رابعہ الربا اور درویش کے نام


رابعہ سے میری ملاقات دو سال پہلے ایکسپو سنٹر میں ہوئی اور رابعہ کے خواب ناموں کے ساتھ بھی میری پہلی ملاقات تھی۔ خواب ہر انسان دیکھتا ہے کیونکہ اس پر کوئی بندش نہیں ہوتی رابعہ کے خواب ”درویشوں کا ڈیرہ“ کی صورت میرے ہاتھ آئے تو ڈاکٹر خالد سہیل (لفظوں کی صورت) سے بھی ملاقات ہوئی۔ خطوط کے ذریعے مشرق اور مغرب کے درویش ایک دو سرے کی ذات میں اپنا سچ ڈھوندتے نظر آتے ہیں کبھی خوابوں کی صورت تو کبھی سوالوں کی شکل میں اور دونوں درویش انسان کو پڑھتے ہیں انسان کو سمجھتے ہیں۔

رابعہ کے اردگرد نادیدہ دیواریں ہیں مگر اس کے الفاظ اس کی سوچ رات کے پچھلے پہر یہ بندشیں توڑ کر دو جہانوں کی سیر کر آتی ہے۔ دونوں درویشوں نے انسانی نفسیات کو موضوع بنایا ہے اور اس پیچیدہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ دوستی، خواب، جنس، رومانس، شادی، مرد، عورت، روحانیات اور زندگی جیسی حقیقتوں پر سوال اٹھایا ہے، اور جواب بھی حقیقت پسندی سے دیے ہیں۔ ہمارے ہاں ان موضوعات پر بہت کم لکھا گیا ہے اور جو لکھا گیا ہے وہ اتنا مبہم ہے کہ اس کا معاشرتی حقائق سے کوئی رابطہ محسوس نہیں ہوتا کیونکہ ہم نے ان موضوعات کو اپنے مفادات کی خاطر متنازعہ قرار دے دیا ہے۔ ہمیں یہ خوف ہے کہ اگر ان موضوعات پر کھل کر اور حقیقت پسندی سے بات کی گئی تو معاشرے کی نام نہاد روایات کا جنازہ نکل جائے گا اور معاشرے اور مذہب کے ٹھیکیداروں کا کاروبار بند ہو جائے گا۔

ان خطوط میں ہر بات اور سوال کے پر مختلف مشاہدات اور حقائق کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ درویش (ڈاکٹر صاحب نے خود کو درویش کہلوانا پسند کیا ہے ) نے مشرق اور مغرب کا سفر کیا ہے اور اس کا نقطہ نظر ایک مرد کا ہے، ایک ماہر نفسیات کا نقطہ نظر ہے اور رابعہ مشرقی اخلاقیات میں گھری ہوئی عورت ہے اور ادب سے وابستہ ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے مختلف سوالات دماغ پر دستک دیتے ہیں اور کچھ موضوعات پر اختلاف رائے بھی ہوتا ہے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ یہی اس کتاب کا مقصد ہے۔

ہر موضوع نہایت دلچسپ ہے جیسے عورت اور مرد کے تعلق پر رابعہ کا مکالمہ پڑھتے ہوئے مجھے امرتا پریتم کا جملہ یاد آ گیا ”مرد نے عورت کے ساتھ ابھی سونا سیکھا ہے جاگنا نہیں اس لئے مرد اور عورت کا رشتہ الجھن کا شکار رہتا ہے“ جبکہ درویش کا ماننا ہے کہ بہت سی عورتیں محبت کی گلی سے ہو کر جنس تک اور بہت سے مرد جنس کی گلی ہو کر محبت تک پہنچتے ہیں۔ عورت سے دوستی کے بارے میں جس طرح درویش نے مشرق اور مغرب کی عورت کو بیان کیا ہے میں اس سے پوری طرح متفق ہوں۔ مذہب کے بارے میں بھی نقطہ نظر مختلف ہے رابعہ روحانیت پر یقین رکھتی ہے اور جب ستارہ تہجد نظر آتا ہے تو اپنے خالق سے باتیں کرتے ہوئے نیند کی وادی میں اتر جاتی ہے جبکہ درویش مذہب اور معاشرتی روایات کی بندشوں سے آزاد ہے۔

میرے نزدیک درویشوں کا ڈیرہ ایک کتاب نہیں بلکہ رابعہ اور درویش کی گفتگو ہے۔ ہر پڑھنے والے کو احساس ہوتا ہے کہ یہ سوال تو میرا بھی تھا مگر یہاں لوگ صرف بات سنانے کے لیے کرتے ہیں سننے کے لئے نہیں۔

ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی۔ جون ایلیا۔
درویشوں کے ڈیرے میں بات کہی بھی جاتی ہے سنی بھی جاتی ہے، اختلاف رائے بھی ہوتا ہے مگر عدم برداشت جیسے رویوں کا اس ڈیرے میں داخلہ منع ہے۔ اس کتاب کا پورا تعارف یا تاثر لکھنا میرے لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ ہر موضوع انتہائی وسیع ہے۔ یہ آپ کو سوچنے کا جواز مہیا کرتی ہے اور سچ کھوجنے کا حوصلہ نہیں۔ یہ ہر انسان کی کتاب ہے جو اس معاشرے میں رہتا ہے اور سوچتا ہے۔

خواب نامے پڑھتے ہوئے میری رابعہ سے بات ہوئی تو کہتی کہ دن کی روشنی میں زندگی کے رنگ نظر آتے ہیں اس کی یہ بات سن کر مجھے بچپن کی ایک کہانی یاد آ گئی جس میں جادوگر پری کو ایک پتھر کے مجسمے میں قید کر دیتا ہے اور وہ اپنے پروں کو حسرت سے دیکھتی رہتی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے ایک دن رابعہ اس مجسمے سے نکل ایک آزاد اڑان بھرے گی اور آسمان کو اپنے پروں میں سمیٹ لے گی۔

(درویشوں کا ڈیرہ مجھے رابعہ نے ای میل کی صورت میں بھیجی تھی کیونکہ اس کی اشاعت پاکستان سے نہیں ہوئی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments