پیر کرونا والی سرکار، میں قربان !


ایک ہانپتا کانپتا کھانستا ہوا شخص پیر صاحب کے آستانے پر آیا۔ پیر صاحب اکیلے بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ پیر صاحب نے جب ہانپتے کانپتے شخص کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو بدک کر کھڑے ہوگئے۔ جوں جوں وہ بیمار شخص پیر صاحب کے پاس گھٹنوں کو ہاتھ لگانے کے لیے قریب آنے لگا تو پیر صاحب اور پیچھے ہٹ گئے اور گرجدار آواز میں بولے ”پرے ہٹ ناہنجار دور ہٹ کر بات کر، آج کل حالات ٹھیک نہیں ہیں۔

جی پیر مطلق! اسی سلسلے میں حاضر ہوا ہوں، میرا بیٹا تو مجھے ہسپتال لے جانا چاہتا تھا مگر میں نے اسے کہا کہ پیر صاحب مجھے پھونک ماریں گے تو میرا کرونا ختم ہوجائے گا۔

پیر صاحب کی تو گھگھی بند گئی، بڑی مشکل سے گلہ کھنکھار کر صاف کیا اور مری ہوئی آواز میں بولے۔ اچھا اچھا وہیں بیٹھ جاؤ۔ میں دم کرتا ہوں

اور پھر پیر صاحب نے دم کرنا شروع کردیا

اس دوران وہ شخص مسلسل کھانستا رہا۔ پھر صاحب نے جب اسے پھونک ماری تو وہ بیمار شخص احترام سے اٹھا، قریبی گولک میں نذرانہ ڈالا اور واپس جانے کی اجازت پاکر جیسے ہی واپس مڑا تو پیر صاحب نے مزید ہدایات دیں ”دیکھو مورکھ! گھر جاکر علیحد کمرے میں رہنا اور گھر والوں سے قطعاً نہیں ملنا، صرف کھانا پانی لینا، ہاتھ بار بار دھونا اور بھاپ بھی لینا۔ یاد رکھو تمہیں کم از کم چودہ دن کا چلہ کرنا ہے اس دوران نہ کسی سے ملاقات کرنا نہ کسی کو اپنے کمرے میں گھسنے دینا۔ پھر کہیں جا کر تمہارا مرض ختم ہوگا۔ سمجھے! جی سمجھ گیا وہ شخص سر جھکا کر بولا۔

کچھ ہفتوں کے بعد وہ شخص پیر صاحب کی ہدایات پر عمل کرکے واقعی تندرست ہوگیا اور جاب چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو پیر صاحب کی عظمت اور کرامت کا پوری طرح قائل ہوچکا تھا لہذا پہلی فرصت میں پیر صاحب کا شکریہ ادا کرنے ان کے آستانے کا رخ کیا۔ مگر جب وہ اپنے پیر صاحب کے آستانے پہنچا تو وہاں ویرانی کے ڈیرے تھے۔ اور پیر صاحب کے آستانے میں ان کی تصویر اور ایک قبر تھی۔

وہ مرید پیر صاحب کی زیارت کے لئے بے تاب تھا۔ پیر صاحب کی زیارت نہ ہونے کی پریشانی میں آستانے سے باہر نکلا اور قریبی گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک نوجوان ماسک پہنے باہر آیا اورآنکھیں سکیڑ کر سوالیہ نظروں سے اسے دور سے اسے دیکھا۔

” جی پیر صاحب کو ملنا تھا وہاں آستانے میں تو کوئی نہیں۔ “

نوجوان نے اسے اوپر سے نیچے دیکھا اور بولا، جی وہ تو پچھلے دنوں ہی، کرونا وائرس سے فوت ہوگئے ہیں اور آستانے میں انہی کی قبر ہے۔ یہ کہہ کر نوجوان نے اپنے گھر کا دوازہ ٹھک سے بند کردیا۔

یہ سن کر اس پیر کا مرید غم سے نڈھال نیچے زمین پر بیٹھ گیا اور پھر آنکھوں میں آنسو لیے گرتا پڑتا آستانے میں داخل ہوا

اور چیخ کر بولا

پیر صاحب آپ واقعی کرامات والے پیر ہیں۔ آپ نے اپنے مریدوں کا کرونا اپنے سر لے کر اپنی جان دے کر اپنے مریدوں کو نئی زندگی دے دی۔ یا پیر حاضر کرونا والی سرکار۔ میں آپ پر صدقے قربان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments