فکشن کی سلطنت میں ہمیشہ دو چار نام ہی رہتے ہیں



جب اردومیں افسانہ نگاری کا آغاز ہوا، اس وقت مغرب کے کئی شاہکار ہمارے سامنے آچکے تھے۔ جان گالزوردی، موپاساں، چیخوف اور ایڈ گرایلن پو کی کہانیوں نے اردو زبان کے شروعاتی دور کے افسانہ نگاروں کو متوجہ کیا تھا۔ سجاد حیدر یلدرم اور سلطان حیدر جوش کی کئی کہانیاں ایسی ہیں، جن پر آپ محض روایتی ہونے کا فتویٰ نہیں دے سکتے۔ اس وقت کی کہانیوں میں ایڈ گرایلن پو، موپاساں اور چیخوف کا رنگ غالب تھا۔ اسی طرح بعد کے کچھ افسانہ نگاروں، خصوصی طورپر ترقی پسند تحریک سے متاثر افسانہ نگاروں پر روسی افسانہ نگار سوار تھے۔

جیسے ان دنوں مارخیز، بورخیس اور میلان کندیرا کا اثر کچھ دوستوں کے افسانوں میں صاف نظر آرہا ہے۔ میری ناقص رائے میں فیشن زدہ روایات کا حصہ بننے سے کہیں بہتر ہے، کسی کے رنگ یا اثر کو قبول کرنا۔ آغاز سے ترقی پسند دور تک منٹو ہوں یا عزیز احمد کی کہانیاں، ان پر مغرب کے اثرات تو تھے لیکن ان کا اپنا رنگ بھی غالب تھا۔ 60 سے 80  کی دہائی تک جدیدیت کی لہر میں اوریجنلیٹی بہت حد تک مفقود تھی۔ یہاں فیشن زدہ جدیدیت کا اثرزیادہ تھا۔

نتیجہ ہر بھیڑ ایک ہی سمت دوڑ رہی تھی۔ لیکن 60 اور 80 تک مینرا، سریندر پرکاش، قمر احسن، اکرام باگ اور حسین الحق نے بھی ہماری زبان کو کئی عمدہ کہانیوں کی سوغات دی۔ رنگوں اور اثرات سے نہ شعری دنیا خالی ہے اور نہ فکشن کی دنیا۔ مغرب کو ہی لیجیے تو سارتر، گراہم گرین کا رنگ ایک جیسا لگتا ہے۔ اسی طرح موپاساں، چیخوف اوراوہنری کی کہانیاں بھی ایک جیسی لگتی ہیں۔ نجیب محفوظ سے اوہان پامک تک آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اسلوب انفرادی شناخت رکھتا ہے۔

80 کے بعد اردو میں رجحانات اور تحریکات کے رنگ پھیکے پڑگئے۔ اس لئے محض ان تحریکات کے بل بوتے پر اعلی درجہ کا ادب پیش نہیں کیا جاسکتا۔ جینوئن فنکار کے لئے یہ کہنا کہ وہ کسی نظریے کا اسیر نہیں ہوتا، یہ بات80 کے بعد سامنے آئی۔ ترقی پسند ہوں یا جدیدیت کا ادراک رکھنے والے، یہ دونوں ہی نظریات سے وابستہ تھے۔ ان میں کئی نام ایسے تھے جن کے جینوئن فنکار ہونے سے مطلق انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، محض ادبی رجحانات کے بل بوتے کوئی ادب بڑا ادب نہیں ہوسکتا۔ اس لئے تحریکات سے وابستہ جینوئن افسانہ نگاروں نے ایک علیحدہ لکیر کھینچنے کی بھی کوشش کی، جس کی وجہ سے ان کی شناخت میں آسانی ہوئی۔

اردو فکشن کو مخصوص اور محدود نظریے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی اور محض ان کو تسلیم کیا گیا جو فکشن کے فن کے لئے لازمی طورپر کارآمد تھے۔ یہاں اسلوب بیان اورزبان کے تجربے تومحض ہاتھی کے دکھانے والے دانت ثابت ہوئے۔ یہاں ماجرا کچھ اور ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ فکشن کا معیار کس نے قائم کیا؟ یعنی جو اس معیار پر کھرا نہیں وہ فکشن کے فن سے ناواقف؟ زبان کا مسئلہ اور تجربے کو فن پر اہمیت دی گئی۔ اور بہت ہوشیاری اور چالاکی سے 1960 سے اب تک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ بتوں کو کھڑا کردیا گیا کہ یہی ہمارے اصل افسانہ نگار ہیں۔

حقیقت یہ کہ جنہیں تسلیم کیا گیا، وہ مخصوص رجحانات اور تحریکات کے بل بوتے پر آئے تھے اور انہیں پسند کیے جانے کی وجہ بھی یہی تھی۔ اور اس لئے ان بیشتر ناموں کو ریجکٹ کرنے کی مہم چلی، جو اس تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر آپ سارتر کو پسند کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسی عہد کے البیر کامو کو ریجکٹ کرنا آپ کے لئے ضروری ہو۔ اگر کافکا، سارتر، ورجینا ولف، مارخیز، بورخیس، ملان کندیرا کے مخصوص اسلوب پر آپ جان دیتے ہوں تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ روسی افسانہ نگار، افسانہ نگار نہیں تھے۔

وکٹرہیوگو، جارج آرویل، ہنری جیمس، سال بیلو کو آپ ریجکٹ کردیں۔ لیکن اردو میں یہی تماشا ہوا۔ یہ فکشن پر مخصوص تحریک کی تانا شاہی تھی کہ بیس تیس برسوں میں اپنی پسند کے چند ناموں پر مہر لگائی گئی اور باقی افسانہ نگاروں کی انفرادیت کو قبول کرنے سے انکار کیاگیا۔ نئی صدی کے 20 برسوں میں تحریک بھی گئی اور تحریک پر چلنے والے بھی گئے۔ اس کے باوجود اپنے مطالعہ کی بناپر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اردو فکشن کا منظر نامہ کچھ ایسا مایوس کن بھی نہیں ہے۔

صرف ہندوستان کی بات کیجئے تو بیشتر جینوئن فنکاروں کے یہاں دو ایک کہانیاں ایسی ضرور مل جائیں گی، جنہیں آپ دنیا کے کسی بھی شاہکار کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔

80 سے قبل کا منظرنامہ یہ تھا کہ شب خون کے علاوہ جواز، نشانات، الفاظ، آہنگ جیسے بے شمار رسائل تھے جو نہ صرف کھیپ میں افسانہ نگار پیدا کررہے تھے بلکہ افسانہ نگاروں پر مسلسل گوشے اور مضامین شائع ہورہے تھے۔ انتظارحسین کو اصل مقبولیت اسی دور میں ملی۔ اس دور میں بلراج منیرا، سریندرپرکاش اور قمر احسن کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ 80 کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس لئے 80 کے بعد کا افسانہ نگار اگر زندہ رہا اور زندہ ہے تومحض اپنے فن کی بدولت۔ 80 کے بعد کسی بھی طرح کی تحریک سے انکار کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت سامنے آئی۔ یہاں تازگی بھی ہے اور دہرانے کا عمل بھی۔ اور محض دہرانے کا عمل، کہنا بھی ایک سرسری ریمارک ہے۔ در اصل جسے ہم دہرانا، کہہ رہے ہیں، کبھی کبھی وہاں بھی زندگی کا کوئی نیا فلسفہ، نیا پہلو، نیا رنگ پوشیدہ ہوتا ہے۔

اردوفکشن کی عمومی صورتحال بہتر ہے۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب ہم اردو زبان کی بات کرتے ہیں تو اردوکا مطلب صرف ہندوستان نہیں ہوتا۔ پاکستان کے علاوہ بھی ایک عالمی بستی ہے جہاں اردو کے اچھے لکھنے والے موجود ہیں۔ مصطفی کریم نے کئی اچھے ناول ہماری زبان کو دیے۔ اشرف شاد، جیتندر بلو، نیلم احمد بشیر اور کئی ایسے نام ہیں، جنہیں توجہ سے پڑھنے کی ضررت ہے۔ اسی طرح مستنصر حسین تارڑ، رضیہ فصیح احمد، مرزا اطہر بیگ سے حمید شاہد، آصف فرخی، عاصم بٹ تک کئی اہم فکشن نگار ہمارے سامنے ہیں۔

اسد محمد، خاں، زاہدہ حنا، اسد محمد خان، طاہرہ اقبال جیسے کئی نام ہیں جو عمدہ لکھ رہے ہیں۔ اخلاق احمد، اقبال خورشید کی کئی کہانیاں ایسی ہیں جن میں سیاست اور سماج کے بلیغ اشارے موجود ہیں۔ پاکستان میں، نئی نسل میں بے شمار نام ہیں جو متوجہ کرتے ہیں۔ اگر ہندوستانی فکشن کی عمومی صورتحال پر غور کریں تو ظاہر ہے صورتحال مختلف ہے۔ 1947 کے بعد اردو کا رشتہ روزی روٹی سے منقطع ہوگیا۔ 2000 کے بعد اگر نئی نسل کی بات کیجئے تو صورتحال بھیانک ہے۔

نئی نسل اردو نہیں جانتی۔ مدرسوں سے نکلنے والے بچوں کے ہاتھ میں اردو کا مستقبل ہے۔ کالج یونیورسٹیوں میں انہی بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مدرسوں سے نکلنے والے زیادہ تر بچوں پر مذہب کا غلبہ ہے۔ جب تک اس غلبہ سے وہ خود کو آزاد نہیں کرتے، بہتر ادب کی تخلیق ممکن نہیں ہے۔ یہاں ایک نفسیاتی نکتہ بھی ہے، جس کا اظہار ضروری ہے۔ ’جب آپ ریس میں ہوتے ہیں تو زیادہ تیز دوڑتے ہیں۔ کل اردو رسائل کی بھیڑ تھی تو لکھنے والے بھی تھے۔

آج ہندوستان میں انگلیوں پہ شمار کیے جانے والے دو چند رسائل ہی رہ گئے ہیں۔ اس لئے موجودہ عہد میں جو فکشن رائٹر لکھ رہے ہیں، ان میں بیشتر ایسے ہیں جن کی عمر ساٹھ سے زائد ہو چکی ہے۔ اس لئے تحریکات کی غیر موجودگی، رسائل کی کمی، قارئین کی خوفناک حد تک خاموشی نے بھی ادبی صورتحال کو متاثر کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی عہد کا جائزہ لیں، فکشن کی سلطنت میں زیادہ نام نہیں ہوتے۔ کچھ ہی لوگوں کی حکومت ہوتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments