ساتھیو! امیدِ سحر رکھنا


اس وقت سوشل میڈیا میں ہزاروں نہیں لاکھوں بھی نہیں کروڑوں میں بھی نہیں بلکہ سات ارب انسانوں کے پاس ان گنت کہانیاں ہیں۔ اتنی کہانیاں جن کو سننے کے لیے ہی ہزاروں لاکھوں سال چاہئیں۔ اس وقت جہاں دنیا کا پہیہ رک سا گیا ہے وہاں ایک پیداواری کام ایسا ہے جو زیادہ مقدار میں پیداوار دے رہا ہے جو شاید معمول کے دنوں میں مانند سا پڑ گیا تھا۔ وہ سینٹائیزر یا صابن بھی نہیں نہ کہ کوئی فلو کی ڈرگ ہے۔ ماسک بھی نہیں بلکہ انسانوں کا ’ذہن‘ ہے جو سوچنا شروع کر رہا ہے۔ بلاخر انسانوں نے سوچنا شروع کر دیا ہے۔ انسان نے سوچنا شروع کر دیا۔ وہ انسان جو کبھی سوچا نہیں کرتے تھے، انہوں نے بھی سوچنا شروع کیا۔ مقید ذہنوں نے بھی سوچنا شروع کیا، ماؤف اور تنگ نظر ذہنوں نے بھی کہ سچائی کیا ہے؟

وہ سچائی جس کو چھپانے کے لیے ہر قسم کا حربہ اختیار کیا جاتا تھا۔ وہ سچائی جس کو ہر بار صلیب پہ لٹکایا گیا۔ وہ سچائی جو جرم تھی اور ہر سزا جسے دی جاتی تھی۔ اس سچائی کو پانے کے لیے اس دھرتی کے گولے پر آباد سب انسانوں نے سوچنا شروع کردیا ہے اور ساتھ جھوٹ کے بھی پردے چاک ہونا شروع ہوئے ہیں۔ یہ ایک امیدِ سحر ہے جو انسانوں کے مستقبل کے لیے خوش آئند ہے۔

حقیقت میں کرونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے اور انسانی تاریخ میں انسانوں کی جانی نقصان بھلے کم ہو رہا ہو مگر سب انسانوں کی زندگیوں کو جامد بنا کے رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے اور سب انسانوں کو سوچنے پر مجبور کیا۔ اور انسان سوچ رہے ہیں۔

ہمیں امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ وبا کچھ ہی عرصے کے بعد ختم ہو جائے گی مگر جو انسانوں نے سوچنا شروع کیا ہے وہ سوچ کا سفر شاید کبھی بھی نہیں رکے گا۔ اور یہ سوچ کا سفر انسانوں کو عمل پہ مجبور کرے گا اور وہ عملی مرحلہ پار کر کے دنیا بھر کے انسان سماج کو ایک ایسے معراج پر لا کھڑا کریں گے جہاں ’زندگی‘ ہی انسان کی منزل ہو گی۔ نہ صرف انسانیت کی زندگی مگر ہر جاندار کی زندگی کو بچانا اور زندگی کو فطرت کی سب سے بڑی نعمت سمجھ کر گزارنا ہی انسانوں کا مقصدِ حیات ہو گا۔

جہاں اس سے بھی ہولناک فطرتی حملوں کو آسانی سے شکست دینے کی اور زندگی کا سفر بحال رکھنے کی قوت پیدا ہو گی۔ یہ ایک امیدِ سحر ہے کوئی مقدس افسانہ نہیں ہے۔ آج جو انسان بھگت رہا ہے وہ کسی آسمانی قوت کا عذاب نہیں بلکہ انسانوں کی ہی وجہ سے ہوا ہے۔ انسان ایک ہی ذات ہے مگر ہم نے اسے قوموں، مذہبوں، رنگ، نسل، ذات، زبان، طبقات میں بانٹ کر اور پھر اس جھوڻے اور مصنوعی فرق کو قائم رکھنے کے لیے اتنا کچھ کیا جو انسانیت ناپید ہو گئی اور اس سچائی پر جب انسانوں نے سوچنا شروع کیا ہے تو ضرور ایک نئی دنیا بنانے کی بھی ابتدا کریں گے۔

اس سوچ کے سفر کو اب کوئی روک نہیں سکتا۔ اس زمین پر موجود طاقتور ترین حکمران بھی نہیں جو ناخدا بنے ہوئے ہیں۔ اس دھرتی پر انسانیت کی ہی فتح ممکن ہے اور انسان جس طرح آج ایک دوسرے سے الگ رہنے پہ مجبور ہیں اور ایک ہی جسم اتنا الگ ہے کہ اپنا ہی ہاتھ آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو پونچھنے سے لرز رہا ہے وہاں ہم انسانوں کے ذہن آج بھی آپس میں ملے ہوئے ہیں اور ایک ہی سوچ سب کے ذہنوں میں پل رہی ہے۔

اس وبا کو مستقبل میں کسی نعمت سے کم نہیں سمجھا جائے گا چاہے وہ آج کے دور میں ایک عفریت ہی ہے مگر انسان اس کو بھی شکست دے کر رہے گا اور نئی دنیا بنانے کی ابتدا ہو گی جو کسی آسمان پر نہیں بلکہ اس دھرتی پر ہی بنے گی۔
وہ چند ہی روز میری جان
فقط چند ہی روز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments