جدید سائنسی معاشروں کا قیام


ہزاروں سال پہلے انسانوں نے مل جل کر رہنا سیکھا اور کسی نہ کسی شکل میں سماج کو ترتیب دیا۔ سماج کی اس ترتیب میں ظاھری سی بات ہے ان کو زندگی گزارنے کے لیے کسی مروجہ ضابطہ، قانون یا پھر جس کو ہم موجودہ وقتوں میں ملک کا ”آئین“ کہتے ہیں اس کی شدت سے ضرورت تھی جس کی عدم موجودگی میں معاشرتی انتشار، ذہنی تزبزب اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا سماں تھا۔ معاشروں کو چلانے اور آگے بڑھانے کے لیے ”آئین“ کی ضرورت کو قبائلی کلچر نے ”جرگہ“ کی شکل میں کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔

لیکن اس سے بھی پہلے ”ضرورت ایجاد کی ماں ہے“ کے بنیادی اصول کے تحت ذہین ترین مذہبی راہبوں اور لیڈروں نے زمانہ قدیم کے مختلف اوقات میں سینکڑوں ”مذاہب وعقائد“ کی کرہ ارض پر مختلف علاقوں میں بنیاد رکھی تاکہ زندگی گزارنے کے لیے سماج میں کسی باقاعدہ آئین کی غیر موجودگی میں طاقت کی بنیاد پر جو افراتفری پائی جاتی تھی اس میں ٹھہراؤ لایا جاسکے اور انسانوں کو کسی خاص اصول کے تحت زندگی گزارنے کا راستہ دکھایا جاسکے۔

ان عقائد کی ایجاد نے انسانی معاشروں میں دو کام بڑے احسن طریقے سے انجام دیے۔ پہلا کام انسانی عقل اور شعور میں اس کائنات کے بارے میں آنے والے جتنے بھی سوالات ابھرتے تھے ان کے جوابات کو کسی مافوق الفطرت اور ان دیکھی طاقت کے ساتھ منسلک کرکے غیر سائنسی انداز سے لوگوں کو مطمئن کیا گیا اور یوں ان کی ذہنی خلفشار کو کسی حد تک دور کردیا گیا۔ دوسرا اہم ترین کام مذاہب سے ”زندگی“ کے عام معاملات کو چلانے کے لیے لیا گیا جس نے انسانی معاشروں کو ترتیب دیا اور لوگوں نے ایک خاص آئیڈیالوجی کے تحت مل جل کر رہنا سیکھ لیا۔

گزرتے وقت کے ساتھ سائنس نے انگڑائی لی اور اپنے قدم جمانے شروع کردئے اور وقتاً فوقتاً سالہا سال پرانے عقائد کی بنیاد پر مبنی اصولوں کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ اس چیلنج کی بنیادی وجہ دونوں کی فلاسفی میں فرق تھا عقائد و مذاہب کی بنیاد اور انحصارانسانی اعتقاد اور ایمان بالغیب پر ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس سائنس ”شواہد اور تجربات“ کو لے کر آگے چلتی ہے۔ سائنس کے اصول اور قوانین عالمگیر ہوتے ہیں جن میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش پائی جاتی ہے اور ان سائنسی قوانین اور اصولوں کو بہتر قوانین کے ساتھ گزرتے وقت میں بدلہ جاسکتا ہے جس سے سائنسی ترقی جنم لیتی ہے۔

جبکہ اس کے برعکس مذہبی عقائد میں لچک کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے اور ان میں عالمگیریت نہ ہونے کی وجہ سے شعوری اور لاشعوری طور پر ”انسانی تقسیم“ عمل میں آتی ہے۔ سائنسی ترقی نے گزرتے وقت کے ساتھ صدیوں پرانے مروجہ سماجی ضابطوں پر گہری ضرب لگائی ہے کیونکہ سائنس کا ”نامعلوم“ سے ”معلوم“ کی طرف سفر جاری ہے جس میں عقلی دلائل اور ٹھوس ثبوت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اگر سائنس کی طاقت اس کے آئے روز نت نئے کرشمے ہیں جنہوں نے انسان کی زندگی سے جسمانی مشقت نکال کر آسودگی کا راستہ ہموار کیا ہے تو مذاہب کی طاقت وہ روحانیت اور ذہنی سکون ہے جس کی ضرورت ہر انسان کو کسی نہ کسی مرحلہ پر پڑتی ہے۔

اسی طرح عقائد اور مذاہب کا انسانوں کی زندگی میں عمل دخل اس وقت تک جاری وساری رہے گا جب تک سائنس اپنا سفر ”معلوم سے نامعلوم“ کی طرف مکمل نہیں کرلیتی۔ دنیا میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا جدید سائنسی علوم اور نئے زمانے کے مطابق دنیا بھر میں ملکی آئین اور ضابطے بن جانے کے بعد عقائد کی اہمیت موجودہ جدید دنیا میں کم ہوچکی ہے یا پھر دنیا میں مذاہب محض عبادات اور روحانیت کا ذریعہ ہیں جبکہ سماجی مسائل کے حل کے لیے ملکی قوانین اور آئین انسان کی ضرورت احسن طریقے سے پوری کررہے ہیں؟ اگر مغربی کلچر اور وہاں کے نظام حکومت کو دیکھا جائے تو وہاں کی سیکولر حکومتوں نے مذاہب کو ریاستی امور سے کلی طور پر الگ کردیا ہے اور ان کا دائرہ کار عبادات اور روحانیت کے حصول تک محدود کردیا ہے۔ تاہم کئی ممالک میں ابھی بھی عقائد اور مذاہب کو زندگی کے تقریباً تمام معاملات میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments