…اور کتنی آزمائش؟


چلتے چلتے ہم ایک خالی پلاٹ تک پہنچے پھر قدم وہیں جم گئے۔وہ چند نوجوان تھے، خوش دل، خوش خیال اور خوش جمال، نیم دائرے کی شکل میں کھڑے ان نوجوانوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں تھے اور وہ حرکت میں تھے، ان کے لچکیلے جسم،بازو اور ٹانگیں۔

ترنگ میں آکر جب وہ اپنے بازو جھلاتے تو شوق دید سے آنکھیں جھپکنا بھول جاتیں،ہاتھوں کا رخ زمین کی طرف ہوتا تو وہ انگریزی کا (V)بن جاتا، آسمان کی طرف جاتے اور آتے ہوئے وہ جھولا محسوس ہوتا، برسات کی رم جھم میں جسے جھلاتے ہوئے لڑکیاں بالیاں گاتی ہیں۔

باغوں میں پڑے جھولے

تم بھول گئے ہم کو ،ہم تم کو نہیں بھولے

اِس سے پہلے کہ اِن جھولا جھلاتی بانہوں کے جادو میں یہ مسافر آنکھ کی پتلی بن جاتا، اس کی نگاہ پاؤں کے آہنگ پر آگری۔ ان رقاصوں کے دائیں اور بائیںپاؤں بیضوی دائرہ بناتے ہوئے مخالف سمت میں جاکر زمین کو چھوتے پھر بدن کو لچکاتے ہوئے دوسری سمت میں یہی عمل دہراتے۔معلوم ہی نہ ہوتا کہ یہ عمل کب مکمل ہوا اور رقاص قدم زمین پر جمائے جمائے یوں آگے اور پیچھے حرکت میں آتے کہ مون واک کے شیدائی اپنا عقیدہ بدل لیں۔رقص جاری تھا، مرد خواتین، جوان اور بوڑھے آتے گئے اور اس میں شریک ہوتے گئے مگر بازوؤں کا جھولاہو، کمر کی لچک ہو یا پاؤں کی جادو گری، مجال ہے کسی آہنگ میں ذرا بھی فرق آجائے۔

’’یہ بورون ہے اور بحیرہ اسود والوں کی پہچان‘‘۔

ڈاکٹر خلیل طوقار  نے سرگوشی کی۔یہ اطلاع میںنے خاموشی سے سنی لیکن نگاہیں وہیں جمی رہیں، اس دوران میری آنکھوںنے اِس جادو بھرے رقص کی کلید بھی پکڑ لی۔ یہ دو بوڑھے تھے جونہایت مشاقی کے ساتھ گت بجاتے اور رقاص کسی معمول کی طرح اُن کے اشارے پر تڑپ اٹھتے، یہ بوڑھے بھی بڑے غضب کے تھے، ایسی ترنگ سے تال دیتے کہ خود بھی جھوم اٹھتے، یوں ان کے بینڈ یا دف اوپر نیچے یوں حرکت میں آتی گویا اِس بے جان پر بھی وجد طاری ہے۔

’’پھر چلیں؟‘‘ڈاکٹر صاحب نے پھر سرگوشی کی۔ ابھی کچھ دیر اور۔ میں نے اصرار کیا تو میزبان نے بھی مسکرا کامہمان کا ساتھ دیا۔’’یہ چارشی ہے اور بلیک سی والے یہاں بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ بڑے زندہ دل لوگ ہیں۔بہانے بہانے سے ہنسنے کھیلنے کے مواقعے تلاش کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے جارہے تھے اور میرے ذہن میں ایک فلم سی چلتی جارہی تھی۔بہت برس ہوتے ہیں، ایک کتاب شایع ہوئی تھی، کراچی کی کہانی۔اس کتاب کا ایک باب تھا، کراچی کے ساحل پر آباد افریقہ۔ یہ ان لوگوں کی کہانی ہے،جنھیں شیدی یا پھر مکرانی کہا جاتا ہے۔ ہمارے یہ مکرانی بھی اتنے ہی زندہ دل اور خوش مزاج ہوتے ہیں۔ ان کا رقص بھی اپنی ایک آن رکھتا ہے جس سے بالی وڈ بھی متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکا۔

خیال کی اڑان ابھی یہیں تک پہنچی تھی کہ ناچنے والی ٹولی نے ایک نعرہ بلند کیا ’’ہاہ‘‘۔ یہ نعرہ بلندتھا کہ عالم بے خودی میں بلند ہواتھا، منضبط تھا ، اس لیے اس بلندی  میں بھی اعتدال تھا لیکن اس اعتدال میں ایک قوت تھی جو انسان کو سیدھے سیدھے حاضر وموجود سے بے زار کر کے آمادہ بغاوت کردیتی ہے۔اقبال بانو مرحومہ ’’ہم دیکھیں گے‘‘ گاتے ہوئے جب اس مصرعے پر آتیں کہ ’’ اٹھے کا اناالحق کا نعرہ‘‘ تو نعرے کے لفظ پر ان کی ادائیگی میں جوش اور ضبط کی کچھ ایسی ہی کیفیت ہوتی۔

’’ہاہ‘‘ کے نعرے سے جہاں فیض اور اقبال بانو یاد آئے وہیں ضلع جھنگ کا روایتی رقص دھریس آنکھوں میں پھر گیا ۔ جسم و جان کو پھڑکنے پر مجبور کر دینے والی ڈھول کی دھمک پر ہمارے جھنگ واسی بھی عمر اور مرد و زن کی تمیز کے بغیراِن اسودی ترکوں کی طرح کھنچے چلے آتے ہیں اور ڈھول کی تال پر عالمِ بے خودی میں ناچتے ہوئے ’’ہاہ‘‘ کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں۔خیال کی رو نے چارشی سے سفر شروع کیا، لیاری میں تھوڑا پڑاؤ کیا اور اپنے پرکھوں کی سرزمین سے ہوتا ہوا واپس چارشی میں لینڈ کر گیا۔

دور جدید کی ایجادات بڑی ظالم ہیں، انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔اصل میں ،میں سوچ تو اپنے اے ٹی ایم کارڈ کے بارے میں رہا تھاکہ بیچ میں یہ رقص آگیا۔یہ کارڈ بھی ہمارے ہاں اے ٹی ایم کارڈ سیاسی استعارہ بن چکے ہیں ، اس لیے زبان پر ان کا ذکر لاناقریب قریب ناممکن ہے لیکن عام آدمی بھی کیا کرے، اس مشکل عہد میں یہ ایجاد نعمت سے کم نہیں۔ بینک جانا، چیک بھرنا، قطار میں کھڑے ہونا اورپیتل کا چمکتا ہوا ٹوکن لے کر گھنٹوں انتظار میں بیٹھنے کی جان لیوا زحمت سے اس نے نجات دلا دی ہے۔

گزشتہ شب خاتون خانہ کے حکم پر میں اے ٹی ایم کے قریبی بوتھ پر گیا، مشکلات کو آسان بنادینے والی یہ مشین جانے کیوں مجھ سے خفا ہو گئی اور اس نے کچھ بتائے بغیر میرا کارڈ ضبط کر لیا۔ہیلپ لائن پر مشینی زبان بولنے والی لڑکی نے بتایا کہ کارڈ لینے کے لیے آپ کو بینک آنا ہی پڑے گا۔بینک جانے کے لیے ماسک چاہیے، نیز دستانے، جیب میں اگر سینے ٹائزر ہو تو اور بھی اچھا ہے۔ ایپ نے بتایا کہ پچاس روپے میں ملنے والا سینے ٹائزر تقریباً چار سو روپے کا ہوچکاہے لیکن ماسک اور دستانے، انھیں فی الحال بھول جائیے۔گویا بینک جانا مؤخر۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ کارڈ نہ ملااور اے ٹی ایم سے پیسے نہ نکل پائے تو گھر کیسے چلے گا؟

اس مسئلے کا کوئی حل ابھی ذہن میں نہیں آیا تھا کہ فون کسمسایا اور ذرا سا منمنایا، معلوم ہوا کہ کوئی پیغام ہے،دل خوش ہوگیا، خلیل طوقار تھے۔ دنیا کے کسی گوشے سے کوئی آپ کا نام محبت سے لے اوراُس کی طرف سے جو خبر بھی آئے، خیر کی آئے تو دل کو اسی طرح خوش ہوجانا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب بورون ناچنے والوں کے میدان میں منہ پر ڈھاٹا(ماسک) چڑھائے اداس کھڑے تھے اوراِس میدان میں بوبون ناچنے اور خوشیاں بکھیرنے والے بحیرہ اسود کے زندہ دل جوان جانے کہاں گم تھے، توگویا ہمارے یار طرح دار کے دیس میں بھی ویسی ہی ویرانیاں بکھری ہیں جیسی ہمارے ہاں ہیں اور پوری دنیا میں ہیں، میں نے سوچا۔ فیض صاحب نے جانے ایسا شعر کیوں کہا ہوگاکہ گھر رہیے تو ویرانیِ دل کھانے کو آوے،رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے۔

اب تو ویرانیِ دل کے ڈیرے چہار سو ہیں اور کہیں پر جائے اماں نہیں۔ قبل اس کے ان سطور کا لکھنے والا مزید کچھ اداس ہوتا،خیال کا کوندا لپکا اور سوال پیدا ہوا کہ بھائی خلیل طوقار کو اتنے ماسک کہاں سے مل جاتے ہیں؟ پتہ چلا کہ اس میں بھی ایک راز ہے، ان لوگوں کو کچھ فارم میسر آگئے ہیںجنھیں بھر کر سرکار کو بھیج دیا جاتا ہے اور سرکارایک ہفتے کے لیے فی کس پانچ ماسک بلا کسی معاوضے کے گھر پہنچا دیتی ہے۔اللہ کی قسم زندگی میں یہ پہلی بار ہے کہ اپنے ترک بھائیوں کے لیے دل میںحسد کے جذبات پیدا ہوگئے، یہ کوروناہمارے ساتھ اور کتنا برا کرے گا؟

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments