احساس پروگرام اور حکومت کی نا اہلی


کورونا وائرس پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑے یکے بعد دیگرے متعدد جانوں کو نگل رہا ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے یہ تعداد تاحال پانچ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور مزید لوگوں میں یہ وائرس تیزی سے منتقل ہونے کا خدشہ ہے۔ حالات کے پیش نظر لوگوں کو گھروں میں رہینے کے احکامات دیے گئے۔ جن پر سختی کے لئے حکومت نے پولیس آرمی اور رینجرز کی مدد طلب کی کے کہیں لوگ بلا ضرورت اپنے گھروں سے باہر نکل کر اس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں۔

گھروں میں محصور ہونے سے ایک بڑا مسئلہ جو سامنے آیا وہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مزدور ڈیلی ویجیز کی آزمائش تھا۔ جو لوگ تازہ کما کر کھانے والوں میں شمار ہوتے تھے ان کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے اور غربت نے ان کے مسائل میں اضافہ کردیا۔ ان تمام باتوں سے حکمران اور موجودہ حکومت لاعلم نا تھی۔ ایک صبر آزما انتظار کے بعد حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مستحق اور غریب خاندانوں کو راشن اور رقم حکومت پاکستان کی جانب سے ادا کی جائے گی تاکہ ان لوگوں کے بھی چولہے ٹھنڈے نا ہوں جو اس وائرس کی وجہ سے گھر میں محسورہیں اور حکومت عوام کی ہر ممکن حد تک مدد کرے گی۔

یہاں تک تو ہم حکومت کی تمام تر کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ مگر اس دوران حکومت سے جو سب سے بڑی غلطی ہوئی وہ نظم ضبط کا تعین کرنا اور مناسب لائحہ عمل کے تحت لوگوں میں راشن اور نقدی تقسیم کرنا۔ جب حکومت کے پاس تمام لوگوں کا ڈیٹا موجود تھا تو ان کو راشن گھروں میں بھی پہنچایا جاسکتا تھا۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ حکمرانوں کے پاس وسائل کم تھے مگر عوام کو گھروں میں رہینے کے احکامات دینے والے حکمرانوں نے جب راشن اور رقوم کی وصولی کے لئے عوام کو گھروں سے نکلنے کو کہا تو محتاج اور ضرورت مند جو کئی دنوں سے امداد کے منتظر تھے ان تمام افراد کا ایک سیلاب امڈ آیا یہ سوچے بغیر کہ کورونا سے احتیاط کے پیش نظر مسجدوں میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے لئے نکلنے پر بھی پابندی ہے اور تو اور جمعہ کی نماز کے لئے با جماعت نماز پر بھی پابندی ہے پھر اتنی غیر سنجیدگی اور بے حسی کا مظاہرہ راشن اور پیسوں کی تقسیم کے لئے کیوں کیا گیا۔

ایک سوال جو انتہائی مزاحیہ خیز ہے کہ کیا گروہ کی شکل میں حکومتی اعلان پر راشن اور نقدی کے حصول کے لئے باہر نکلنے پر کورونا نہیں ہو گا۔ احساس پروگرام کے تحت رقم اور راشن کی تقسیم کے دوران وہ مناظر دیکھنے میں آئے کہ اللہ کی پناہ لوگ ریوڑ کی شکل میں امڈ آئے کیا کریں وہ بھی کئی دنوں سے پریشانی میں گھروں میں نظربندی کی زندگی گزار رہے تھے جو حکمران انہیں نماز تک پڑھنے مسجدوں میں جانے سے روک رہے تھے یہاں وہی حکمران انہیں راشن اور رقوم لینے باہر بلا رہے تھے۔

اسی رش اور آوازوں کے شور میں لوگ بد نظمی کا مظاہرہ کرتے ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے کیا یہاں اتنے ہجوم میں کوئی کورونا پازیٹو موجود نہیں ہوسکتا جو خود بھی اس بات سے لاعلم ہو کے کہ میں اس بیماری میں مبتلا ہوں اور دوسروں میں باآسانی اس بیماری کو منتقل کرنے کا سبب بن سکتا ہوں۔ ملتان میں بھی منظر ایسا ہی تھا لوگوں کا ہجوم ایک دوسرے پر چڑھے لوگ اپنی باری آنے کا انتظار کیے بغیر ایک دوسرے سے لڑتے الجھتے دیکھے گئے۔

یہاں خواتین بھی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں لگی ہوئی تھیں جبھی ایک خاتون بہت سی خواتین کے درمیان بھگدڑ کی ضد میں آکر ہلاک ہوگئی یہی لوگ اگر صبر کا مظاہرہ کرلیں تو قیمتی جانوں کا تو نقصان نہ ہو مگر یہاں جان کی پڑی کس کو ہے سب دووقت کی روٹی کے لئے تگ ودو میں لگے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران اچھی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرتے اور گھر گھر راشن پہنچاتے تو حالات یکسر مختلف ہوتے۔ جب عوام کو عام حالات میں گھروں سے نکلنے پر پابندی ہے تو راشن کے لئے کیوں نکالا گیا۔

اس سب کا حل بہت احسن اور عمدہ طریقے سے نکالا جا سکتا تھا جیسے چاہینہ نے گھروں میں لاک ڈاون کے باوجود اپنے شہریوں کو تمام تر سہولیات گھروں میں مہیا کیں پاکستان بھی اس پر عمل درآمد کر سکتا تھا کہ نظم ضبط قائم رہے ابھی بھی دیر نہیں ہوئی حکومت سے التجا ہے خدارا بہتر انتظامات کریں تاکہ بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments