امداد کی تقسیم اور کورونا کا پھیلاؤ



ایک افسوس ناک خبر کے مطابق ملتان کے قاسم پورہ سنٹر میں احساس پروگرام کے تحت مستحقین میں امداد کی نقد رقوم کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے کے نتیجے میں ایک بزرگ خاتون جان بحق اور 20 خواتین زخمی ہو گئیں جبکہ راجن پور سمیت مختلف شہروں میں احساس سنٹرز پر بدنظمی کی وجہ سے دھکم پیل کے واقعات سامنے آئے جہاں خواتین آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں جبکہ وزیر اعلٰی پنجاب نے ملتان اور راجن پور کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

اس وقت دنیا بھر کی طرح وطن عزیز بھی کورونا وائرس کی زد میں ہے اور پاکستانی قوم اس وبا کے ساتھ بھر پور طریقے سے جنگ لڑ رہی ہے پورے ملک میں گزشتہ تین ہفتوں سے لاک ڈاون ہے کھانے پینے اور اشیاء ضروریہ کے علاوہ تمام مارکیٹیں بند اور کاروبار زندگی معطل ہے یہاں تک کہ تمام مذہبی مقامات زیارت گاہیں بند اور عبادت گاہیں چند مخصوص لوگوں تک محدود کر دی گئی ہیں گزشتہ جمعہ کو بھی حکومت کی طرف سے جاری کردہ طریقہ کار کے مطابق 5 سے 7 افراد کو جمعہ کے اجتماع میں آنے کی اجازت دی گئی جبکہ باقی لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں نماز ظہر ادا کی۔

یقیناً جس طرح دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور جس شدت کے ساتھ اس وبا میں اضافہ ہو رہا ہے اس سنگین صورتحال کے تناظر میں نہ صرف حکومت بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ زیادہ سے زیادہ احتیاط کریں اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ہم گھروں میں رہیں پوری دنیا کے طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں بار بار ہاتھ دھونے کے علاوہ سماجی فاصلہ برقرار رکھ کر اس وائرس کی چین کو توڑا جاسکتا ہے۔

اسی بنیاد پر حکومت بھی یہی کوشش کر رہی ہے کہ لوگوں کے درمیان سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کے لیے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گھروں تک محدود رکھا جائے یہی وجہ ہے ڈبل سواری پر پابندی ہے اور انتہائی ضرورت کے لیے کھولی جانے والی دکانوں، دفاتر اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اس مخصوص فاصلے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مگر تشویشناک پہلو یہ ہے گزشتہ جمرات سے لے کر اب تک ملک بھر میں قائم کیے گئے احساس مراکز پر امدادی رقوم کی تقسیم کے غیر محفوظ طریقہ کار کی وجہ سے ایک نیا خطرہ سر اٹھا رہا ہے ملتان اور راجن پور کے واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان مخصوص فاصلہ برقرار رکھنے کا فارمولا ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔

اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے غریب عوام کو دو طرفہ لڑائی کا سامنا ہے ایک طرف انہیں کورونا سے بچنا ہے اور دوسری طرف بھوک سے بھی لڑنا ہے کیونکہ وطن عزیز کی زیادہ تر آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے جو غربت کے عالمی معیار سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جن کا گزر بسر روزانہ کی آمدنی پر منحصر ہوتا ہے یہی وجہ ہے لاک ڈاون کے بعد پورے ملک سے یہ آواز اٹھی کہ مشکل کی اس گھڑی میں غریب سفید پوش اور عام لوگوں کے لیے فوری طور پر امداد جاری کی جائے۔

گوکہ حکومت فوری طور پر اس کام کا آغاز کرنے میں ناکام رہی مگر دیر آید درست آید اب اس کام کا آغاز ہو گیا ہے اس حوالے سے ملک بھر میں ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں میں 144 ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے اور فی خاندان 12 ہزار روپے دیے جائیں گے گوکہ رجسٹریشن کے مراحل میں بہت سی ٹیکنیکل خامیاں سامنے آرہی ہیں مگر پھر بھی یہ بات باعث اطمینان ہے کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں بینظیر انکم سپورٹ کے لیے رجسٹرڈ خاندانوں کو امدادی رقوم کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے دوسرے مرحلے میں احساس کفالت پروگرام کے لیے رجسٹرڈ ہونے والوں کو امداد جاری کی جائے گی۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر میں قائم کردہ 17 ہزار احساس مراکز پر مستحق لوگوں کو بائیو میٹرک تصدیق کے بعد نقد رقوم دی جارہی ہیں۔ مگر تشویشناک پہلو یہ ہے لاک ڈاون، بازاروں، مارکیٹوں، دفاتر کی تالا بندی اور مساجد کی بندش کے باوجود ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کو امداد کے حصول کے لیے باہر نکال دیا گیا ہے اور پھر غیر محفوظ طریقہ کار کے ذریعے احساس مراکز پر لوگوں کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے آنے والی خبروں کے مطابق بہت سے مراکز ایسے ہیں جہاں محدود فاصلے اور دیگر حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کیا جارہا ہے ملتان اور راجن پور کے واقعات اس کی واضح مثال ہیں۔

احساس سہولت مراکز پر آنے والی اکثر خواتین ہوتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ کوئی ایک مرد ضرور ہوتا ہے ایسی صورتحال میں مرکز کے اندر پہنچ جانے والی خواتین کے لیے تو باہمی فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر مراکز کے باہر خواتین کا جو رش ہوتا ہے اور پھر ان کے لواحقین کا جو رش ہوتا ہے اسے دیکھ کر ان خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صورتحال امداد تقسیم کرتے کرتے کہیں کورونا کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن جائے۔

ایک ایسے وقت میں جب ہم نے کورونا سے بھی بچنا ہے اور بھوک سے بھی لڑنا ہے حکومت کو امدادی رقوم کی تقسیم کے لیے کوئی محفوظ طریقہ کار اپنانا چاہیے کیونکہ حکومت کے پاس بینظیر انکم سپورٹ اور احساس پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہونے والوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہے جس میں ان کے موبائل نمبر سے لے کر رہائش تک سب معلومات شامل ہیں اگر لوگوں کو موبائل اکاؤنٹ یا منی آرڈر کے ذریعے گھروں سے نکلے بغیر امدادی رقوم ان تک پہنچانے کا کوئی طریقہ کا طے کرے تو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو گھروں سے نہیں نکلنا پڑے گا یا پھر بائیو میٹرک تصدیق اتنی ہی لازم ہے تو دیہی علاقوں میں چک اور موضع اور شہری علاقوں میں محلہ جاتی بنیاد وہاں جا کر یہ امداد تقسیم کی جاسکتی ہے اس سے لوگوں کو گھروں اور علاقوں تک محدود رکھا جاسکتا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال معلومات کی کمی کی وجہ سے ہر مرد و خاتون شناختی کارڈ لے کر احساس مراکز پر پہنچ جاتے ہیں لیکن اگر ہر ضلع کی انتظامیہ کی طرف سے ہر محلے علاقے کے لیے باقاعدہ اعلان کر دیا جائے کہ آپ سب کو اپنے گھروں کے قریب امدادی رقوم دی جائیں گی تو اس بھی رش کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ ہماری تھوڑی سی غفلت کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتی ہے جس کورونا سے بچنے کے لیے لوگ گھروں میں بیٹھے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ امداد لیتے لیتے اس کورونا کو بھی ساتھ گھروں میں لے جائیں #


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments