مخدوش معیشت، وبائی حملہ اور ضروری منصوبہ بندی


گزشتہ حکومت دن رات کی انتھک محنت سے ملک کو لوڈشیڈنگ کے اندھیروں سے نکال کر روشنی سے منور اور معیشت کو ہر زاویئے سے درست سمت میں گامزن کر چکی تھی جس کا اندازہ ذیل میں دیے گئے چند سرکاری اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے :

1۔ بیروزگاری کا اوسط 2016 میں 3.17 فیصد کی سطح پر تھی۔
2۔ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی یعنی جی ڈی پی تقریباً 5.6 فیصد اور عالمی مالیاتی اداروں کے سال 2017 سے 2018 تک کے تخمینے مطابق یہ شرح 7 فیصد تک پہنچ جانے کے اندازے لگائے جا چکے تھے۔

3۔ سال 2013 میں فی کس آمدنی 1386 امریکی ڈالرز سے بڑھ کر سال 2017 میں 1629 امریکی ڈالرز تک پہنچ چکی تھی جبکہ اس مد میں مسلسل اضافہ متوقع تھا۔

4۔ ملک میں افراط زر 4 سے 5 فیصد کے درمیان تھا۔
5۔ مالیاتی خسارہ سال 2017 میں 4.2 فیصد رہا۔

سابق حکومت میں اقتصادی اعداد و شمار کے برعکس موجودہ دور حکومت میں ان اعداد و شمار کا مختصر جائزہ یوں ہے :

1۔ بیروزگاری کی موجودہ شرح دوگنی ہوکر 6.1 فیصد ہے۔
2۔ جی ڈی پی گھٹ کر 2 فیصد کی خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے۔
3۔ فی کس آمدنی 1629 ڈالر سے گھٹ کر 1230 ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
4۔ افراط زر 5 فیصد سے بڑھ کر 13 فیصد کی سطح کو چھو رہی ہے۔
5۔ مالیاتی خسارہ 4.2 سے اس سال بڑھ کر 7 فیصد سے زائد ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔

سابق دور حکومت میں بڑے منصوبوں پر زور شور سے کام ہو رہا تھا، سی پیک روشن مستقبل کی نوید سنا رہا تھا، صرف یہی نہیں، لوڈ شیڈنگ سے بجلی کی قلت ختم کر کے ملکی صنعت کو وافر توانائی مہیا کی جا چکی تھی جس سے صنعتی میدان میں ترقی کی رفتار تیز ہو چکی تھی، آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضے مکمل طور پر ادا کیے جا چکے تھے، ان کامیابیوں کے نتیجے میں عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو مستقبل کا ایشین ٹائیگر قرار دے رہے تھے، لیکن، افسوس سول حکومتوں کی مقبولیت سے خوفزدہ فیصلہ ساز ان کامیابیوں کو دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے ایک انجانے خوف اور پریشانی میں مبتلا تھے۔

ممکنہ طور پر فیصلہ سازوں کو اندیشہ لاحق تھا کہ مضبوط سیاسی نظام اور مقبول سول حکومت ملکی معاملات پر ان کی گرفت کو ڈھیلا کردینے کا موجب ہو گی۔

فیصلہ سازوں کے لئے سیاسی نظام کے جڑ پکڑنے سے پیدا ہونے والے اندیشے جس طرح ماضی میں کھل کر اپنا اثر دکھاتے رہے اور سیاسی راہنماؤں کے لئے سزائے موت سے لے کر ملک بدری تک کے انتظامات کرتے رہے ویسے ہی بے بنیاد اندیشوں نن 2014۔ 2013 میں قائم ہونے والی سابق حکومت کو اپنا حدف بنا کر فارغ کردینے کی منصوبہ بندی شروع کردی جو پنامہ سے اقامہ تک پہنچ کر بالآخر ملکی معیشت کو کامیابی اور ترقی کے راستے سے ہٹا کر بیمار اور لاغر معیشت میں تبدیل کردینے کا باعث بنی۔

یہ تمام کارروائی ایک ایسے وقت عمل میں لائی گئی جبکہ امریکی ضروریات کے پیش نظر امداد میں ملنے والی ڈالرز کی برسات امریکی ترجیحات کے بدل جانے کے باعث بند ہو چکی تھی، نتیجتاً، ڈالر کی قلت ہو جانے سے مفت میں لگے مزے بھی آخری اسٹیج کو پہنچ گئے اور ڈالر کے حصول کا ذریعہ ایک کمزور معیشت میں عوام پر ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار کے ذریعے کیا گیا۔

معیشت کو انتقام اور مخصوص مفادات نے شدید مشکلات سے دوچار تو کر ہی رکھا تھا کہ اس ناگفتہ بہ حالات میں معیشت پر کورونا وائرس کی وبا مزید ٹوٹ پڑی، ستم ظریفی یہ کہ مقتدرہ نے حکومت اہلیت سے مبرا افراد کے ہاتھوں میں دے دی جب کہ خود بھی اقتصادیات کی ابجد سے واقف نہیں، لہذا، مستقبل قریب میں اوپر دیے گئے موجودہ اعداد و شمار میں مزید تنزلی اور معیشت کے مزید بھیانک صورتحال سے دو چار ہونے کے امکانات بیحد واضع ہیں۔

ملک کے ان لاغر اقتصادی حالات پر کورونا جیسی وبا کا ٹوٹ پڑنا، وفاقی حکومت کے کم و بیش تمام اقتصادی و غیراقتصادی اقدامات کا خراب منصوبہ بندی کے باعث ناکامی کا شکار ہونا، تمام بڑے منصوبوں پر کام بند ہوجانا، وزیراعظم کا وعدوں کی بھرمار اور نتائج کا صفر ہونا خراب معاشی حالات میں کوئی بہتری تو کیا لاتا کورونا وائرس کی وجہ سے حالات کو مزید کشیدہ کرنے کا باعث بن رہا ہے، ماہر معاشیات کے مطابق آنے والے دنوں میں حکومتی وعدوں کے برعکس پہلے سے بڑھتی بیروزگاری میں تقریباً ایک کروڑ لوگ مزید بیروزگار ہوں گے۔

وبا پھوٹ پڑنے کے بعد بگڑتے ہوئے حالات حب الوطنی کا تقاضا کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے پالیسی ساز طاقتورحلیفوں کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسی کو اپنے آہنی شکنجے کی گرفت سے فوری طور پر آزاد کرکے اقتدار عوام میں مضبوط جڑیں رکھنے والی مقبول سول قیادت کے سپرد کرنے کے انتظامات کو حتمی شکل دے کر پیچھے ہٹ جائیں اور توجہ صرف اپنے محکماتی فرائض پر مرکوز کریں کیونکہ مزید دیر لگانے سے ملک اس مہلک صورت سے دوچار ہوسکتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوسکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments