مکمل لاک ڈاؤن ہی مسئلے کا حتمی حل ہے


برٹرینڈ رسل نے تاریخ کے مختلف ادواراور متعدد اہم واقعات کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگ بھوک سے نہیں مرتے بلکہ بھوک کے خوف سے مرتے ہیں۔ یعنی بہت کم لوگوں کی موت کی ذمہ دار بھوک ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنی توانائی محض بھوک کی وجہ سے مرنے کی فکر میں ہی ضائع کر دیتے ہیں جبکہ اس توانائی کو بھوک مٹانے کے ذرائع تلاش کرنے میں صرف کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یقینا ان کی زندگی کے دن بڑھ سکتے ہیں۔ اس وقت ملک میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 70 سے زائد ہو گئی ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد 5000 سے تجاوز کر گئی ہے جو مکمل لاک ڈاؤن نہ ہونے کے باعث خطرناک شرح سے بڑھ سکتی ہے مگر حکومت آج بھی مکمل لاک ڈاؤن کے نہ حق میں ہے نہ ہی جزوی لاک ڈاؤن کو کنٹرول کر پا رہی ہے۔ کیا صرف لوگوں کے بھوکے مرنے کے خوف سے مکمل لاک ڈاؤن نہ کرنے کا جواز درست ہے؟

جن لوگوں کی غربت کو جواز بنایا جا رہا ہے۔ وہ تو سڑکوں پر پہلے کی طرح ہی روزی کی تلاش میں موجود ہیں مگرجن لوگوں نے ان کو ہائر کرنا ہے وہ کرونا کو خوف سے ان کو اپنے گھروں یا دفاتر میں نہیں لے کر جا رہے۔ ہاں مگر بڑی فیکٹریوں میں مزدور کام کر رہا ہے۔ کرونا کے متعلقہ تو دور کی بات ان کو تو بنیادی حفاظتی کپڑے اور سامان بھی نہیں دیا جاتا۔ اب کنسٹریکشن کمپنیز اور دیگر بڑی انڈسٹریز میں کام کی اجازت دینے کا مقصد کہیں صرف ان کے مالکان کو نوازنا تو نہیں؟

کیونکہ یوں کام کے جاری رہنے سے وقتی فائدہ تو ہو سکتا ہے مگر لانگ ٹرم میں اس کے منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سب کے سب نہ صرف کرونا کے اگلے یقینی شکار ہوں گے بلکہ یہ سب اسے اپنے ساتھ اپنے گھروں میں بھی لے جایئں گے اور پھر خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جا کے تھمے۔ آخرکار کرونا کی چین کو توڑنے کے لئے حکومت کو مکمل لاک ڈاؤن کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ شاید نہ علاج کرنے والے ڈاکٹر بچیں اور نہ ہی سماجی فاصلے کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہلکان بغیر حفاظتی کٹ پہنے پولیس والے۔ آخرکار صرف وہی بچ جائیں گے جو یہ اعلان کر رہے ہوں گے کہ ملک میں کرونا سے اموات اور متاثرین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے جس کے لئے حکومتی اقدامات کو نہ سراہنا زیادتی ہو گی۔

ایک مرتبہ پھر یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ کیا انسانی جانوں کے عوض وقتی معاشی فائدہ جائز ہو گا؟ کیا 7 سے 8 ماہ کے بے نتیجہ لاک ڈاؤن سے بہتر 1 ماہ کا مکمل اور یقینی نتائج کاحامل لاک ڈاؤن نہیں؟ 1 ماہ کے لاک ڈاؤن سے نسبتا کم معاشی اور سماجی نقصان ہو گا۔ لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر پڑنے والے مضر اثرات بھی کم اور قابلِ علاج ہوں گے۔ مگر حکومت کا اصرار ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن قابلِ عمل نہیں ہے۔ چلیں تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیتے ہیں کہ ایک مہینے کے لئے کوئی گھر سے نہیں نکل سکتا۔ پھر کیا کِیاجائے؟ سامانِ صرف کیسے لیا جائے اور کمایا کیسے جائے؟ چلیں آئن سٹائن سے تھوڑی عقل ادھار لیتے ہیں اور حکومتی طاقت استعمال کرتے ہوئے ٹیکنالوجی سے تھوڑا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ۔

پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک ماہ کا مکمل لاک ڈاؤن کیوں ضروری ہے؟ کیونکہ کرونا وائرس کا انکیوبیشن پیریڈ 14 دن کا ہے۔ 14 دن کے اندر اس وائرس کے اثرات ظاہر ہو جاتے ہیں۔ تومکمل لاک ڈاؤن کے پہلے 14 دن میں معلوم ہو جائے گا کہ کون اس موذی وائرس کا ممکنہ شکار ہے۔ ان کے ٹیسٹ لے کر ان کو آئسولیشن وارڈ میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ٹیسٹوں کے رزلٹ کے بعد جو صحت مند ہیں وہ اپنے گھروں کے قرنطینہ میں واپس بھیج دیا جائیں اور جن کے ٹیسٹ مثبت آئیں ان کا علاج کیا جائے۔

اس کے بعد یقینی نتائج کے لئے اگلے 2 ہفتوں کے دوران بھی یہی عمل دہرایا جائے۔ اب تو ویسے بھی حکومت کی ٹیسٹنگ اور علاج کی استعداد کار میں اضافہ ہو گیا ہے۔ تو عین ممکن ہے کہ ان قرنطینہ اور آئسولیشن کے کڑے پہروں میں کرونا کہ چین ٹوٹ جائے۔ ایک ماہ بعد پورا ملک مکمل طور پر کھولا جا سکے اور اندرونِ ملک کے تمام سرگرمیاں دوبارہ سے شروع ہو جائیں۔ تاہم کم از کم ایک پورے سال تک بیرون مملک سے آنے والے ہر زمینی، بحری اور فضائی راستے پر قرنطینہ سنٹر قائم کیے جائیں جس میں ہر آنے والا کم از کم بھی 14 دن تک رہے یا ہر ایک کے ٹیسٹ کیے جائیں اور ٹیسٹ کے انتظار تک وہیں رہے جیسا کہ ایک طویل عرصے تک امریکہ کے 55 بین الاقوامی ہوائی اڈوں اور کچھ بندرگاہوں پر قرنطینہ سنٹرز کام کرتے رہے ہیں۔

اس سب کے دوران عوام کی بنیادی سہولیات ان کی دہلیز پر مہیا کی جا سکتی ہیں۔ تمام موبائل کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں وہ اپنے انٹرنیٹ پیکجز کو کم سے کم قیمتوں پر لائیں جو موجودہ قیمتوں سے تقریبا 50 فیصد کم ہوں۔ سرکاری ویب سائٹس اور فون نمبروں پر مفت رابطے کی سہولت مہیا کی جائے۔ ابھی حکومت نے جن دکانوں کو کھولنے کی اجازت دی ہوئی ہے ان سے سب سامان خرید لے۔ فری میسج یا کال کی سہولت دی جائے اور پڑھے لکھے لوگوں ک لئے ایپ بنائی جائے جس پر تمام لوگ اپنی ضرورت کی اشیاء کی فہرست بھیج دیں اور حکومت کے ہائر کردہ کارکن ایک علاقے میں دن میں ایک بار گزریں اور سب کی فہرست کے مطابق اشیاء ان کے گھروں تک پہنچا دیں۔

جن لوگوں نے باہر جا کر سودا سلف لینا ہے وہ گھر کے دروازے پر بھی قیمت دے سکتے ہیں۔ جو اتنی گنجائش نہیں رکھتے ان کو مفت مہیا کی جایئں۔ ہر علاقے کے پلمبر، الیکٹریشن اور ایسی خدمات مہیا کرنے والوں کی فہرست تیار کی جائے۔ جس کسی کو ضرورت ہو وہ اسی ایپ یا نمبر پر فون کر کے بلوا لے اور اس شخص کوماسک اور دستانوں کے ساتھ، سپرے کر کے کسی گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ بچوں کی تعلیم، مولویوں کا درس، آفیشل میٹنگز، عدالتی کارروائیاں، سب آن لائن کر دیا جائے۔

وہ سنٹرز جو الیکشنز میں ووٹنگ سنٹرز کے طور پر استعمال ہوتے آئے ہیں ان کو ہر علاقے کا سٹوریج اینڈ سپلائی سنٹر بنایا جا سکتا ہے۔ اور یہ سب کام ٹائیگر فورس، مقامی پولیو ٹیمز کے ذریعے آسانی سے کروایا جا سکتا ہے۔ اگر ووہان میں معاملاتِ زندگی مکمل لاک ڈاؤن کے بعد کامیابی سے بحال ہو سکتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں۔

کون مفت اشیاء کا مستحق ہے اس بات کا اندازہ حکومت سرکاری ڈیموگرافک اعداد و شمار، نادرا، فیڈرل بورڈ آف ریوینیو، بینک اور موبائل اکاؤنٹ ریکارڈز سے لگا سکتی ہے۔ پھر احساس پروگرام کے ڈیٹا کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا تقریبا 35 ٪ حصہ سروسز سیکٹر سے وابستہ ہے، تقریبا 41 فیصد کا تعلق زرعی شعبہ سے ہے اور تقریبا 25 فیصد کا روزگار صنعت سے جڑا ہوا ہے۔ ہماری 24 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

ہمارے تقریبا 3 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ حکومتی ماہرین ان اور دیگر سرکاری ذرائع اور اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتی ہے کہ کس گھر کو مفت راشن فراہم کرنا ہے، کس کو نقد۔ کس کے بینک اکاؤنٹ میں ماہانہ تنخواہ اور رقم آ رہی ہے اور کس کے پاس 2 مہینے کے گزارے تک کا ڈپازٹ ہے۔ کون اکیلا ہے اور کون اپنے کتنے افراد پر مشتمل کنبے کی کفالت کر رہا ہے۔ وزیر اعظم فنڈ، احساس پروگرام کے 144 ارب اور دیگر مقامی مدد اتنی ضرور ہے کہ اگر ایمانداری سے استعمال کی جائے تو 1 ماہ تک کا عرصہ تک غریب طبقہ کم از کم بھوک سے نہیں مرتا۔

ان اقدامات سے موجودہ ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور اقربا پروری جیسے مسائل سے بھی چھٹکارا حاصل ہو جائے گا اور ویسے بھی یہاں پر نظریہ ضرورت اور وسیع تر قومی و عوامی مفاد میں جمہوریت کا تختہ الٹا جا سکتا ہے تو کیا نظریہ ضرورت اور وسیع تر قومی و عوامی مفاد میں تمام اشیاء ضرورت کو خرید کر لوگوں کے گھروں تک نہیں پہنچایا جا سکتا؟ کیا حکومت آئینی اختیارات استعمال کر کے ہنگامی حالات میں ہنگامی بنیادوں پر مکمل لاک ڈاؤن کر کے ہزاروں قیمتی جانیں اور قیمتی وقت نہیں بچا سکتی؟

سب لوگ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے جودفتری کام بھی ممکن ہیں وہ سر انجام دے سکتے ہیں۔ جن کو ایسا کوئی کام نہیں وہ اپنی ذات اور اپنے خاندان کو وقت دیں اور وہ سب کریں جس کے متعلق وہ سوچتے تھے کہ کبھی وقت مِلا تو یہ کریں گے۔ کیونکہ وقت تو ابھی بھی ہی ہے۔ جیسے ہی ہم اس وباء سے انشا اللہ جیت جائیں گے، ہمیں پھر وقت نہیں ملے گا اور ہم پھرسے ایک بے انتہا مصروف زندگی میں مصروف ہو جائیں گے۔

مصنفہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور قانونی معاملات اور حالاتِ حاضرہ پر لکھتی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments