تبدیلیاں اور انصاف کی حکومت


پورا ملک پاکستان اس دفعہ کرونا کے ذکر و فکر میں مصروف تھا۔ عین اسی کے دوران وزیراعظم جناب عمران خان کے حکم پر چینی اور آٹے کے بحران پر بننے والی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو عوام کے لئے عام کر دیا گیا۔

یہ رپورٹ کوئی عام رپورٹ نہی تھی۔ اس رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کے لیے ایک سر دھڑ کی بازی بھی لگائی گئی لیکن شاید اس دفعہ یہ مافیا کامیاب نہ ہو سکی اور اس دفعہ ان کے نام منظر عام پر آ ہی گئے۔ یہ کوئی عام لوگ نہی تھے۔ یہ موجودہ حکومت کے کرتا دھرتاؤں میں شمار ہونے والے چند ایک ناموں کے علاوہ اس حکومت کے اہم اتحادیوں کے علاوہ اپوزیشن کے اہم سیاسی خاندانوں کے نام بھی سر ورق ہیں۔

ان اہم ناموں میں پاکستان ق لیگ کے جناب مونس الہی اور اس کے ساتھ جنوبی صوبہ محاذ کے جناب خسرو بختیار اور ان کو حکومت کا حصہ بنانے والے جناب جہانگیر خان ترین سمیت کئی اور اہم رہنماؤں اور اس کے علاوہ اہم کاروباری لوگ شامل ہیں۔

ان سب میں ایک بات تو مشترک ہے کہ یہ سب لوگ ماضی میں کسی نہ کسی طرح ہر حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے بھی بہت قریب رہے ہیں اسی لیے اس دفعہ بھی ان کو توقع تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح بچ نکلیں گے کیونکہ اگر ماضی قریب میں دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان میں سے بہت سارے لوگ کو اس ملک کے کرتا دھرتا رہے ہیں۔ مثلاً میاں نواز شریف کی ضمانت کے معاملات ہو ں یا مریم نواز کے، ان کے مسائل حل کروانے میں اہم کردار ادا کرنے والے جناب چودھری منیرکا نام بھی اس رپورٹ میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیبلشمینٹ کے بہت قریبی سمجھے جانے والے چودھری برادران کے چشم و چراغ مونس الہی اور سابقہ وزیر خوراک پنجاب بھی اس میں شامل ہیں۔

یہ رپورٹ وقت سے پہلے کیوں منظر عام پر آئی اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔ آگر آپ کو یاد ہو تو اس رپورٹ کے آنے سے پہلے ایک بات زبان زد عام تھی کہ عمران خان کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے استعفی کی خبربھی زبان زد عام تھی۔ معلومات کے مطابق وزیراعظم عمران خان پر دباؤ ڈالا گیا کہ اس رپورٹ پر کوئی کارروائی نہ کی جائے اور ان کے نام منظر عام پر نہ لائے جائیں تاہم وزیراعظم نے اس سے انکار کر دیا۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنی پارٹی کے اہم رہنما جہانگیر ترین کو اپنے آپ سے دور کیا اور اس کے بعدایک دورہ لاہور میں پرویز الہی کوبھی بتادیا کہ اس معاملے پر وہ کچھ بھی عوام سے پوشیدہ نہی رکھیں گے۔

یہ رپورٹ شاید 25 اپریل کے بعد آتی کیونکہ اس وقت تک اس رپورٹ کی روشنی میں ان تمام چینی کا کاروبار کرنے والو ں کا آڈٹ مکلمل ہو جانا تھا۔ تاہم وزیراعظم کو یہ معلومات دی گئی کہ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جو نا اہل اور نالائق وزیر اعظم کی ایک منظم مہم چلائی گئی اس سب میں کسی اور کا نہیں ان کے اپنے سب سے قریبی دوست جہانگیر ترین کا ہاتھ ہے اور وہ پارٹی میں گروپ بندی کر رہے ہیں۔ اسی لئے وزیر اعظم کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ان کو پارٹی سے نہ صرف فارغ کریں بلکہ ان کے عملی قدم بھی اٹھائیں۔

یہ ایک مشکل مرحلہ تھا کیونکہ ان سب لوگوں کے اس ملک کے اہم ایوانوں سے لے کر راولپنڈی تک اچھے مراسم تھے لیکن یہ مراسم اس دفعہ ان کو شاید ان کو نا بچا سکے کیونکہ اس معاملے میں فوج نے وزیراعظم کا ساتھ دیا۔

لیکن اب آگے کیا ہو گا۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ کیا عمران خان کی حکومت مزید آگے کارروائی کرے گی؟

یہ ایک اور مشکل فیصلہ ہوگا کیونکہ حکومت کھڑی ہی اتحادیوں کی ان دو بیساکھیوں پر ہے۔ ایک جنوبی صوبہ محاذ اور دوسری مسلم لیگ ق۔ ان میں کسی ایک جماعت کے لیڈر کے خلاف آگر کوئی بھی کارروائی ہوتی ہے تو کیا وہ پھر بھی حکومت کا ساتھ دیں گی۔

لیکن وزیراعظم شاید اب اس جگہ پر آگئے ہیں کہ ایک طرف کھائی ہے اور دوسری طرف کنواں، اب کوئی بھی قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑے گا۔ ایک طرف حکومت کی مشکلات تو دوسری طرف عوام سے کیا گیا وعدہ کہ دو نہی ایک پاکستان۔

لیکن ایک تیسرا راستہ بھی ہے۔ وہ ہے۔ مٹی پاؤ، سب کو بھول جاؤ، کوئی اپنی مرضی کا کمیشن بناؤ اور اس سارے معاملے کا ذمہ دار پچھلی حکومت کو ٹھہراؤ اور آگے نکل جاؤ جیسا کہ ماضی میں ہوتا آ رہا ہے۔ لیکن کیا یہ حکومت بھی ایسا ہی کرے گی جس پھر اپنے منشور پر عمل کرے گی۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا لیکن ایک بات تو ہے۔ اس دفعہ کو کپتان نے سب کو بیٹنگ کریز پر لا کھڑا کیا ہے اور اب تماشائی بھی بے تاب ہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ کیا اس دفعہ بھی کوئی امپائر ان سب کو بچانے آئے گا جس کپتان ان سب کو ایک ایک کرکے بولڈ کردے گا۔ اس کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔

پاکستانی عوام شاید اب تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں ان کے لیے بھی کوئی سوچے اور ان مافیاز کو لگام دے جو ان سے کماتے ہیں۔ اسی سے الیکشن لڑتے ہیں پھر اقتدار میں آکر پھر لوٹتے ہیں اور پھر اگلے الیکشن کی تیاری کرتے ہیں۔

جو قدرت نے کرونا کی وبا کی وجہ سے تبدیلیاں رونما کی ہیں۔ یہ قوم بھی یقین رکھتی ہے۔ اس دفعہ شاید کچھ ماضی کی طرح نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments