یہ توہین حکومت نہیں توہین عدالت ہے



بلوچستان میں ریاست و حکومت میں جو فرق ہے اس کے بارے میں میرے دل میں کھٹک ہے۔ کیونکہ دنیا میں آج سے دو سو سال قبل یہ صورت حال موجود تھی جہاں صرف ”حکومت“ ہی کا وجود تھا، ”ریاست“ کا کوئی تصور نہ تھا۔ کوئی شخص حکومت کے خلاف کھڑا ہوا تو فوراً اسے باغی قرار دے کر گردن اڑانے کا حکم جاری ہوا۔ صدیوں بعد اہم تبدیلی جو سامنے آئی وہ یہ کہ ”ریاست“ ایک بالکل علیحدہ شے ہے اور حکومت صرف ریاست کے معاملات کو چلانے والا ایک انتظامی ادارہ ہے۔

ملک کے رہنے والے دستوری اور آئینی طور پر درحقیقت ”ریاست“ کے وفادار ہوتے ہیں، حکومت کے نہیں۔ اصل جس شے کو وفاداری کہا جاتا ہے وہ ”ریاست“ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ حکومت ریاست کا ایک انتظامی ادارہ ہے۔ بلوچستان میں سب کچھ ماضی جیسا ہے جہاں ریاست اور حکومت کی جدید اصطلاح پر عمل کرنے والے مشکلات میں ہیں ریاست کی جدید اصطلاح اور قائداعظم کے افسر ان سے خطاب کی روشنی میں کام کرنے والا ریاست کا وفادار سرکاری افسر بھی مشکلات میں ڈوبا ہوا ہے وہ سوچ رہا ہے ریاست کی وفاداری نظام سے الگ تھلگ اور تنہا کھڑا کردیتی ہے ریاست کے مفاد کے فیصلے ان کے ذات کے بنا دیے جاتے ہیں ا ور تمام تماشا بین نظریں ان کو گھیر لیتی ہے اور ندامت کے عالم میں قائداعظم کے خطاب ریاست کے وجود اور اپنے ریاست پرستانہ سوچ کو بے بسی کے عالم میں دیکھتا ہے۔

اور اس عمل نے ایک نئے ریاستی ملازمین کا دستہ جنم دیا ہے جس میں سیکرٹری سے لے کراسسٹنٹ کمشنر تک سب ریاست کے بجائے ریاست کے معاملات چلانے والوں کے ذاتی نوکر اور وفادار ہیں ان کا یقین کامل ہے کہ ریاست کے ساتھ ان کا رشتہ سفری شناخت کے دستاویزات تک ہے تاہم ان کا رشتہ ریاست سے ان کی طرح دستاویزی رشتہ رکھنے والے لیکن معاملات چلانے والوں کے ساتھ خلوص کا ہے کیونکہ ان کومعلوم ہے کہ ان کا تبادلہ ریاست کے مفادات کے بجائے نظام پر قابض لوگ اپنے مفادات کے تحت کرتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ تبادلوں کے آرڈرز میں درج ان جھوٹے الفاظ کا سہارا لینا کہ یہ تبادلہ عوام کے بہتر مفادات میں کیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ریاستی قوانین کو بھی پامال کیا جارہا ہے اور حکومت بلوچستان نہ تو صوبے کی اعلی عدالیہ کے احکامات ماننے کو تیار ہے نہ ریاست کے مفادات کی امین ہے۔ کچھ دن قبل صوبائی حکومت نے ایک حکم نامے کے تحت 14 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو تبدیل کیا تھا جس کو بھی عدالت عالیہ میں چیلینج کیا گیا اور عدالت عالیہ نے تمام ڈپٹی کمشنر کے تبادلے منسوخ کرنے کا حکم دیا لیکن دو دن بعد ایک الگ آرڈر کے ذریعے بعض افسر ان کو توہین عدالت کرتے ہوئے دوبارہ اسی اضلاع میں تعینات کردیا گیا ہے

جب قانونی شکنی کا یہ عالم ہو کہ معزز عدالت عالیہ کے احکامات توہین کی جائے وہاں عام آدمی کی شنوائی کا حکومتی سطح پر یقین کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل ڈپٹی کمشنر چاغی کے غیرقانونی احکامات کے خلاف پریس کانفرنس کرنے والی اسسٹنٹ کمشنر دالبندین عائشہ زہری کو ایک وزیرکی ایماء پر چیف سیکرٹری بلوچستان نے اپنے حاصل اختیارات کے تحت تبدیل کردیا ہے اس تبادلے کے متعلق کمشنر رخشان نے چیف سکریٹری بلوچستان کو خط لکھا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر دالبندین نے ان کے اور ڈپٹی کمشنر کے اطمینان کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دیے۔وہ سینئر حکام کی جانب سے تفویض کردہ احکامات کی بجا آوری میں کبھی ناکام نہیں ہوئیں۔ حتی کہ وہ نو دن تفتان میں رہ کر دن رات کام کرتی رہیں باوجودیکہ یہ ان کا سب ڈویژن نہیں تھا۔ وہاں ایک گروپ ہے جو ان کی بحیثیت اے سی دالبندین پوسٹنگ کے وقت سے ان کے خلاف سر گرم ہے۔ انہیں غلط فائدہ اٹھانے کے لئے خاتون ہونے کے باوجود باقاعدہ خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر انہوں نے بڑی دلیری کے ساتھ اس دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔

25 جنوری 2020 کو انہوں نے ایک ریٹائرڈ رسالدار سفر خان کو بدنام زمانہ پدگ جیک پوسٹ پر رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ کر مقدمہ نمبر 2 / 20 محررہ 26 جنوری 2020 قائم کیا۔ سفر خان کی تعیناتی سابقہ ڈپٹی کمشنر نے سیاسی دباؤ کے باعث کی تھی۔ یہ گرفتاری اس گروپ کے فوری غیض و غضب کا باعث بنی جو کھلم کھلا بلیک میلنگ پر اتر آیا۔ قومی اسمبلی (کی قائمہ کمیٹی) میں منشیات کے پکڑے جانے اور سابقہ ڈپٹی کمشنر کا مقدمہ درج کرنے سے انکار پر معاملہ زیر غور ہے۔

24 فروری 2020 کو ہونے والی میٹنگ میں یہ حکم جاری کیا گیا کہ اے سی کے خلاف کسی تادیبی کارروائی سے گریز کیا جائے۔ مگر اس گروپ نے اے سی کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یہ گروپ مسلسل اسے پریشان کرتا رہا۔ اس کے لیویز گارڈز کو 31 مارچ کو مبینہ طور پر ڈی سی کے حکم پر تبدیل کر دیا گیا مگر بعد میں واضع ہوا کہ ڈی سی نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ گروپ نے اشتعال مین آ کر ان گارڈز کو ڈی جی لیویز کے حکم کے تحت ضلع واشک تبدیل کروا دیا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈی جی لیویز نے اے سی دالبندین کے لیویز سپاہی واپس لے کر انہیں ضلع واشک تبدیل کر دیا جبکہ اس تبادلہ کے لئے نہ ہی ایسی، نہ ڈی سی اور نہ ہی کمشنر نے کوئی درخواست کی تھی۔ یہ تبادلہ سراسر سیاسی دباؤ پر صرف ایسی کو جھکانے کے لئے کیے گئے۔ حکومت کے اس فیصلہ کے بعد کہ مستحق اور دیہاڑی دار مزدوروں میں راشن تقسیم کیا جائے اس گروپ نے اے سی کو یہ راشن مستحقین میں تقسیم کرنے کی بجائے سیاسی کارکنوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا۔

جس پر اے سی نے انکار کر دیا۔ یہ انکار گروپ نے اپنی توہین سمجھا اور اے سی کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ اے سی نے حکومتی احکامات کی تعمیل کی اور اپنے آپ کو کسی گروپ کی بجائے سرکاری ملازم ثابت کیا۔ آپ سے گزارش ہے کہ اے سی دالبندین کے تبادلہ کے احکامات منسوخ کیے جائیں۔ اب صوبائی درالحکومت میں موجود چیف سیکرٹری وزیر کی خودشنودی کے لئے تو اے سی دالبندین کو تبدیل کررہا ہے جبکہ اس افسر سے انتظامی کام لینے والے دونوں افسران خوش ہیں۔

مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اے سی دالبندین کا تبادلہ تومنسوخ نہ ہوگا لیکن کمشنر رخشان کو خط لکھنے کی پاداش میں تبادلہ کی خبر ضرور ملے گی اس صورتحال میں ہر چالاک افسر سوچ رہا ہوگا کہ توہین عدالت یا توہین حکومت کی جائے؟ کیونکہ اعلی افیسران عدالت عالیہ میں زیر سماعت کیسز میں توہین حکومت نہیں توہین عدالت کررہے ہیں چیف سیکرٹری کے احکامات توہین حکومت نہیں توہین عدالت ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments