اپنے گرم پانیوں تک رسائی سے روکنے کے لئے کئی نوجوان نسلیں قربان کردی گئی ہوں۔ وہ نوجوان جو اپنے والدین کے بڑھاپے کا سہارا تھے اُن کی لاٹھیاں اُن کے عصا تھے اور ان لاٹھیوں جس کے سہارے وہ بوڑھے والدین اپنی زندگی کے بقیہ دن گزار سکتے تھے کو جمع کرکے ایک ایسی مقدس آگ کا ایندھن بنادیا گیا جس کی تپش پر کسی نے ہاتھ سینکے تو کسی نے اس آگ سے روشنی پائی جبکہ انکل سام نے اس مقدس الاؤ کی آگ پر کافی تیار کرکے گھونٹ گھونٹ چسکی لیتے ہوئے جیب سے کچھ مونگ پھلیاں نکال کربطور اجرت سرراہ پھینک دیں۔

اس مقدس الاؤ کو جلانے والے محنت کشوں نے حقارت سے سہی مگران مونگ پھلیوں کو محض اس خاطر اٹھا لیا کہ رزق اگر زمین پر پڑا رہے تو اس کی بے حرمتی ہوتی ہے کچھ بھی ہو کم سے کم یہ بے حرمتی تو ناقابل برداشت ہے۔ بات یہاں تک رہتی تو شاید ٹھیک ہوتی مگر ستم یہ بھی تو ہوا کہ وقت بدلا اور اس مقدس الاؤ کی آگ سرد ہونا شروع ہوگئی اور بالآخر بجھ گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی اسی لادین ملک کو دعوت دی گئی کہ وہ اگر گرم پانیوں تک رسائی چاہتاہے تو اس کو نئی عظیم الشان تجارتی گزرگاہ جو اس کو گرم پانیوں تک لے جائے گی کو استعمال کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی کچھ بوڑھے اس مقدس الاؤ کی طرف لپکے اور بجھی ہوئی راکھ میں اپنے عصا, اپنی لاٹھیاں تلاش کرنے لگے کہ شاید کچھ مل جائے مگر سوائے راکھ کی سیاہی کے ان کے نصیب میں کچھ نہ آیا۔

تو بات ہورہی تھی نئی سیاسی تکون کی تو اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ جب تیسری دنیا کا یہ ملک معرض وجود میں آیا تو اس ملک کو بنانے والی جماعت نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی کچھ مدت بعد معاملات ٹھیک نا ہوئے تو اس ملک کی سیاست میں اقتدار کا ایک نیا کونہ تشکیل پاگیا جس کو کسی عوامی رائے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ یہ صرف ہم وطنوں کو آکر بتاتے تھے کہ عزیز ہم وطنو اب آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ کچھ مدت تک معاملات اسی طرح چلے مگروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کے عوام کا سیاسی شعور بھی سفر کرتا رہا اورملک کی تخلیق کے تین دہائیوں بعدبائیں بازو کی ایک نئی سیاسی جماعت میدان میں اتری اور اس طرح ملکی سیاست میں ایک سیاسی تکون تشکیل پاگئی جس میں رائیٹ، لیفٹ اور تیسرا کونہ شامل تھے۔ نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کے بعد اقتدار اور اختیار کی تقسیم ہونا شروع ہوگئی جس سے فائدہ نہیں ہوا اور ایک بار پھر عوامی رائے کا جہاز ٹرائی اینگل کے تیسرے کونے کی طرف محو سفر ہوگیا۔ مگر برمودا کی تاریخ کے عین مطابق یہ جہاز دوران سفر مسافروں سمیت تباہ ہوگیا۔

قصہ مختصر کہ اس ملک کی عوام جمہوریت کے نام پر دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے پیچھے سفر کرتی رہی۔ نئی صدی کے آغاز سے کچھ پہلے رائٹ کی سیاست کا جہاز اڑان بھر چکا تھا اوروہ بھی بے سمت ہوا جب واپس اترا تو اقتدار اور اختیار تکون کے تیسرے کونے میں امان حاصل کرچکا تھا۔ پھر ایک دہائی تک ایک فرضی جماعت بنا کر اس کے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نا ہوسکی اور سیاست ایک بار پھر روایتی حریفوں لیفٹ اور رائٹ کے درمیان شروع ہوگئی۔

ایک بار پھر سیاسی تکون کا تیسرا کونہ حرکت میں آیا اور اس بار اس تیسرے کونے نے جمہوری لبادہ اوڑھ لیا اور ملک کی سیاست کی تکون کو پہلی بار تیسرے کونے پر ایک سیاسی جماعت نصیب ہوئی۔ اس جماعت کو مسیحا کے طورپر پیش کیا گیا اس کی لیڈرشپ میں بہت محنت کرکے ہوا بھردی گئی۔ اس بار ایک ایساسیاسی مہاتما تشکیل دیا گیا کہ مانو جس کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود تھا۔ کہاوت ہے کہ دلہن وہ جو پیا من بھائے اور بالآخر اقتدار اس تیسری قوت کے پاس چلا گیا یاپھر بھیج دیا گیا اگر سادہ الفاظ میں کہیں تو دے دیا گیا۔ دل کی مرادیں برآئیں۔

مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ سیاست کا یہ تیسرا کونہ برمود ا جیسا ہی ثابت ہوگا۔ مسیحا سے مسیحائی نا ہوسکی اور مہاتما کوئی چمکتار نا دکھا سکا۔ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی چکی میں پستی ہوئی بدنصیب عوام پر مزید ٹیکسز کے ذریعے ایک مسلسل عذاب مسلط کردیا گیا۔ کاروبار ختم ہوتے گئے عوام کی فی کس آمدنی کم ہوتی گئی ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا۔ مطلب کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو بہتر ہورہا ہو۔ اور اس جلتی پر تیل کا کام ایک وبائی مرض نے کردیا اور سسک سسک کر چلتی ہوئی معیشت بظاہر وبا کی بدولت رک گئی۔

وبائی مرض کی بدولت پیدا ہونے والی عارضی صورتحال تو شایدچند دنوں تک ختم ہوجائے اور عوام کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت دے بھی دی جائے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ملکی معاشی حالات جلد بہتر ہوسکتے ہیں؟ کیا عوام کی حالت زار میں بہتری آئے گی؟ یہ ایسے سوال ہیں جس کا جواب ہرکوئی تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ لازمی بات ہے کہ ان سوالوں کے جواب مثبت اور منفی دلائل کے ساتھ فریقین کی طرف سے آئیں گے اور پوری شدومد کے ساتھ آئیں گے اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاید اس باردلائل یا گفتگو اونچے لب ولہجے میں ہو۔

مگر مندرجہ بالا سوال کرنے والے اور ان سوالوں کے جواب دینے والے شاید ایک بات بھول گئے ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل کی تیسری سمت میں سفر کرنے سے ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے۔ برمودا کی تاریخ گواہ ہے کہ اس تیسری سمت میں سفر کرنے والے بحری جہاز یا ہوائی جہاز نے اپنا سفر مکمل نہیں کیا۔ تکون کے تیسرے کونے یا تیسری سمت میں سفر بہرحال جانی ومالی نقصان کا سبب بنا ہے۔ کاش کہ اب کوئی اس تیسری سمت کی طرف اپنا سفر شروع نا کرئے اور غلطی سے اگر کسی نے اس سمت سفر شروع کربھی دیا ہے تو اب بھی موقع ہے کہ واپسی کی راہ لے وگر نہ تیسرے کونے یاتیسری سمت میں سفر کرنے کا شوق وبال جان بھی ہوسکتا ہے۔ کم سے کم اب تک کا سفر تو یہی بتا رہا ہے کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments