برگد: بابل کا استعارہ۔ ایک جائزہ



تہذیب و تربیت سے سجی سنوری خوش شکل، خوش گفتار و خوش لباس شخصیت کی حامل، خوشگوار مزاج، قابل تحسین علمی و ادبی ذوق اور قلم و قرطاس کے شوق کے آئینہ دار اوصاف کی مالک حوا کی بیٹی، نیل بوہر کے دیس ڈنمارک میں مقیم پاکستانی نژاد اینکر، محقق، اور منفرد اسلوب رکھنے والی قلمکار محترمہ صدف مرزا ایک عورت نہیں بلکہ مکمل فرد کی انفرادیت کی حامل پوری انسان ہیں۔ صدف مرزا کی شخصی سندرتا، خیال کی کوملتا اور اسلوب کی مدھرتا کا حسین امتزاج ہی ہے جو اسے اپنے ہم عصروں میں ممتاز و نمایاں کرتا ہے۔

اردو، فارسی، عربی پنجابی، انگریزی اور ڈینش زبانوں پر مہارت رکھتی ہیں۔ وہ محض تدریسی اداروں کی بڑی ڈگریوں والی ادیبہ نہیں بلکہ جو بات صدف مرزا کو امتیازی سند فراہم کرتی ہے وہ اس کے گھر کا غیر رسمی تدریس و تعلیم کا کلاسیکل مرکز ہوناتھا جس میں ان کے علم دوست والد ماجد سقراط کی طرح سوفسطائی طریقہ تدریس یعنی گفتگو اور سوال و جواب میں دنیا بھر کی الجھنوں کو سلجھاتے تھے اور مکالمے کے ماحول میں ارد گرد موجود افراد کی فکری راہنمائی اور تربیت بھی کرتے تھے۔

صدف مرزا کا علمی و قلمی رچاؤ اور لسانی و فکری بہاؤ اسی گھریلو جامعہ کا ہی ورثہ ہے جسے وہ ہر لمحہ سینے سے لگائے رکھتی ہے۔ یہ ورثہ ان کے والد صاحب نے اسلاف کی عظمت کے احساس کے ساتھ صدف کو منتقل کیا اور ایک سچے اور سچے گہر نایاب کی طرح صدف نے باپ کی اس علمی نسبت کو اپنی حیات کا تناسب بنایا۔ اس نے شفقت پدری کو کل اثاثہ جانا اور ”تمہارے نام کی نسبت سے نیک نام ہوں میں“ سمجھ کر پل پل اسے سنبھال کر رکھا۔

وہ بابل کے گھر سرائے عالمگیر جیسے پسماندہ علاقے سے سات سمندر پار کوپن ہیگن بھی گئی تو سکینڈے نیویا کی چکاچوند اس کی آنکھوں کو خیرہ نہ کرسکی، اس نے باپ کی تربیت اور تہذیبی اقدار کو ہی اپنے نینوں کا سرمہ بنا کر رکھا۔ والد ماجد نے جس بیٹی کو گھٹی میں علم و ادب کا شہد پلایا تھا اس نے والد کی فکر کو اپنے قلب کا سرور کا بنانے کے لیے مطالعے اور قلم کو ذریعہ بنا لیا۔ مغرب کی مادیت کا اسیر ہونے کی بجائے مشرقی و مغربی ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا اور فکرودانش کے معیار کے لیے اپنے لاشعور و شعور میں بسے اپنے حقیقی ہیرو اپنے والد کی تعلیم و تربیت پر کامل انحصار کیا۔ وہ ایسا کیوں نہ کرتی، اس کے ہیرو والد نے اس پر اعتماد و یقین ہی اتنا زیادہ کیا تھا کہ اس توانائی نے اسے زندگی بھر چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ Jim Valvno نے کہا تھا کہ

”My father gave me the greatest gift anyone could give another person ;he belived in me۔ “
جس بیٹی کو والدین لاڈ اور اعتماد دیتے ہیں وہ دنیا کے کسی امتحان میں ناکام نہیں ہوتی۔ صدف نے تو بابل کو زندگی سے بھی پیارا جانا۔ وہ خود کہتی ہے۔ اس کا شعر ہے کہ

مرے کلام میں بابل وہ استعارہ ہے
صدف مجھے جو مری زندگی سے پیارا ہے۔

صدف مرزا کے بارے میں یہ تمہید اس کی خودنوشت ”برگد“ کی ورق گردانی کرتے ہوئے یاد آئی ہے۔ چند ماہ قبل بک کارنر جہلم نے 825 صفحات پر مشتمل اس کی خودنوشت کو کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس کی سطر سطر بلکہ حرف حرف اس تاثر کو سند فراہم کرتا ہے کہ مصنفہ نے اس خودنوشت کو احاطہ تحریر میں لاکر خود کو اولاد صالح کے رتبہ پر فائز کر لیا ہے۔

انسانی زندگی تسلسل حیات کا ایک خوبصورت اور وقیع باب ہے۔ اسلاف ہمیشہ اخلاف میں اپنی امیدوں، آرزؤوں، تمناؤں اور ان گنت خواہشات کی تکمیل کا روشن پہلو ڈھونڈتے ہوئے ملک عدم کو سدھارے اور یہی اخلاف اب اسلاف کے رتبہ پر فائز ہو کر کاروبار زندگی کو پروان چڑھانے میں محو ہو گئے۔ مگر کتنے خوش قسمت ہیں وہ اسلاف جو اولاد ِصالح کی صورت میں ثمرآور زندگی سے شاد کام ہوئے۔ انسان جب سے ملک عدم سے اس کرة ارض پر سدھارا، اس وقت سے لے کر آج تک وہ فردوس گم گشتہ کی تلاش میں رہا ہے۔

بعض والدین کے لیے یہ سرزمین ان کی صالح اولاد کے علمی، فکری، ادبی اور ثقافتی کارناموں کے طفیل ان کے جیتے جی بقائمی ہوش و حواس کوچہء فردوس کا روپ دھار جاتی ہے۔ دین اسلام نے بھی والدین کوعزت و احترام کے اونچے مرتبہ پر سرفراز کیا ہے۔ اولادِ صالح واقعتا نسل انسانی کے ارمانوں کا مرکزاور تمناؤں کا محور ہوتی ہے۔ عام انسانی مشاہدہ ہے کہ ہم سب اگرچہ ایک دوسرے کے لیے رشک وحسد کے جذبات رکھتے ہیں مگر جب ہماری اولاد اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کا سفر طے کرتے ہوئے آگے نکل جاتی ہے تو ہماری خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ مشہور انگریز شاعر ولیم ورڈزورتھ نے کہیں کہا تھا کہchild is the father of manچند الفاظ میں و ہ عظیم شاعر ایک جہان معنی کو بیان کرتے ہوئے دریا کو کوزہ میں بند کر گیا تھا۔ مذاہب کی زبان میں بات کریں تو وہاں پر بھی اولادِ صالح کو ایک نعمت ِخدواندی کہہ کر پکارا گیا۔

صدف مرزا بھی اپنی خود نوشت ”برگد“ کو احاطہء تحریر میں لا کر اولادِصالح کے رتبہ پر فائز ہوئی ہیں۔ صد ف مرزا اگرچہ دنیائے ادب کے افق پر ایک شاعرہ کے طور پر جلوہ گر ہوئیں مگر برگد لکھ کر انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک تخلیق کار کا فن کسی ایک صنف کا پابند نہیں ہوتا۔ برگد کے پیش ورق پر اگرچہ انہوں نے خود نوشت کی مہر لگائی ہے مگر برگد اصلاً ان کے عظیم والد کی سوانح حیات ہے۔ کہتے ہیں کہ اولاد اپنے والدین کا عکس و آئینہ ہوتی ہے۔

صدف مرزا نے اپنی زندگی کو اپنے والدِ محترم کی آرزؤوں اور تمناؤں کا عکس بناتے ہوئے ایک ایسے فرد کی حیات کو پیرہن ِتحریر میں سمونے کی کوشش کی ہے، جس کی کاوشوں نے صد ف مرزا کو ایک تخلیق کار بننے کی جانب مائل کرتے ہوئے ہر قدم پر ایک راہنما، ہادی اور مرشد کا کردار ادا کیا۔ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ جو کام والد پایہء تکمیل کو نہ پہنچا سکا، اسے اس کے صالح اور سعادت مند فرزند نے بخوبی انجا م پذیر کیا۔ مگر برگد کا مطالعہ ہمیں یہ باور کروانے میں کامیاب رہا ہے کہ آج کی بدلتی دنیا میں کسی صنفی امتیاز کے بغیر بیٹیاں بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور اس کی شفقتوں سے لبریز راہبری میں کامیابی کی بلند ترین سیڑھیوں پر بے خوفی سے قدم رکھ سکتی ہیں۔

اردو ادب کی تاریخ خواتین شعرا ء و ادباء کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ خواتین ادیبوں نے آپ بیتی اور خود نوشتوں کی صنف میں بھی خود کو خوب منوایا۔ قرۃ العین حیدر نے ”کارجہاں دراز ہے“ لکھ کر ہمیں اپنے زمانے سے روشنا س کروایا تو امرتا پریتم نے ”رسیدی ٹکٹ“ اور ”سرخ دھاگے کا رشتہ“ لکھتے ہوئے اپنی بپتا سنائی۔ ادھر عصمت چغتائی نے ”کاغذی ہے پیرہن“ کے ذریعے ایک بدلتے ہوئے دور کی اونچ نیچ کو قلمبند کیا۔ ہمارے اپنے زمانہ میں ادا جعفری نے ”جو رہی سو بے خبری رہی“ لکھ کر ایک عہد کو قرطاس و قلم کے ذریعے ہماری آنکھوں کے سامنے تصویر زمانہ کھینچ کر رکھ دی۔

صدف مرزا نے اپنی خود نوشت برگد لکھتے ہوئے آپ بیتی اور خود نوشت کی صنف میں ایک نیا تخلیقی تجربہ انتہائی کامیابی سے سرانجام دیا ہے۔ آپ بیتی جہاں مفید اور مستند صنف ادب ہے وہاں اس کے خطرناک ہونے میں کوئی شک نہیں۔ خود نوشت کا مصنف اصلاً اپنی ذات کاراز دار بن جاتا ہے۔ اگرچہ وہ حقیقت نگاری کا علمبردار ہوتا ہے مگر بسا اوقات لفظ کی صورت میں ڈھلتے نہیں وہ ہنگامے، جو میری بزم تصور میں بپاہوتے ہیں، والا معاملہ بن جاتا ہے۔ خود نوشت اصلاً اپنی ذات کی ترجمانی ہوتی ہے۔ مصنف اپنی ذات کو محور بنا کر رودادِ ایام کو قلمبند کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتا ہے۔ صدف مرزا نے برگد میں اپنے اباجی کو محور ِروداد بناتے ہوئے اپنی ذات سے شناسائی کی کامیاب اور مخلصانہ کوشش کی ہے۔

صدف مرزا نے اپنی خود نوشتہ تحریر کا نام پہلے پہل ”میرے پیارے ابا جی“ تجویز کیا تھا مگر پھر انہوں نے جاوید اختر کی تجویز پر اس کا نام برگد کر دیا۔ برگد کے درخت کو برصغیر پاک وہند کی تہذیب و ثقافت میں نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ مہاتما بدھا کو بھی نروان برگد کے درخت کے نیچے ہی حاصل ہوا تھا اور پھر انہوں نے انسانیت کے افتخار و سربلندی کی خاطر ایک نئے دھرم کی بنیاد رکھی۔ پنجاب کی ثقافت میں بھی برگد کا درخت سلامتی و اجتماع کا استعارہ رہا۔

گاؤں کی پنچایت جہاں بیٹھتی تھی وہ بھی عموماً کسی برگد کا سایہ ہی ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح صوفیا کے مزاروں پر چلے جائیں تو وہاں پر بھی عموماً برگد کاکوئی عمر رسیدہ، جٹا دار اور سایہ دار درخت ہی آپ کا استقبال کرتا ہے۔ غرضیکہ ہماری مقامی تہذیب و ثقافت میں برگد کو ایک تاریخی استعارہ کی سی حیثیت حاصل ہے۔ کسی بھی گاؤں کے باہر برگد کا درخت عمومی طور پر دور دراز کے مسافروں کو گھڑی دو گھڑی سستانے کے لیے پناہ گاہ کا سا کام کرتا تھا۔

پنجابی ثقافت میں والدین کے لیے عمومی طور پر برگد کا استعارہ ہی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ والدین اپنی اولاد کو تمام آفات و آلا ئشاتِ دنیوی سے بچاتے ہوئے گھر کی صورت میں نہ صرف پناہ گاہ مہیا کرتے ہیں بلکہ اپنی برکتوں، رحمتوں اور دعاؤں کے چھتنار سائے تلے ہر لحظہ ان کی کامیابی و کامرانی کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ صدف مرزا نے اپنی خود نوشت کو برگد کا نام دیتے ہوئے والدین کے سلوک و رتبہ کو ایک بلند مرتبت مقام پر فائز کرنے کی کامیاب اور بھرپور کوشش کی ہے۔

آپ بیتی، خود نوشت، سوانح تینوں اصلاً معاشرت سے جڑی ہوئی اصناف ہیں۔ تینوں اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے مصنف ہمیں اپنے زمانہ کی تہذیب و معاشرت، تمدن وثقافت، انسانوں کے رہن سہن کے طریقوں اور طرز زندگی سے روشناس کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ مغرب اگرچہ سوانح و خود نوشت کے فن میں ہم سے کافی آگے ہے۔ وہاں پر تقریباً ہر عظیم آدمی نے اپنی خود نوشت خود قلمبند کی ہے یا اس کو کوئی ایسا سوانح نگار ضرور نصیب ہوا ہے جس نے اس کی حیات کو خوبصورت انداز میں قلمبند کر دیا ہے۔ مگر مشرق میں بھی اب سوانح و خود نوشت کی صنف نے جڑ پکڑ لی ہے۔

آپ بیتی فنون لطیفہ کی وہ قسم ہے جس کے ذریعے آدمی اپنے انسان ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ انسان ازل سے ہی تماشا اور تماشائی کا کرداربخوبی نبھاہتا چلا آ رہا ہے۔ جب تماشا بنتا ہے تو آپ بیتی اور خود نوشت جنم لیتی ہے اور جب تماشائی بنتا ہے تو سوانح وجود میں آتی ہے۔ یوں خود نوشت اور سوانح میں، سوچئے تو، بال برابر کا فرق ہے۔ آپ بیتی کیا ہے؟ عرفان ذات اور بیان ذات۔ مگر جب کسی دوسرے کی ذات کا عرفان کرتے ہوئے اس کے اوصاف حمیدہ، فضائل و خوبی کو احاطہ ئی تحریر میں لایا جائے تو پھر وہی خود نوشت سوانح کہلائے گی۔ مگر دو صورتوں میں قاری کو ایک پوری شخصیت کو جانچنے پرکھنے کا موقع میسر ہو گا۔

خود نوشت اور سوانح ہر دو کے مصنفین اصلاً ایک عہد کی سرگزشت کے راوی ہوتے ہیں۔ راوی کی یہ روایت چاہے براہ ِراست ہو چاہے بالواسطہ، ہر دو صورتوں میں قاری کو مصنف کے خلوص اور دیانت پر اعتماد بہر حال کرنا ہی پڑتا ہے۔ خود نوشت میں مصنف اپنی اعتراف ذات کرتا ہے اور سوانح میں کسی دوسرے کی عرفان ذات۔ دنیائے ادب میں اعترافات، آپ بیتیوں، خود نوشتوں اور سوانح عمر یوں کے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ سیف الدین سیف نے کہا تھا

سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

مندرجہ بالا بیانیہ سے ایک بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ شیکسپیئر کا مقولہ سچ ہے کہstyle is the man۔ گزری ہوئی باتوں کو بیان کرنا بھی ایک فن ہے۔ اور اس فن میں یاد داشت سب سے مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ یاد داشت تو بری بھلی ہر کسی کے پاس ہوتی ہے مگر زیب ِ داستاں کسی کسی کو ہی میسر آتا ہے اور اسی زیب داستان کو اسلوب، طرزِ بیان اور ادائے فکر کہا جاتا ہے۔

بلاشبہ صدف مرزا نے اس کتاب میں اباجی کی یادوں کے چراغ جلا کر ٹوٹتے، بکھرتے سماج میں رشتوں کے تقدس کی روشنی پھیلانے کی مقدور بھر سعی کی ہے جو ادبی کمال کے ساتھ اہم سماجی خدمت ہے۔ کتاب کے عمرانی پہلو بھی قابل تحسین ہیں آج کی خواتین کے لیے یہ ایک اہم درس ہے کہ صدف مرزا کی مضبوط شخصیت کے تشکیلی عناصر میں ابا جی کی غیر مشروط شفقت کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ آج کی لڑکیوں کے لیے متوازن شخصیت کی تکمیل کے لیے کتاب میں بہت راہنمائی ہے کہ ”حیات صدف“ میں آج بھی اباجی کے فخر کی آمیزش سے روشن یقین اور اعتماد بے کراں ہمت و خود اعتمادی کا منبع و مآخذ ہے۔

ہمارا سماج آج اس اعتماد و یقین کا متلاشی ہے جسے صدف مرز نے ”برگد“ کا نام دیا ہے۔ آپ باپ ہیں یا اولاد یہ کتاب آپ کے اچھا باپ یا صالح اولاد بننے کے لیے نصابی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ صدف مرزا خود رقمطراز ہیں کہ ”اس کتاب کا مقصد نہ تو آباء پرستی ہے اور نہ خود کو نجیب الطرفین ثابت کرنے کی ہمکتی ہلکان کرتی کوشش۔ اس کا واحد مقصد خود کو یہ یاد کرانا اور آئندہ نسل کو متعارف کرانا ہے کہ نسلوں کی مضبوط بنیاد رکھنے والے ایسے بزرگ بھی ہوا کرتے تھے جو اپنی ذات اور مفاد سے بلند تر ہو کر سوچ سکتے تھے اور جن کی زندگی کا مقصد نئی نسل کی آبیاری تھا۔ “ میں نے کتاب کی ورق گردانی شروع کی ہے پڑھ لینے کے بعد اس پر تبصرہ لکھنے کی سعی کروں گا۔ اس وقت صدف مرزا کا شکریہ کہ اس نے باپ کی عظیم ہستی پر کتاب لکھ کر ماں کی دعا جنت کی ہوا کی فضا میں ہمیں تہذیبی ارتقاء کے ایک فراموش کردہ باب کی یاد دہانی کرائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments