احفاظ الرحمن۔ زندگی کو اپنے قلم سے زندہ رکھنے والا جرات مند صحافی سوئے عدم چلا



میں کچھ دنوں سے بہت بے چین تھی۔ ہر کچھ دنوں بعد ایک بے قراری کے سے عالم میں مہناز رحمن کو پیغام بھیجتی۔ ”احفاظ بھائی کیسے ہیں“؟ اور مایوس کن سا جواب سن کر بے چینی بڑھ جاتی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی کو اپنی جرات مند شاعری سے زندہ رکھنے والا منفرد شاعر اور سورج کی سی توانائی رکھنے والا صحافی اپنی آخری آرام گاہ کی جانب رواں ہے۔

احفاظ الرحمن جو باوجود بظاہر سخت نظر آتے تھے اندر سے نرم اور دھرتی کے انسانوں کے آلام اور خوشیوں سے جڑے ہوئے تھے۔ جبھی تو اُنھوں نے ایوب خان کی آمریت کو زمانہ طالب علمی میں چیلینج کیا۔ بطور صحافی ضیا کی آمریت کے دور میں پابند سلاسل رہے۔ معاشی بد حالی کے باوجود کسی بھی حکومت سے مصالحتی معاہدہ نہ کیا۔ جو آج میں بڑے بڑے صحافیوں کے متعلق سنتی ہوں۔ ان کے نظریات کو نہ توڑا جا سکا اور نہ موڑا۔ وہ ایک بڑے صحافی ہی نہیں بڑے انسان بھی تھے۔

وہ اپریل کی چار تاریخ کو 1942ء میں پیدا ہوئے اور بارہ اپریل 2020 کو اٹھہتّر برس کی عمر تک بھی ادب اور زندگی سے جڑے دینے کا ثبوت دیتے رہے۔ وہ بستر مرگ میں بھی ظلم اور زیادتی کے خلاف انسانی حقوق کی جنگ اپنے قلم سے لڑتے رہے۔

تاہم اپنے انتہائی مصروف صحافت کے دور میں بھی انھوں نے مجھ جیسی معمولی قلم کار کی کتنی محنت اور محبت سے پہلی کتاب ”والٹ ڈزنی کی سوانح عمری“ اس وقت چھپوائی، جب میں امریکا منتقل ہو چکی تھی۔ وہ میری کتاب کا سارا کام اپنی ملازمت کے اوقات کے بعد کرتے تھے۔ اشاعت کے بعد میرے شکریہ پر، بس یہ کہہ کر پیار بھری ڈانٹ پلائی۔ ”تم میری چھوٹی بہن ہو۔ اب کبھی شکریہ مت ادا کرنا“۔

مجھے ان کے مزاج کی بظاہر سختی سے ڈر لگتا تھا لہٰذا پھر کبھی ان سے کوئی ایسی بات نہیں کی جو ان کے خلوص کو چیلنج کرے۔ بے شبہ ان کا شمار ان چند لوگوں میں تھا جن کی دوستی میرا اثاثہ تھی۔

میں ان کے ساتھ بیٹھ کر باتوں ہی باتوں میں وہ گر سیکھ کے اٹھتی، کہ جو کوئی کسی جعلی قسم کے دانشوروں کی سالوں کی صحبت میں نہ سیکھ سکے۔ مثلاً ایک دفعہ میں نے اپنے کچھ کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں مستقبل کے موضوعات کے منصوبوں پہ تبادلہ خیال کیا۔ انھوں نے طویل تقریر کیے بغیر ایک بات کہی۔ ”وہ لکھیے جو نیا ہو جس پر پہلے کبھی اس پہلو سے لکھا نہ گیا ہو۔ لوگ کتابوں پہ کتابیں لکھ کر محض روشنائی اور درختوں کا ضیاع ہی تو کر رہے ہیں”۔

انھوں نے مجھے منع نہیں کیا مگر کتابوں کے اس قسم کے مصنف نہ بننے پہ غور کرنے کی دعوت دی جو بجائے کسی نئی بات کے مستقل اپنی کہی ہوئی باتوں کو دُہراتے اور کتابوں پہ کتابیں چھپواتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ وہ اپنی معمولی سطح کی کتابوں کی تشہیر کے لیے تن من دھن کی بازی بھی لگا دیتے ہیں۔ ایسے میں جب میں احفاظ الرحمن جیسے صحافی کی قامت کو دیکھتی ہوں تو ایسے کوتاہ قد علمی بونوں پہ رحم کے سوا کچھ نہیں آتا۔

انھوں نے اپنی سچائی کا دعوی کیے بغیر جرات مندی اور سچائی کا وہ سبق دیا جو آج کے صحافیوں میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ ان کی شخصیت بڑی سہی مگر انہوں نے اپنی شخصیت کے بجائے نظریات کی قامت کو آگے رکھا۔ ہمارے ملک میں اسی قسم کی شخصیت پرستی نے مذہبی پیش رو سے لے کر ادبی اور سیاسی شخصیات کے بڑے بڑے بت تراش لیے ہیں۔ جس کی وجہ سے بت پرستوں کو چیلنج کرنا مشکل ہے۔

کسی کی غلطی کی جانب اشارہ کرنا موت کے منہ میں جانے کے مترادف لگتا ہے۔ کیوں کہ یہ شخصیات اگر مر بھی جائیں، تو ایک ایسا ‘کلٹ’ بنا جاتی ہیں جو ان شخصیات کے نظریات پہ نظر ثانی کے قطعاً قائل نہیں ہوتے۔ جیسے ان کے تراشے بتوں سے کوئی غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسے بند دماغوں کا انجام دیکھنا مشکل نہیں۔

ویسے تو میں ہر بار ہی پاکستان جاتی تو ان سے اور ان کی بیوی مہناز رحمن سے ملنے کی کوشش کرتی مگر اس بار جو پاکستان گئی تو خاص کر ان کے لیے بھی گئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اب کب اور کتنی جلدی آنا ہوگا۔ ان کے ساتھ بات کرنے اور بیٹھنے کا ایک دن مختص کیا تھا۔ اور ان لمحات کو کیمرے میں قید بھی کیا جو آج میرا سرمایہ ہیں۔

احفاظ بھائی بالآخر سوئے عدم گئے، مگر کس وقار سے۔ کوئی جھوٹ اور منافقت کا داغ نہیں ان کے سینے پہ۔ اپنی دھرتی کے انسانوں سے جڑے رہنے کا ثبوت وہ چند اہم کتابیں جو نظم اور شاعری کی صورت ہیں۔ اور ان کے ترقی پسند نظریات کا سیدھا، ستھرا اور سچا اظہار ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ انھوں نے ایسی زندگی گزاری جو سورج کے طرح روشن تھی۔ کوئی انسان بھلا غلطیوں سے پاک بھلا کب ہوا ہے لیکن ا گر کوئی اپنی تمام تر انسانی کم زوریوں کے باوجود اپنے سے بلند ہو کر انسانی بقا کی جنگ لڑتا رہا وہ قابل احترام ہے۔

انھوں نے بوزیمارتی کی نظم ”میری آرزو“ کا بہت خوب ترجمہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ خود ان کی بھی دلی آرزو ہو گی۔

میری آرزو
میں دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں
اس کے قدرتی راستے سے
وہ مجھے سفید پتیوں سے ڈھکی
میری قبر کی طرف لے جائیں گے
وہ مجھے کسی تاریک جگہ پر دفن نہ کریں
جیسے کسی غدار کے ساتھ کیا جاتا ہے
میں ایک صاحبِ کردار آدمی ہوں
اور ایک صاحب ِکردار آدمی کی حیثیت سے
یہ چاہتا ہوں کہ جب مروں تو
میرا چہرہ سورج کی طرف ہو

ترجمہ: احفاظ الرحمن
تاریخ وفات 12 اپریل 2020ء بوقت صبح تین بج کر 43 منٹ
۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments