نصاب سے غائب ایک قومی ہیرو


ہمارا نصاب کہیں سے تاریخی بلنڈرز سے بھرپور ہے تو کہیں سے بہت اہم باب غائب ہیں۔ ایک ایسا ہی باب ایک قومی ہیرو کے متعلق غائب ہے۔

اس قومی ہیرو کے باب کا ہمارے نصاب میں جگہ نہ پا سکنے کی ایک وجہ ہماری وہ ریاستی پالیسی ہے جس کے طفیل اب ہر معاملے کو مذہب کی عینک سے دیکھا جانا روایت بن چکی ہے جس سے انحراف ممکن نہیں۔

ڈاکٹر محمد عبدالسلام 29 جنوری 1926 کو ضلع جھنگ کے ایک گاؤں سنتوکداس میں چودھری محمد حسین کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں افسر تھے۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے ہی حاصل کی بچپن سے ہی سائنس اور ریاضی میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہیں انگریزی، فارسی اور پنجابی شاعری سے بھی دلچسپی تھی۔

14 سال کی عمر پنجاب یونیورسٹی کے انٹرنس امتحان میں ریکارڈ ساز نمبر حاصل کیے ان کی کامیابی پر ان کے پورے قصبے کے لوگوں نے خوشی منائی۔

بیس سال کی عمر میں انہوں نے میتھیمیٹکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
انہیں برطانیہ کے سینٹ جان کالج، کمیبرج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے تین سال کی سکالرشپ دی گئی۔
1951 میں انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی تھیسس مکمل کیا۔ اور 25 سال کی عمر میں لاہور میں واپس تشریف لائے جب تک پاکستان بن چکا تھا۔

انہوں نے گورنمنٹ کالج میں لیکچرر کی حثیت سے پڑھانا شروع کیا، اس امید کے ساتھ کہ وہ نوجوان نسل کو سائنسدان بننے اور ترقی کرنے کی تحریک دے سکیں گے۔

اسی سال پنجاب یونیورسٹی میں میتھیمیٹکس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ منتخب ہو گئے۔
1953 میں لاہور میں فسادات شروع ہو گئے جس میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سارے لوگ قتل ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالسلام بھی احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے اس لیے وہ واپس کیمبرج لوٹ گئے۔

انہوں نے 4 سال تک کیمبرج میں لیکچرر کی حیثیت سے تدریس کے فرائض سرانجام دیے اور 1957 میں امپرئیل کالج لندن میں تھیوریٹکل فزکس کے پروفیسر لگ گئے۔

عبدالسلام 1960 ء سے 1974 ء تک پاکستان میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ایڈوائزر برائے سائنس رہے جہاں سے انہوں نے ملک کے سائنسی انفراسٹرکچر کی ترقی میں اہم اور با اثر کردار ادا کیا۔

وہ سپیس اینڈ اپر اٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کے فاؤنڈنگ ڈائریکٹر تھے۔ وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں تھیوریٹیکل فزکس گروپ (ٹی جی پی) کا قیام عمل میں لائے۔

سائنس کے ایڈوائزر کی حیثیت سے آپ نے ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال میں پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور 1972 میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس لیے انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی کہنا غلط نہ ہو گا۔

1974 میں احمدی کمیونٹی کو اقلیت قرار دینے اور فسادات شروع ہونے کے بعد عبدالسلام ملک چھوڑ کر چلے گئے اور شدید غم غصہ اور حیرت کا اظہار کیا۔

1979 میں انہیں دو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ فزکس میں نوبل پرائز دیا گیا اس وقت کے پہلے پاکستانی اور سائنسدان تھے جنہیں نوبل پرائز ملا تھا۔

1980 میں جب انہیں قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں نوبل پرائز جیتنے کے بعد بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تو جماعت اسلامی کے شدت پسند مسلح گروہ نے ان کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی جس کی وجہ سے تقریب منسوخ کر دی گئی۔

وہ تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز (ٹی ڈبلیو اے ایس) اور انٹرنیشنل سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس (آئی سی ٹی پی) کے بانی تھے۔ انہوں نے نوبل پرائز کے شئیرز سے حاصل ہونے والے رقم پاکستان میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے فنڈ قائم کرنے کے لیے عطیہ کردی۔ آپ کا انتقال 21 نومبر 1996 کو آکسفورڈ میں ہوا وہ اپنے وطن سے آخری سانس تک وفادار رہے ان کو پنجاب کے شہر ربوہ میں دفنایا گیا۔

1998 میں، ملک کے جوہری تجربات کے بعد حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعزاز کے لئے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ مگر ہمارے نصاب میں ان کی ان خدمات کا ذکر غائب ہے۔ میں حکومت پاکستان سے عبدالسلام کی وطن کے لیے خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی زندگی کی کہانی کو نصاب میں شامل کرنے کی استدعا کرتا ہوں۔

ان کی زندگی پر بننے والی ڈاکیومنٹری فلم نیٹ فلکس پر دستیاب ہے آج کل جب بہت سے لوگوں کے پاس فرصت ہے تو آپ دیکھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments