تو ہی بول تنہائی، وقت ہر طرف چپ ہے


ولیم ڈیوس کی نظم ”لیرز“ کو پڑھے تو بہت سال ہو گئے پر اس نظم کی آخری دو لائن میری پسندیدہ ہیں
A poor life if، full of care،
We have no time to stand and stare۔

اور اب جب فراغت ملی ہے تو سب گبھرا گئے ہیں۔ اتنے دنوں سے آئی سولیشن اور قرطنیہ میں بور ہوتے لوگوں کے سٹیٹس دیکھ کر اور اس پہ بنی مذاق والی وڈیوز دیکھ کر میں سوچ رہی ہوں کہ مجھے تو میری تنہائی پسند طبیت پہ لوگوں نے ہمیشہ طنز ہی کیا ہے۔ مجھے تنہائی کب سے پسند آئی اس پہ کوئی حتمی جواب تو نہیں کہ کیا عمر تھی پر مجھے لگتا ہے انسان کی زندگی میں سب سے پہلے والدین کا اور پھر ٹیچیرز کا اثر ہوتا ہے۔ امی ابو دونوں جاب کرتے تھے اور فیملی جوائنٹ تھی نہیں تو یہ عادت تو شروع گھر سے ہوئی، اور اسے مزید پختہ بھی گھر والوں نے کیا۔

سکول سے کالج تک کے کسی ٹرپ پہ جانے کی اجازت کبھی نہیں ملی تھی گھر سے، بے شک جتنا مرضی رو لو اجازت نہیں ملتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ گھر والے کہیں گھمانے لے کر نہیں ں جاتے تھے، بلکہ سکول و کالج کے چند ٹرپ کے صدقہ میں میں نے گریجویشن سے پہلے ہی پاکستان کے چاروں صوبے دیکھ لیے تھے۔ اُس وقت صوبے چار ہی تھے۔ لنڈی کوتل تو تب دیکھا تھا جب وہاں دن کے وقت بھی کوئی عورت نظر آئے تو لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے تھے، اور پیشاور اب والا پیشاور نہیں ں تھا ماڈرن سا۔

اب تو ٹورزم نے بہت ترقی کر لی ہے پر ابھی تک مجھے کہیں بھی درگئی پاور پلانٹ کے ساتھ بنی آبشار کا ذکر کبھی نہیں سنا جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے علاوہ چمن اور کوئٹہ کا سفر جو لگتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہو۔ سب لوگ مری، ناران، کاغان، صوات کے گن گاتے ہیں پر کوئی مجھے سے پوچھے تجھے کون سی جگہ پسند ہے تو ہمیشہ یہی جواب دوں گی کے کوئٹہ۔ چارون طرف سے پہاڑں میں گھِرا یہ خاموش سا شہرمجھے بے حد پسند ہے۔

آپ کوئٹہ میں کہیں بھی کھڑے ہو جائیں آپ کو ہر طرف سے پہاڑ نظر آئیں گے۔ میں آج بھی آنکھ بند کر کے تصور کروں تو وہی سکون اور خاموشی محسوس ہوتی ہے، پر افسوس بھی ہوتا ہے اس شہر سے وہ سکون چھین لیا گیا۔ کوِئٹہ اور چمن پہ تو میں بلا تکان بول اور لکھ سکتی ہوں جبکہ وہ ایک مختصر سا سفر تھا۔ گھر والوں کے ساتھ اور بہت سے شہر دیکھے جو کے واقعی میں سکول اور کالج کے ٹریپ کے ساتھ ممکن نہیں تھا۔ اور پھر ہوا یہ کے گھر والوں کے ساتھ سفر کی ایسی عادت رہی کے یونیوریسٹی میں تو کوئی پوچھتا ہی تھا ٹرپ پہ جانا ہے تو فوراً جواب نا ہوتا تھا۔

اس کے علاوہ کتاب، میگیزین، اخبار پڑھنے کا شوق بھی سب سے الگ کرتا چلا گیا۔ گھر میں آیا اتور کا اخبار کافی نہیں ہوتا تھا جس کے میں سارے اشتہار تک پڑھ جایا کرتی تھی، کالج کی بریک کے وہ تیس منٹ ایک پوری اخبار کے لیے کم پڑ جایا کرتے تھے مجھے یاد ہے کبِھی کبھار تو پرانا اخبار گھر لایا کرتی تھی کے آرٹیکیل پڑھنے ہیں۔ تب انٹرنیٹ کا وہ دور نہیں تھا نا جس میں چوبیس گھنٹے موبائل اور لیپ ٹاپ پہ انٹرنیٹ دستیاب ہوتا۔

تب تو کارڈ آتے تھے جوپی ٹی سی ایل سے تار لگا کر کمپیوٹر میں ڈالے جاتے تھے۔ اور نا ہی موبائل میں ٹو جی تھری جی، فور جی ہوتا تھا اب تو فائیو جی آگیا ہے۔ ٹی وی پہ ایک، دو ڈرامے آتے تھے، وہ اس لیے نہیں کہ  میں نوئے کی دہائی سے پہلے کی ہوں، اس لے کیونکہ میرے گھر میں کیبل میں نے یورنیورسٹی میں آنے کا بعد دیکھی۔ سونے کا ٹائم تب بھی کبھی دس بجے نہیں تھا، تب ایف ایم تھا اب انٹرنیٹ۔ رات کی خاموشی میں جب ساری دنیا نیند کے مزے لیتی ہے مجھے جاگنا ہمیشہ سے اچھا لگا ہے اور لوگوں کا ہجوم کلاس میں ہو، کسی شادی میں، کوئی ٹرینیگ یا کوئی بھی محفل مجھے نیند آتی ہے شدید بور ہونے کا بعد۔

شاید یہی وجہ ہے کا آج تک کی اٹینڈ کی ہوئی شادیوں کی گنتی کروں تو تعداد بارہ سے بھی اوپر نا جائے، اور ان بارہ میں بھی سب کے فنکشن تین دن والے بھی اٹینڈ نہیں کیے، مطلب مہندی، شادی، ولیمہ۔ خیر آج کل تو شادی بھی سات دن چلتی ہے جسے سوچ کر ہی مجھے نیند آتی ہے۔ یہی حال کنسرٹ کا ہے، پچھلے دنوں ایک جگہ باتوں کے درمیاں میں نے کہہ دیا کہ میں نے آج تک کوئی کنسرٹ اٹینڈ نہیں کیا تو وہاں بیٹھے چار لوگوں نے مجھے ایسے گھورا تھا کہ اب تک اُن کے تاثرات کی حیرانی یاد کر کے کے لگ رہا ہے کہ میں نے واقعی کوئی بہت بڑی غلطی کی ہوئی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے بیس بائیس سالوں میں میری دوست نے جو کہ ہے تو کم و بیش میری ہی عمر کی مجھے ہمیشہ بوڑھی روح سے تشبیہ دی ہے۔ جبکہ میرا ماننا یہ ہے کہ میری تمام سہلیوں کی عمر اب مجھ سے دگنی ہو چکی ہے (شادی اور بچوں کے بعد) اور میں نے ریوریس میں سفر شروع کر دیا ہے دماغی طور پہ۔ شکل میں ہم سب اب بھی خوبصورت ہی ہیں، (یہ لکھنا ضروری تھا کہینں وہ سب برا ہی نا منا جائیں ) ۔

کتابیں پڑھنے کا شوق تو شاید وراثت میں آیا ہی تھا مگر مڈل کلاس کے سٹیٹس کی لڑکیاں ایسے عجیب سے شوق کم ہی پالتی ہیں جو اُن کو فلسفیانہ، بورنگ بنا دیں۔ لڑکیوں کو نازک مزاج سا، دھیمی مسکراہٹ (ایکٹینگ کرنی آنی چاہیے)، تھوڑی سگھڑ اور مناسب سا پڑھا لکھا ہونا چاہیے بلکہ یہ کہنا علط نا ہو گا کہ میرے سکول کالج اور یونیورسٹی کے دور میں مجھے کوئی ایسی کلاس فیلو اور دوست نہیں ملی جس کو کتابیں، اخبار پڑھنے کا شوق رہا ہو۔

تو ایسے میں ہمارے کالج، یونیوریسٹی کے استاد بھی کوئی کتاب پڑھنے کی تلقین کر کے اپنے سٹونڈنٹس کو اپنے سے متنفر کم ہی کرتے ہیں۔ جہاں اپنے پورے تعلیمی سالوں میں اپنے فیلوز سے زیادہ ٹیچرز سے دوستی رہی ہے اور خوشی اس بات کی ہے کہ آج تک برقرار بھی۔ (مجھے لگتا ہے والدین اور استاد دوست ہوں تو زندگی کی بہت سی گتھیاں بڑے آرام سے سلجھ جاتی ہیں)۔ وہیں کچھ ایسے ٹیچرز بھی ملے جو اچھے ریڈرز بھے تھے، اور جنہوں نے کتایں تجویز بھی کی، جن میں سے دو نام میں کبھی نہیں بھولی ایک تو سر توصیف جو تھے تو فنانس کے لیکچرر پر اُن سے فلسفے اور بہت سے ٹاپک پہ جتنی مرضی گفتگو کر لو نا وہ بور کرتے تھے نا میں ہوئی، ہاں البتہ باقی کلاس کو ایسے ٹائم پہ نیند ضرور آتی تھی۔

یوں ہی ایک دفعہ ڈسکشن کے دوران سر نے ایک کتاب تجویز کر دی تھی ”آرٹ آف وار“ جسے خریدنے کے لیے مجھے لبرٹی کی ورائٹی بک شاپ کے چھ چکر لگانے پڑے تھے کہ وہ کتاب اتنی کمیاب تھی، دوسری دفعہ تو سر کی بتائی کتاب سر سے ہی لے کر پڑھی تھی ”دا مونک ہو سولڈ ہز فراری“ کیونکہ اُمید تھی ملنا مشکل ہو گی۔ سر توصیف اس لیے بے حد اہم رہے کہ ماسٹرز تک کے سفر میں وہ نا صرف ان استادوں میں سے تھے جنہوں نے نا صرف کتاب تجویز کی بلکہ پڑھنے کے لے دی بھی، اور یہ بات میں کبھی نہیں بھول سکتی۔

اور اس سے پہلے تھے سر فاروق، ادب پڑھنا اور ادب میں خاص طور پہ شاعری کو پڑھنا ایک فن ہے، پڑھنا مطلب شاعری کے {metaphor}استعارہ کو سمجھنا، اور یہ ہر کوئی نہیں سمجھتا۔ اُردو کی شاعری میں تو اب اتنی ورائٹی ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز کم ہی رہے گئی ہے اور رہی سہی کسر ٹک ٹاک کی شاعری نے پوری کر دی ہے۔ اُردو کے پسندیدہ شاعر بتانے سے قاصر ہوں کیا پتہ وہ کسی کے ناپسندیدہ شاعروں میں ہوں

(ابھی پچہلے دنوں ایک پوسٹ پہ لکھے شاعروں کو پسند کرنے والوں کو انفرینڈ کرنے کی دھمکی بھی دیکھی تھی) اپنی پسند بتا کر میں عتناب کا شکار ٹھہروں کہ ایسے شاعر پسند کر تی ہوں۔ پر انگلش میں بہت سے شاعروں میں سے دو بہت پسند ہیں Robert Browning اور John Keats ہیں۔ ان سے تعارف تو سر فارق نے کروایا تھا، بی اے کی انگلش پڑھانے کے دوران۔ (بی اے سے یاد آیا جس وقت میں نے بی اے کیا تھا تب کہتے تھے بی اے کی انگلش پاس کرنا تو جینیس کا کام ہے پہلی دفعہ میں تو نہیں ہوتی البتہ اب کا پتہ نہیں اب بھی ویسی مشکل ہے کہ نہیں انگلش)، جس معاشرے میں گورنمنٹ کے سکولوں میں انگلش کی کتاب پانچویں کلاس میں لگتی ہو وہاں یونیورسٹی کے طلبہ کو انگلش مشکل تو لگے گی ہی نا، خیر میں جینیس تو نہیں پر پہلی دفعہ میں پاس ہو گئی تھی (نمبر باوجود کوشش کے یاد نہیں آئے اور ڈاکومنٹس کون کھول کر دیکھے ).

اور پاس ہونے کا کمال سر فارق کے سر جاتا ہے، جنہوں نے انگلش لٹریچر اتنے خوبصورت انداز میں پڑھایا کہ کسی شاعر کو پڑھتے ہوئے ان کی بتائی ہوئی تفصیل آج بھی یاد آجاتی ہے۔ سر کا انداز تھا کہ شاعری پڑھاتے ہوئے شاعر کی پوری تفصیل بتاتے تھے اور وہ کون سے استعارہ زیادہ استعمال کرتے ہیں وغیرہ، Robert Browning کے بارے میں بتایا تھا کہ اپنی بیوی کے انتقال کے بعد Browning نے خود کو ایک کمرے تک محدود کر لیا تھا اور صرف کتب بینی ہی مشغلہ تھا۔

تب مجھے اس بات نے متاثر کیا تھا کہ انسان غمزدہ ہو تو کتاب اچھی ساتھی ہوتی ہے۔ سر کی پڑھائی ہوئی باقی باتوں میں یہ بات تو میں شاید روز یاد کرتی ہوں اور ہر دن یہ احساس پختہ ہوجاتا ہے کہ وقت غم کا ہو یا خوشی کا کتاب سے بہترین ساتھی کوئی نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو مجھے بیوٹی اور بیسٹ مووی میں بیوٹی کی قسمت پہ تب رشک آیا جب بیسٹ نے اُسے اپنی لائبریری دکھائی تھی۔

ہم زندگی میں تنہائی کے کسی بھی درجے پہ ہوں، مرضی و خوشی سے تنہا ہوں، مجبوری سے یا زبردستی ڈالے گئے ہوں باقی سارے مشاغل کے ساتھ کتب بینی کی عادت انسان کو خود سے روشناس کرواتی ہے۔ یوں ہی تو نہیں روسی زبان کے شہرہ آفاق مصنف چیخوف نے اٹھاروہں صدی میں اپنی ایک کہانی (شرط The Bet) کے کردار میں بتایا کہ تنہائی کیسے انسان کو خود سے روشناس کرواتی ہے، اور انسان دنیا کے نام نہاد طے کردہ اصولوں، نمود و نمائش کو ہی رد کر دیتا ہے ایک دفعہ تنہائی سے روشناس ہونے کے بعد۔

حیران کن اور ناقابل یقین بات یہ ہے کہ جس تنہائی کے خوف سے ہم بلبلا رہے ہیں یہی ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کا حصہ ہوگی اور ہمارے بچے اسی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈجیٹلی ایک ساتھ، لیکن سب سے دور۔ سائنس کی ترقی نا تو غلط ہے نا ہی نقصان دہ، ہاں ہر چیز کا استعمال کا ایک طریقہ ہوتا ہے، جو نا تو ہم نے کبھی سیکھا نا کبھی سکھایا۔ جس طرح ہم ترقی کو سلبریٹ کرنا جانتے ہیں پر ہار کو ڈیل کرنا نہیں ۔ بالکل ویسے ہی ہم نے سوشل ہونا تو سیکھا ہے پر تنہائی کو سمجھنا نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ ہم خود سے خوفزدہ ہو کربہت سی دماغی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جبکہ دنیا کے تمام مذاہب میں آئی سولیشن کی اہمیت ہے، یہ وقت بھی گزر جائے گا quarantine کا، کیونکہ وقت کا کام ہوتا ہے گزر جانا ہم رہیں یا نا رہیں۔ پر ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جب تک ہم ہیں اس وقت کو کیسے گزاریں اور اپنے بچوں کو کیسے سکھائیں۔ آنے والا وقت مزید جدت و ترقی کا دور ہے۔ مطلب آنے والا وقت مزید تنہائیوں کا دور ہے کیونکہ ربوٹ ہر کام آسان ضرور کریں گے آپ سے بات بھی کریں گے بلکہ اب تو فیلینگ والے روبوٹ پہ کام ہو رہا ہے آپ کا احساس بھی کریں گے، وہ وقت تو جب آئے گا تب آَئے گا ہم لوگ آج بھی دن کا زیادہ وقت اپیلیکیشن سے بات کرتے ہیں فیس بک، انسٹگرام، ٹوٹیر اور بے تحاشا اپیلیکیشن ہم سے باتیں بھی کرتی ہیں، سکرین کے اُس پار بیٹھا انسان تصور کرتا ہے آپ اُسے سننیں گے اور وہ بولتا چلا جاتا ہے، آپ سکرین کے اِس پار سنتے ہوئے سوچتے ہیں بولنے والا صرف ہمارے لیے بول رہا ہے۔ جبکہ اسی سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال تنہائی کے احساس کو بڑھاتا بھی ہے اس کے اوپر بے تحاشا ریسرچ موجود ہے اس میں ایک اہم بیماری جو کہ ڈپریشن کی وجہ ہے وہ ہے fear of missing out (FOMO)

انسان جب ایک کمرے میں بیٹھ کر سکرین پہ دنیا کی رنگینی دیکھتا ہے تو ایسے ہی خوف اُسے جکڑتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایک ہی گھر میں ایک ساتھ چوبیس گھنٹے رہنے والے تجربہ سے ہم کوسوں دور ہیں، گھر سے باہر کی مصروفیات (فرار)، اور گھر میں ہوں تو سوشل میڈیا (فرار) کی۔ اب جب سب کو مسلسل ایک گھر میں ایک ساتھ رہنا پڑ رہا ہے تو نا صرف ذہنی اذیت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ تشدد اور قتل کے واقعات میں بھی جس میں نا صرف ترقی پذیر بلکہ برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، ملایشیا، اور چین جیسے ممالک بھی شامل ہیں جہاں گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی اور امریکہ کے حالیہ ریسرچ میں جہاں یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں انسانی عدم برداشت کا رویہ نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں۔ وہیں انسان کے خوف کو بھی ظاہر کرتی ہے جو اُسے تنہائی سے ہے، ہمیں پوری دنیا کی خبر ہوتی ہے سوائے اپنے۔ مجھے یہی بات حیران بھی کرتی ہے ہمیشہ سے، پر اب جواب سامنے ہے، ہم اپنے سوا ساری دنیا کو وقت دیتے ہیں، اور اب جب وقت ملا ہے خود کے لیے تو ہم بلبلا رہے ہیں خوف سے کہ یہ کون ہے جس کے ساتھ رہنا پڑگیا ہے۔ تنہائی سے بڑی آگہی کوئی نہیں اور آگہی ہی تنہائی ہے بقول جاوید اختر، آگہی سے ملی ہے تنہائی

تنہائی سے بات کرنا سیکھیں، تنہا ہو کر خود کو جاننا سیکھیں۔
مدحت اختر کہتی ہیں
ہم برے ہیں یا بھلے محسوس خود کو بھی نہ ہو
تھوڑی اپنے آپ سے بھی ہوشیاری کیجیے
تو تھوڑی ہوشیاری کیجیے اتنے برے نہیں ہیں ہم خود بھی ذرا خود سے بات تو کر کے دیکھیں تنہائی کا لطف ضرور ملے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments