تم زمین پر تو قابض ہو سکتے ہو، دلوں پر نہیں



ملکی حالات کو زیر نظر رکھنے کے لیے پارٹی سیاست بھی کافی ہو سکتی ہے، جس کا شکار ہمارا معاشرہ ہے۔ مگر عالمی حالات کی سمجھ بوجھ کے لیے حکمت اور دانش درکار ہوتی ہے۔ جب چہار سو غالب والا ”کارخانہ ہو جادو کا“ تو حالات و واقعات کی تہ تک رسائی کے لیے آنکھ اور دل کو یکجا کیا جا سکتا ہے۔

احمد مشتاق نے کہا ہے:
جب اسے دیکھو، آنکھ اور دل کو ساتھ ملا لینا
ایک آئینہ، کم پڑ جائے گا، حیرانی میں

ہمسایہ ملک نے کووڈ۔ 19 سے جڑے ہوئے نقصانات کے ازالے اور تجارتی امور سے متعلق معاملات کے تخمینے کے لیے ایک ”کانفرنس“ کا انعفقاد کیا تھا، یہ سارک ممالک کی بیٹھک تھی، جس میں سارک سے وابستہ ممالک کے اکابرین نے ’آن لائن‘ شرکت کی۔ پاکستان نے گزشتہ روز ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی، دفتر خارجہ نے عدم شرکت کی یہ وضاحت جاری کی ہے کہ دہلی کی میزبانی کی بجائے سارک کے سیکریٹری کا پلیٹ فارم اس مقصد کے لیے اسٹیج کی زینت ہونا چاہیے تھا۔

درحقیقت سارک کے عضو معطل ہونے کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ بھارت نے چار سال قبل اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں نا صرف خود شرکت سے انکار کیا تھا بلکہ اپنا اثر و نفوذ استعمال کرتے ہوئے سارک سے جڑے ہوئے دوسرے ممالک کو بھی اس میں شرکت سے باز رکھا تھا۔ یوں افہام تفہیم کا یہ پلیٹ فارم ناکارہ ہو گیا۔

اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری کی بڑی وجہ کشمیر کا قضیہ ہے۔ ”اسٹینڈ سٹل ایگریمنٹ“ کے پاکستان اور مہا راجا کشمیر کے درمیان دستخط ہونے کے باوجود وادی پہ بھارت کا بزور جبر قابض ہونا تاریخ میں انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔ یاد رہے کہ مودی سرکار نے پانچ اگست کے یک طرفہ اقدامات کے بعد ریاست کا قانونی اور حقیقی تشخص بدل ڈالا تھا۔ اس تاریک دن سے لے کر آج تک کشمیریوں کو مزید پابندیوں اور ظلم کا سامنا ہے، اب کہیں جا کے سیلولر سروس کو بحال کیا گیا تھا، اسکولوں کو کھول دیا گیا تھا، مگر محاصرے کی کارروائیاں جاری ہیں۔ ’چار اور پانچ جی‘ کی ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے ان کو ”دو۔ جی“ تک محدود کرنا انصاف کے کون سے قوانین کے مطابق ہے۔

دوسرا جبر دہلی سرکار نے یہ کیا ہے کہ باشندہ ریاست کا قانوں بھی بدل ڈالا ہے، جس کے مطابق کوئی بھی دہلی کا باشندہ جس نے میٹرک کی جماعت وادی سے پاس کی، دہلی کے ساتھ وادی کا بھی ”شہری“ تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کوئی بھی بھارتی شہری جس نے پندرہ سال وادی میں گزارے، کشمیریوں ہی کی طرح ریاست کی پراپرٹی میں برابر کا شریک جانا اور مانا جائے گا۔ دہلی سرکار نے کمال مہارت اور چال سے کشمیر کی ”ڈیموگرافی“ کو بدلنے کے لیے نئے قوانین میں یہ بھی شامل کیا ہے کہ فورسز کا کوئی بھی اہل کار جو گزشتہ دس سال سے مقبوضہ وادی میں تعینات ہے اس کی اولاد کو وادی کے شہری ہونے کا درجہ حاصل ہو گا۔

مودی کی حکومت نے ڈیموگرافی کے بدلنے کی چال اس لیے کی ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں کی تعداد آٹھ دس لاکھ ہے ان میں سے یقینا ایک بڑی تعداد کئی سالوں سے وہاں مقیم ہے، جو باشندہ ریاست کے نئے قوانین کے تحت پہلے سے مقیم آبادی کی ساخت کو بدلنے میں اہم کرداد ادا کرے گی۔ بھارت پہلے ہی ہٹ دھرمی سے وادی کے چپے چپے پہ قابض ہو چکا ہے، اب یہ اقدامات کشمیریوں کی امنگوں کے لیے کسی زہر قاتل سے کم نہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے ان تشویشناک اقدامات پر گہرے دکھ اور پریشانی کا اظہار کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ کشمیری پاکستان کے ہر اول دستے کے اہم ستون ہیں۔ گزشتہ سال عالمی فورم پر کشمیر کا مسئلہ انہوں نے جرات رندانہ سے پیش کیا تھا، جس کو سب دنیا نے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ ہمیں درپیش حالات کے مطابق از سر نو اپنے اقدامات کا جائزہ لینا چاہیے۔ حالات کے مطابق حکمت عملی کو ترتیب دینا کامیابی تک رسائی کا نہایت اہم جز ہے۔

بلاشبہ یہ بھی اظہر من الشمس کہ کرونا کی عالم گیر وبا دو سو سے زائد ممالک میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔ مضبوط ترین معیشت والے ممالک بھی مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ برطانیہ میں بیروزگاری کی وجہ سے ایک دن میں دس لاکھ سے زائد نوجوانوں نے ”یونیورسل اکاؤنٹ“ سے مدد مانگ لی ہے۔ اور اموات کی شرح بھی خوفناک حدود کو چھو رہی ہے۔ بھارت نے ہمیشہ ایسے مواقع کا انتظار اور انتخاب کیا، جو دیگر ممالک کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے موافق ہوں۔ اب کی بار عالمی وبا کی ”سہولت“ کو بھی اس نے نظر انداز نہیں کیا اور ہٹ دھرمی کا ایک نیا ریکارڈ قائم کر ڈالا۔

پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد پاکستان نے عالمی سطح پر قابل قدر کو ششوں کا آغاز کیا تھا جن میں ایک اقدام کام کے حوالے سے ”متحرک“ مشہور ہونے والے وزیر خارجہ کہ زیر نگرانی، سفارتی دفاتر میں ”کشمیر ڈیسک“ قائم کیے جانے تھے۔ ان کے قائم کرنے کا مقصد تحریک آزادی کو نمو بخشنا تھا۔ اس کے علاوہ کشمیریوں کی سفارتی، اخلاقی، سیاسی حمایت کو موثر کرنا شامل تھا۔ توجہ طلب یہ ہے کہ ہمارے سیاسی اکابرین اور دانشور طبقے کو مل بیٹھ کر ایک مشترک لائحہ عمل کا انعقاد کرنا چاہیے جس کے مطابق یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ اگر مظفر آباد میں نا سہی تو اسلام آباد میں ”بین الاقوامی کشمیر کانفرنس“ کے انعقاد کو ممکن بنایا جا سکے۔ یہ اہم کام ہر سال سرانجام دینے میں کوئی عار نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت اقتدار سنبھالتے ہی جدید طرز فکر اپناتی تو اب تک دو دفعہ ایسا ہو چکا ہوتا۔ اس طرح آر پار آزادی اور امنگوں کی نئی کونپلیں پھوٹ پڑتیں۔

بھارت ان یک طرفہ اقدامات سے کشمیریوں پر ظلم ستم کا بازار سرگرم رکھ سکتا ہے، ڈومیسائل کے قوانین میں بندوق کی نوک سے ”ترمیم“ کر سکتا ہے، مگر آزادی کی شمع کو نحیف نہیں کر سکتا، وہ وادی کی زمین پر تو قابض ہو سکتا ہے مگر حریت پسندوں کے دلوں میں موج زن جذبہ آزادی پر نہیں، ہر گز نہیں۔

ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور
Latest posts by ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments