میانوال رانجھا کی فضاؤں میں فطرت سے مکالمہ



گزشتہ طویل عرصے سے زندگی اس قدر مصروف رہی کہ اتوار کا دن بھی کسی نہ کسی تقریب یا شاعرے کی نذر ہو جاتا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو نیند پوری کرنے میں گزر جاتا۔ بڑے شہر میں رہتے ہوئی مادیت پرستی کی دوڑ نے مجھے فطرت سے کس قدر دور کر دیا اس کا اندازہ اس ایک ماہ گاؤں کے قیام کے دوران ہوا۔ لاہور کی مصروف ترین زندگی جہاں کھانے پینے سے لے کر ہوا تک مصنوعی ہے وہاں کبھی کبھاربارش کے بعد آسمان دیکھتا تو اندازہ ہوتا کہ فطرت کتنی حسین ہے۔

نوکری سے فراغت کے بعد اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج یا پھر پریس کلب کا کیفے ٹیریا اور دوستوں کی بزم، شام کی چائے کسی ٹیویشن سنٹر یا پھر کسی تقریب میں اور اگر ایسا نہ ہو تو پاک ٹی ہاؤس یا فوڈ اسٹریٹ میں دوستوں کے ہمراہ گپ شب کی محفل اور یوں ڈنر کرتے کرتے رات کے گیارہ بج جاتے اور تھکا ہارا گھر پہنچتا تو کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مگن ہو جاتا اور یوں رات کے ایک بجے، دن بھر کا تھکاہارا بستر پر جا گرتا۔

اکثر اوقات تو اس مصروفیت میں کتاب پکڑے بھی کئی دن گزر جاتے اور کالم لکھنے کا وقت بھی بہت مشکل سے نکال پاتا۔ یہ وہ روٹین ہے جو تقریبا گزشتہ پانچ سال سے ہے، اس سے قبل بھی جن دنوں اخبار کی نوکری کر رہا تھا تو دن چار بجے سے رات دو بجے تک کی ڈیوٹی کے بعد واپس گھر آتے اور بستر پہ جاتے صبح کے چار بج جاتے اور یوں سمجھیں کہ رات جاگتے اور دن سوتے گزر جاتا۔ شروع کے دن لاہور شہر میں ایسے ہی کٹے کہ یا نوکری اور یا پھر نیند۔

صحافت کی نوکری کتنی مشکل ہے ’اس کا اندازہ میرے صحافی دوست بآسانی لگا سکتے ہیں، مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ صحافت کو دور سے دیکھنا اور پھر عملی صحافت کرنا، دونوں میں بہت فرق ہے۔ خیر پچھلے پندرہ سال اور بالخصوص آخری پانچ سال سے زندگی واقعی ریل گاڑی کی مانند تیز چل رہی ہے جس پہ کسی اسٹیشن پر محض چند منٹ کا وقفہ لیا اور پھر چل پڑا۔ کبھی ڈیڑھ یا دو ماہ بعد گاؤں کا رخ کرتا بھی تو ایسے ہی جیسے ہاتھ لگانے آیا اور واپس نکل گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ بہت سے پرانے دوستوں اور خاص کر کے عزیزواقارب سے ناتا فرضی سا رہ گیا تھا جس کا شکوہ اکثر اوقات سننے کو ملتا اور میں محض مسکرا کا ٹال دیتا کہ ”تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے“۔

کرونا کی وبا آئی اور پورے ملک کو جام کر دیا گیا۔ زندگی جس تیزی سے چل رہی تھی، وہ ایک دم ایسی رک گئی جیسے زندگی کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا ہو اور ہم ہر اس چیز سے کٹ آف ہو گئے جس کی وجہ سے ہم اپنوں سے کٹ آف ہوئے تھے۔ اب میں گزشتہ ایک ماہ سے لاک ڈان کی وجہ سے اپنے آبائی گاؤں میں ہوں اوریہاں کی زندگی اتنی حسین و جمیل ہے، مجھے واقعی اندازہ نہیں تھا۔ صبح کی سیراور طلوع ہوتے سورج سے مکالمہ، بچوں اور بڑوں کے ساتھ مل کر چاٹی کی لسی، مکھن کا پراٹھا اور خالص دودھ کی چائے سے ناشتہ۔

دن بھر کتابوں میں موجود ایک عالم کی سیر یا پھر دوستوں سے ملاقاتوں کا تانتا جن میں لکھاری بھی ہیں اور کرکٹر بھی، وکیل بھی ہیں اور سیاسی ورکرز بھی، بزنس مین بھی ہیں اور نوجوان طالب علم بھی۔ ہر طرح کے دوستوں سے گپ شپ، دنیا جہان کے موضوعات پر سیر حاصل مکالمہ اور یوں دن حسین و جمیل اور اندر اور باہر سے شفاف لوگوں میں گزر جاتا ہے۔ عصر کی نماز کے بعد کھیتوں کی جانب نکل جاتا ہوں اور دوبارہ سے اس غروب ہوتے ہوئے سورج کو دیکھتا ہوں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کا ایک اور خوبصورت دن اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

کیا عجیب بات ہے کہ ہم اس دنیا کی رنگینیوں میں زندگی کی ان رعنائیوں سے کنارہ کش ہو گئے جو قدر ت نے ہمارے لیے بنائی تھیں۔ مجھے گاؤں میں رہتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوا کہ زندگی کو اس کی جمالیات کے ساتھ جینا ہی اصل زندگی ہے، روزی روٹی کی دوڑ اور ماڈرن بننے کی خواہش نے ہمیں اس فطرت اور اس عہد سے دور کر دیا جس میں رہتے ہوئے ہم زندگی کا حقیقی چہرہ دیکھ سکتے تھے اور اسے محسوس کر سکتے تھے۔ گھر میں آئسولیشن کے دوران مسلسل نظمیں لکھ رہا ہوں، کئی افسانے بھی لکھ ڈالے، روٹین کے ساتھ کالم بھی بھیج رہا ہوں، دوستوں کو فون کر کے شاعری بھی سن رہا ہوں اور کئی دوستوں کو ویڈیو کالز پر شاعری سنا بھی رہا ہوں اور ساتھ میں اپنی ماں کا دیدار کر کے اپنے دل کو ٹھنڈک بھی فراہم کر رہا ہوں۔

مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دن کلاس پڑھاتے ہوئے میں نے اپنے طالب علموں سے پوچھا تھا کہ گاؤں کی زندگی کس کس کو پسند ہے تو ستر بچوں کی کلاس میں سے صرف چار بچوں نے ہاتھ بلند کیے تھے۔ بلکہ کئی بچوں نے تو گاؤں کا نام سنتے ہی انتہائی مضحکہ خیز جملے بھی کسے اور طنزیہ ہنسی بھی چھوڑی تھی۔ مجھے اس بات پر حیرانی نہیں ہوئی تھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ کارپوریٹ دنیا نے ہمیں فطرت سے دور کرنے کے لیے بہت محنت کی ہے اور ہمارے بچے جو کھانے سے لے کر سادہ پانی تو دونمبر استعمال کرتے ہیں، انہیں گاؤں کی رنگینیوں کا احساس کیسے ہو سکتا ہے۔

قصور تو ان والدین کا ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو یہ بتایا ہی نہیں کہ گاؤں میں رہنے والے لوگ، شہری زندگی کی نسبت زیادہ مطمئن، صاف شفاف اور مخلص ہوتے ہیں۔ گاؤں کے لوگ ملمع سازی نہیں کرتے بلکہ ان کی زندگی مصنوعی دنیا سے بالکل مختلف ہوتی ہے، گاؤں کے لوگ زندگی جینا جانتے ہیں، وہ خدا اور خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ وہ خدا سے اور فطرت سے مکالمہ کرنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ میں جب کھیتوں میں بیاہی کرتے ہوئے بزرگ کی آنکھوں میں اطمینان اور اوپلے بناتی عورتوں کے چہروں پہ سکون دیکھتا ہوں تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ یہ اطمینان شہر کے اس آدمی کی زندگی میں کیوں نہیں جو ایک دن کالاکھوں کماتا ہے اوراس کے باوجود اس کی زندگی میں عجیب طرح کا خوف اور ڈر ہے جس کے بارے وہ خود بھی نہیں جانتا۔

میں نے اتنے سالوں بعد یہ ایک ماہ منڈی بہاؤالدین کے اس نواحی قصبے (میانوال رانجھا) میں گزارا جہاں آج سے ستائیس سال قبل میں نے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا تھا اور میٹرک کے بعد لکھاری بننے کا خواب لے کرلاہور پہنچا اور پھر لہوریا ہو کر رہ گیا۔ اب لاہور کی زندگی ایسے راس آ چکی ہے کہ گاؤں کی فضا سے دوری محسوس ہی نہیں ہوتی تھی مگر یقین جانیں اس کرونا وائرس (جو اگرچہ ایک وبا ہے ) کی وجہ سے یہ ممکن ہو پایا اور میں گاؤں کی اس زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہوں جو میں پندرہ سال پہلے چھوڑ کر مادی ترقی کی طرف چل پڑا تھا، مجھے آج اندازہ ہو رہا ہے کہ مادی زندگی، گاؤں کی زندگی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments