عورت کس مرد پر اعتبار کرے؟


ہر انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی صنفِ مخالف سے محبت یا کم از کم اس کے لئے دل میں پسندیدگی ضرور پیدا ہوتی ہے۔ شادی اور جنسی و ازدواجی تعلقات انسانی جبلت کا خاصہ ہیں بلکہ یہی جبلت جانوروں اور پرندوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ محبت اور انسانی نفسیات کے حوالے سے ایک مضمون نگاہ سے گزرا تو سوچا کہ ہم بھی کچھ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں، اگرچہ میری عقل و خرد اس معاملے میں کافی ناقص ہے۔

اعتبار و اعتماد محبت کا جزوِ لاینفک ہیں۔ محبوب / محبوبہ پر اعتماد ہی ہمیں اس کے قریب کرتا ہے، جذباتی، دلی، جسمانی اور جنسی طور پر۔ اور جب یہ اعتماد کسی وجہ سے مجروح ہو جائے تو قربت تو دور کی بات، دوسرے شخص کی صورت تک دیکھنے سے بیزاری ہونے لگتی ہے۔

اس معاملے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ اعتبار و اعتماد کب قائم ہوتا اور کیسے ٹوٹتا ہے؟ اور یہ کہ آج کے اس مادہ پرستانہ دور میں مرد و عورت ایک دوسرے کا اعتبار کر سکتے ہیں جبکہ دغابازی اور بیوفائی عام ہو گئی ہیں؟ ان سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اب لوگ خلوص و محبت کی اداکاری کرتے ہیں تاکہ دوسرے شخص کا اعتماد حاصل کر کے اسے لوٹیں؟ آج کل کے حالات و واقعات تو اسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ کوشش کرتی ہوں کہ ہر سوال پر بات کی جائے اور حالات و واقعات اور انسانی نفسیات کا جائزہ لینے کے بعد اپنے رویوں کو زیادہ سے زیادہ مثبت اور درست کیا جائے۔

پہلا جواب: عورت کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنے محبوب پر غیرضروری اعتبار کر لیتی ہے۔ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مرد، عورت کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یا وہ عورت کا جذباتی استحصال کرکے اسے ناجائز تعلقات پر آمادہ کر لیتا ہے۔ اس کا آسان اور سادہ سا طریقہ یہ ہے : جب تک اپنا آپ میرے سپرد نہ کرو گی، مجھے تمہاری محبت کا یقین کیسے آئے گا؟ اور مرد کو یہی یقین دلانے کے لئے جب عورت محبت کے نام پر اپنا وجود ”کھانے کی پلیٹ“ کی طرح مرد کے آگے پیش کر دیتی ہے تو پھر ایک انسان نما جانور پر اعتبار کرنے کی غلطی کا احساس اور خمیازہ ہی باقی بچتا ہے۔

وہ خمیازہ جو شاید تمام عمر عورت کو جھیلنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف، محبت کے نام پر عورت کے ساتھ بدکاری کا گناہ کرنے والا مرد فخر سے اپنے ساتھیوں کو بتاتا ہے کہ اس نے کس طرح شکار کو پھانسا اور کیسے دعوت اڑائی۔ ایسی دعوتیں اڑاتے وقت مرد یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی کی ہوئی بدکاری ان کی ماں، بہن، بیٹی، یا بیوی کے آگے ضرور آئے گی۔ ایسی کسی بھی سنگین صورتِ حال سے بچنے کے لئے والدین اور بڑے افراد نوعمری سے ہی بچیوں کو تربیت دینا شروع کر دیں۔ اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ اپنے لڑکوں اور مردوں پر کڑی نظر رکھیں۔ اپنے خاندان کی عزت جتنی اہم ہے، دوسروں کی عزت و آبرو کو بھی اتنا ہی اہم سمجھیں۔

خود کو مرد کہلانے والی کسی عظیم ہستی نے اگر عورت کا اعتبار توڑا ہو تو وہ قابلِ اعتماد اور مخلص شخص کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے کیونکہ وہ ایک مرتبہ ہوس کا نشانہ بن چکی ہوتی ہے۔ بلکہ یہ رویہ اعتبارشکنی کا شکار ہونے والے مردوں میں بھی یکساں ہی ہو گا۔

دوسرا جواب: مرد و عورت ایک دوسرے کا اعتبار تبھی کریں جب وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو چکے ہوں۔ اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ میاں بیوی شادی کو قائم رکھتے ہوئے دوسرے فریق کے اعتبار کو مجروح

کریں۔ دورِ حاضر میں رشتے جتنے کمزور و ناپائیدار ہو چکے ہیں، میاں بیوی بھی اس افتاد سے محفوظ نہیں۔ البتہ بعض اوقات وہ بچوں کی خاطر یا خود کو طلاق کے داغ سے محفوظ رکھنے کے لئے سمجھوتہ کیے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں نقصان کم اور دنیا کے سامنے اعتماد کا بھرم قائم رہتا ہے چاہے ظاہری ہی ہو۔ محبت اور شادی دونوں صورتوں میں بادلِ نخواستہ ہی سہی لیکن کسی نہ کسی حد تک اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ سو جہاں بڑے نقصان کا اندیشہ ہو، وہاں خود میں انکار کا حوصلہ پیدا کر لیں۔

تیسرا جواب: آج کا دور چونکہ مکر و فریب اور دغا کا ہے لہذٰا چکنی چپڑی باتوں پر اعتبار کر کے خود کو مصیبت اور اذیت میں مبتلا کرنے کی بجائے عقل و خرد سے کام لیں۔ اداکاری کر کے مرد یا عورت کا اعتماد حاصل کر لینا اور پوری طرح شکنجے میں جکڑ لینے کے بعد لوٹ مار کر کے چلتے بننا آج کل کا عام رویہ ہے۔ آج کل کئی مرد شادی کے لئے اونچی جگہ پر ہاتھ مارتے ہیں اور چند دن بعد طلاق دے کر جہیز پر ہاتھ صاف کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔

پھر کسی اور جگہ پر نیا شکار پھانسنے نکل جاتے ہیں۔ تو جہاں اعتبار حاصل کر کے لوٹنے کا شیوہ عام ہو جائے، وہاں اپنی آنکھیں اور دماغ کھلا رکھیں اور خاص طور پر غیروں میں لڑکیوں کا رشتہ طے کرتے وقت ہر ممکنہ تحقیق اور اطمینان کر لیں۔ بیٹیوں بہنوں کا بوجھ سر سے اتارنے کے چکر میں انہیں کنوئیں میں مت پھینکیں جہاں سے وہ خالی ہاتھ اور طلاق کا داغ لے کر واپس آپ کے در پر آن پڑیں۔ اور خود دوسروں کے اعتماد کا احترام کریں تاکہ جب آپ خود کسی پر اعتماد کریں تو جواباً آپ کو بھی راحت و اطمینان اور خوشی ملے۔ اکثر ہم اپنا بویا ہوا ہی کاٹتے ہیں۔ ہاں، بعض حالات میں راست بازی اور ایمانداری کے باوجود ہمارا ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو ہمارے صبر و برداشت اور حوصلے کو آزماتے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے۔

آخر میں یہ کہوں گی کہ محبت اور اعتبار کے معاملے میں ناخوشگوار تجربے سے گزرنے کے بعد ہر کسی کو ناقابلِ اعتبار نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ پانچوں انگلیاں یقیناً برابر نہیں ہوتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments