کون سی فلم دیکھی؟



کون سی فلم دیکھی؟ کیسی لگی؟ کون کون تھا؟
ایسا لگتا ہے کہ کان یہ آوازیں سننے کو ترس گئے ہیں۔ آج ایک پرانی فلم دیکھتے ہوئے یادوں کے جھروکوں میں جھانکا تو اس طرح کے مناظر منعکس ہونے لگے : یہ 1970 ء کی دہائی کے نصف کا زمانہ تھا ہم راولپنڈی شہر کے مغربی کنارے پر ویسٹرج میں رہائش تھے۔ ویسٹرج سے صدر یا راجہ بازار کا ڈبل ڈیکر بس کا کرایہ تیرہ پیسے، ٹانگے کا کرایہ پچاس پیسے اور مورس ٹیکسی کے میٹر پر ڈیڑھ یا دو روپے بنتے تھے۔ سینما میں سٹال کا ٹکٹ بارہ آنے میں آتا تھا جب کہ ہال کا ڈیڑھ روپیہ اور گیلری کا ٹکٹ ڈھائی روپے کا تھا۔ گویا دو افراد دس بارہ روپے میں ایک اچھی فلم دیکھنے کے ساتھ ساتھ کیفے سیروز صدر میں ہلکی پھلکی ریفریشمنٹ سے لطف اندوز ہو کر گھر واپس لوٹ سکتے تھے۔

1977ء کی ”جبری شریعت“ کے نفاذ سے قبل راولپنڈی شہر میں چھبیس سینما گھر تھے۔ اس دہائی میں سن 1977ء تک پاکستان فلم انڈسٹری کو بھی عروج نصیب حاصل ہوا مگر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ پاکستان میں موجودہ سینما گھروں کی حالت زار اور فلم انڈسٹری کے زوال کی د استانِ خونچکاں رقم کرنے کے لیے علیحدہ مضمون درکار ہے۔ ۔ ”یہ کہانی پھر سہی“۔

ہم نے زندگی کی جو پہلی فلم راولپنڈی کے ایک مشہور سینما ہاؤس میں دیکھی وہ پنجابی فلم ”ہیر رانجھا“ تھی۔ اس فلم میں فردوس اور اعجاز درانی مرحوم نے یادگار کردار ادا کیا تھا۔ صوفی شاعر وارث شاہ کی پنجابی میں لکھی رومانوی داستان پر مبنی ہیر رانجھا اپنے وقت کی مشہور فلم تھی۔ احمد راہی کے لکھے گئے نغمات کی موسیقی کی دھنیں خواجہ خورشید انور نے بنائی تھیں۔ اس فلم کے لئے گایا گیا میڈم نور جہاں کا یہ نغمہ اتنا مشہور ہوا کہ دو تین دہایوں تک سنا جاتا رہا:

سن ونجلی دی مٹھڑی تان وے
میں تاں ہو، ہو، ہو گئی قربان وے

”ہیر رانجھا“ کے علاوہ 1970ء کی دھائی کی کچھ فلموں نے اپنی یادوں کو آج بھی تازہ رکھا ہوا ہے۔ ایسی فلموں کو دوبارہ بڑی سکرین پر دیکھنے کے لیے من مچلتا ہے۔ مثال کے طور پر :

امراؤ جان ادا، مرزا ہادی رسوا کے ناول پر مبنی، 1972ء میں ریلیز ہونے والی اپنے دور کی مقبول فلم تھی۔ اس فلم میں جن فنکاروں نے کام کیا ان میں رانی، شاہد، آسیہ اور زمرد شامل تھے۔ فلم کی موسیقی نثار بزمی نے ترتیب دی تھی، امراؤ جان ادا کا یہ نغمہ بہت مشہور ہوا تھا:

جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں
آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں
فلسطین کی جدوجہد آزادی کی تاریخ پر مبنی، ریاض شاہد کی لکھی، اس زمانے کی مشہور فلم ’زرقا‘ اگرچہ 1969ء میں بنی تھی۔ مگر 1970ء کی دہائی میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کی کاسٹ میں نیلو، اعجازدرانی، علاؤالدین اور آغاطالش شامل تھے۔ فلم میں موسیقی کا جادو وجاہت عطرے اور رشید عطرے نے مل کر جگایا اور مہدی حسن مرحوم کے گائے اس نغمے نے اس فلم کو امر کر دیا :

تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کِیا جاتا ہے
مذکورہ دہائی میں 1971ء سے 1976ء تک سب سے زیادہ فلمیں بنیں۔ اس دور کی جو فلمیں یادوں کے جھروکوں میں محفوظ رہ گئیں وہ یہ ہیں :

آنسو (1971ء، دیبا، ندیم، شاہد، فردوس، ننھا) : فلم آنسو کے تمام نغمات ہٹ ہوئے۔ خاص کر مسعود رانا کا گایا یہ ر نغمہ زبان زدِ عام ہوا تھا : تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں، جیسے صدیاں بیت گئیں

اسی طرح فلم چاہت : ( 1974ء، شبنم، رحماٰن، قوی خان، لہری، مصطفی قریشی) کے لیے گایا گیا اخلاق احمد اور رونا لیلی ٰ کا یہ دوگانا بہت سنا گیا: ساون آئے : ساون جائے اور اخلاق احمد کا گایا گیت: پیار بھرے دو شرمیلے نین۔ یہ گیت بہت عرصے تک سنے جاتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چند اور فلموں کے یادگار نغمے دہرائیں تو ان میں :

فلم بندگی (شبنم، وحید مراد، طالش) ، کے لیے میڈم نورجہاں کا گایا گانا :جو کیا ہے آج وعدہ اسے عمر بھر نبھانا۔

ا ور فلم بہارو پھول برساؤ (رانی، وحید مراد، سنگیتا ) کا مشہور نغمہ : یہ گھر میرا گلشن ہے، گلشن کا خدا حافظ۔

اور فلم آنسو (ندیم، شاہد، دیبا، فردوس ننھا) کے لیے مہدی حسن کا گایا صدا بہار گانا:
جانِ جاں تو جو کہے گاؤں میں گیت نئے، اور پھر چاہیے کیا سامنے تو جو رہے
اس کے علاوہ فلم میری زندگی ہے نغمہ ( سنگیتا، رنگیلا، صاعقہ، اسلم پرویز اور تمنا) میں ٖفلمسٹار رنگیلا (مرحوم) پر پکچرائزہوئے خوبصورت گانے : تیرا کسی پہ آئے دل تیرا کوئی دکھائے دل۔ تو بھی کلیجہ تھام کر مجھ سے کہے کہ ہائے دل۔ اور

اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا۔ دل اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا
ان فلموں کے گیت اگلی دو تین دھائیوں تک سنے جاتے رہے۔ اُن دنوں فلموں کے اشتہارات زیادہ تر صوتی ہوتے تھے جو ریڈیو پر وقفے وقفے سے سنائے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر مشہور پنجابی فلم بشیرا ( روزینہ، حبیب، سلطان راہی عالیہ۔ 1972ء) کے صوتی اشتہار کی گونج اب بھی کانوں میں گونجتی ہے جو ریڈیو پاکستان لاہور سے بار بار چلایا جاتا تھا۔ اس فلم کے مشہو ر نغمے کا مکھڑا سنانے کے بعد سلطان راہی کا کوئی ڈائلاگ سنایا جاتا او ر صوتی اشتہار ایک گونجدار آواز پر ختم ہوتا تھا : ”اسلم ڈار دا بشیرا ’‘ ۔

صوتی اشتہار ات کے علاوہ شہروں پر ہاتھ سے کینوس پر پینٹ شدہ بل بورڈ تانگے پر گھمائے جاتے جن پر اداکاروں کی فلمبندی کے دوروان اتاری گئی تصویروں کے خوبصورت پوز ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ ایک لاؤڈ سپیکر ہوتا جس کے ذریعے فلم کے مشہورنغمات کیسٹ پلیئر کے ذریعے سنائے جاتے تھے ا

۔ مشہور فلموں کی ٹیپس Tapes عام دکانوں سے مل جاتی تھیں اور عام عوام ان فلمی نغموں کو بسوں، رکشوں اور ذاتی گاڑیوں میں لگے ٹیپ ریکارڈر پر سن کر محظوظ ہوتے تھے۔ آپ چاہیں تو آج بھی ی یو ٹیوب پر ان فلموں اور نغمات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments