تنہا ترین مشال خان


وہ کچھ دن سے اپنے خلاف ہونے والی سازشیں سن رہا تھا، دوستوں کے بدلتے رویے نوٹ کر رہا تھا اب پہلے جیسی بے تکلفی سے ساتھ کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ ایک دن شکوہ کرنے پہ دوست نے کہہ دیا یارا تم کلمہ سناؤ ہمیں تم مسلمان نہیں لگتے۔

بھرپور قہقہہ لگایا اور جواب دیا کس بات سے تمہیں یہ شک ہوا دوست بولا تمہاری باتیں مشکوک ہیں وہ بہت ہنسا کہ ہر وقت ساتھ رہنے والے دوستوں کو اچانک کیا ہو گیا۔

گھر فون کر کے بابا کو یہ لطیفہ سنا کے خوب ہنسا۔ بابا کا دل ایک لحظے کو سہم گیا اور کہا بیٹا محتاط رہو اور کسی سے کوئی منطقی بحث نہ کیا کرو زمانہ بہت خراب ہے۔

وہ یونیورسٹی میں طلبہ حقوق کے لئے آواز اٹھاتا تھا انتظامیہ کی بد امنی و بے ایمانی کے خلاف بولتا تھا تو انتظامیہ کو بہت کھٹکتا تھا۔ انتظامیہ کی جانب سے وارننگ تو ایسے متحرک طلبا کو ملتی ہی رہتی ہے لیکن اب وہ گاہے بگاہے ساتھی طلبا سے اپنے لئے نفرت آمیز کلمات سننے لگا، کہ وہ کافر ہے، توہین مذہب کرتا ہے اس سے میل جول ختم کر دینا چاہیے۔

بارہ اپریل کا دن تھا اسے ہوسٹل اور جامعہ کا ماحول عجیب پراسرار سا لگا پھر اپنا وہم سمجھ کے معمول کے کام کرنے لگ گیا کہ اچانک چند لڑکوں نے زور دار ٹھوکر سے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا اور کہا تمہارے سامان کی تلاشی لینی ہے وہ خاموشی سے پیچھے ہو گیا کہ اس اس متشدد گروہ کے منہ نہ لگے تو بہتر ہے وہ دھمکیاں دیتے ہوئے اس کے کتابیں الماری چھاننے لگے لیکن کچھ بھی ناقابل اعتراض نہ ملا وہ سب اسے دھمکاتے ہوئے چلے گئے۔

وہ انتہائی غم و غصہ میں یہ سوچتے ہوئے سب چیزیں ترتیب دینے لگا کہ کل ان کی شکایت کرے گا۔ مگراس نے سوچا نہ ہو تھا کہ صبح اپنی تمام تر وحشتوں کے ساتھ نمودار ہو گی۔

تیرہ اپریل کا دن تھا اور ایک باہر دل دہلا دینے والا شوروغل۔ کسی نے آواز لگائی مشال خان بھاگ جاؤ وہ سب تمہیں مارنے آ رہے ہیں اس نے یہ سوچتے ہوئے دروازہ کھولا ہو گا کہ اس نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔

مگر متشدد ہجوم نے کچھ بولنے کی مہلت نہ دی اسے گھیسٹتے ہوئے کمرے سے باہر لایا گیا۔ بے دردی سے سیڑھیوں سے نیچے پھینکا گیا سر سے بہتے لہو کو صاف کرتے ہوئے اس نے نگاہ اٹھا کے دیکھا کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا کسی کے ہاتھ میں پتھر تھے کوئی ٹوٹی ہوئی کرسی اٹھا لایا تھا تو باقی سب کے اس پہ لاتیں اور ٹھڈے برسا رہے تھے۔

وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے جسم درد سے بے حال تھا۔ تن تنہا مشال خان خون میں لت پت کراہتا رہا کہ صفائی کا موقع دیا جائے وہ اذیت کی انتہا پہ تھا کہ قدرت کو رحم آ گیا اور منظر بدل گیا اب اس کا جسم تھا اور بدتمیز متشدد ہجوم تھا وہ اپنے جسم کو ان کے ہاتھوں کچلتا دیکھتا رہا اور انتہائی افسردگی سے دوسری دنیا کی جانب پرواز کر گیا۔ بلندیوں کی جانب پرواز کرتے ہوئے اس اس سوال کا جواب بھی مل گیا ہو گا کہ یا رب کیسے مسلمان تھے جنہوں نے نواسہ رسول ص کے پاک خون سے ہاتھ رنگین کیے ؟ ہاں وہ ایسے ہی مسلمان تھے۔

اسلام کے ٹھیکیداروں نے توہین رسالت کے الزام میں بے دردری سے ایک جوان کو قدموں تلے کچل ڈالا۔ کیا یہ اسی دین کے پیروکار تھے جس میں کسی نہتے کافر پہ بھی تلوار اٹھانا ممنوع ہے؟ قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ قرآن کی تعلیمات کو قدموں تلے روندا گیا۔ انسان کی حرمت (جان) جو بیت اللہ سے افضل بتائی گئی ہے، پامال کر دی گئی۔

اور دنیا نے مشال کی والدہ کا درد ناک جملہ پڑھا اور سنا۔ ”میں نے جب مشال کے ہاتھ چومنے چاہے تو اس کی انگلیاں ٹوٹی تھیں“
ایک بدنصیب ماں کی 25 سال کی کمائی خاک ہوئی، راکھ ہوئی۔

آج سانحہ مشال خان کو تین سال گزر گئے مگر اس وطن عزیز کے حالات میں کسی قسم کی تبدیلی نہ آسکی، بلاسفیمی لا کتنوں کی گردنوں پہ تلوار بن کے لٹک رہا ہے، کتنا آسان حربہ ہے ذاتی دشمنی و عناد کو بلاسفیمی کا رنگ دے کر بدلہ لیا جائے۔

یہ قانون مجرم ذہنیت کی ڈھال بن چکا ہے، حیرت اس بات پہ ہے بلاسفیمی کرنے والے کی سزا تو متعین کی گئی مگر جھوٹا الزام لگانے والوں کی کوئی سزا نہیں۔
کیا یہ قانون ارباب اختیار کی بھی ڈھال ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments