جب سانتا ہار (بوگرا) میں شفق ڈھلی



نہیں میری زندگی میں تم کسی بنگالی سے شادی نہیں کروگی۔ انتہائی غصے اور سختی کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی سے کہا تھا ایسی بیٹی کو جو مجھے جان سے زیادہ پیاری تھی جس پر آج تک میں نے غصہ نہیں کیا تھا۔ کیسے کرسکتا تھا غصہ اس پر۔ اس کے علاوہ میرا کچھ تھا بھی تو نہیں وہی تو تھی سب کچھ میرے لیے!

اس کا فون نہیں تھا دھماکہ تھا وہ طفیل سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ میرا سر گھوم گیا۔ میرے سامنے سانتاھار کا شہر اور ریلوے جنکشن آگیا جس کے پلیٹ فارم پر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سڑک کے دونوں طرف بہاریوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ زخمی چہرے کٹا ہوا جسم، جھلسے ہوئے بدن۔ لٹی ہوئی لڑکیوں کا سڑتا ہوا بدن مرے ہوئے بچے سانتا ہار کا ہمارا بڑا سا گھر، گھرکے آنگن میں کھیلتے ہوئے بچے، بچوں میں میری باجی، گھیرے کے اندر

ہرا سمندر
گوپھی چندر
بول میری مچھلی
کتنا پانی
اتنا پانی
پھر اچانک ایک اور دائرہ، پھر وہی سوال اور گردن پر ہاتھ، کھنکتی ہوئی آواز
اتنا پانی
اتنا پانی
وہ شہر وہ گھر وہ، وہ گلیاں، وہ مکان، وہ محلے کیا ہوا تھا یکایک، دیکھتے دیکھتے اتنی نفرت، اتنی نفرت!
میں نے کپکپاتے جسم کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔ کیسے کرسکتی ہے وہ ایک بنگالی سے شادی شدید غصے کے ساتھ ساتھ میری آنکھوں میں آنسو ابلنے لگے تھے، میں نے آنکھیں بندکرلی تھیں۔ گولیوں کی آوازوں کے ساتھ چاروں طرف سے، چیخیں آنا شروع ہوگئی تھیں۔ اماں ابو، پھوپھی، باجی سب کچھ ذہن کے پردے پر ایک کے بعد ایک دوڑتے چلے جارہے تھے۔ سہمے ہوئے، ڈرے ہوئے کبھی اوپر کبھی نیچے کبھی اِدھر کبھی اُدھر دروازہ بندکرکے اس کے سامنے بھاری میز لگادی تھی مگر ہراساں چہرے اتنے ہراساں۔

۔۔ ۔ ۔ اماں نے مجھے باورچی خانے میں چھوٹی کھڑکی کے ساتھ، چاول کے کنستر کے پیچھے چھپادیا تھا جہا سے میں صحن میں ہوتا ہوا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ بنگالیوں کا مجمع، مکتی باہنی کے اسلحہ برداروں کے ساتھ دروازہ توڑ کر سب کچھ روند کر اندر داخل ہوا تھا، چار پانچ گولیاں چلی تھیں، اور میری آنکھوں کے سامنے اماں ابو پھوپھی وہیں پر ڈھیر ہوگئے تھے۔ باجی چیخ رہی تھیں چلارہی تھیں، خوف سے پھیلی ہوئی آنکھوں کے ساتھ۔ تین لڑکوں نے انہیں پکڑ کر اٹھایا تھا اور تیزی سے گھر سے نکل گئے تھے۔ مکتی باہنی والوں کے ساتھ آنے والوں نے دیکھتے دیکھتے گھر لوٹ لیا تھا اور منٹوں میں گھر سے نکل گئے تھے، دور سے باجی کی چیخوں کی آواز آرہی تھی، میں کنستر کے پیچھے تھرتھر کانپ رہا تھا۔ کانپ تو میں ابھی بھی رہا تھا۔

ان بنگالیوں میں وہ شادی کرنا چارہی تھی میرا سر پھر چکرا گیا، میرا دل کررہا تھا کہ میں اتنا چیخوں اور چیخوں کے میرا دم نکل جائے۔

ساری دوپہر میں تھر تھر ان کنستروں کے پیچھے کانپتا رہا، صحن میں پڑے ہوئے اماں ابو اور پھوپھی کی لاشوں کو تکتا رہا تھا، خوف کے مارے نہ ہل سکتا تھا اور نہ ہی اتنی ہمت تھی کہ چیخوں، پھر معیظ چچا چند لوگوں کے ساتھ مغرب سے ذرا پہلے ٹوٹے ہوئے دروازے سے داخل ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر میں دوڑتا ہوا باہر نکلا تھا اور اماں کی لاش پرگرگیا تھا۔ سرد لاش میں کچھ بھی نہیں تھا۔ معیظ چچا نے مجھے اٹھایا، گلے سے لگایا تھا، دوسرے لوگوں نے چادروں سے لاشیں ڈھانپ دی تھیں۔

گھر کا ہر فرد قتل ہوچکا تھا اور باجی کو مکتی باہنی والے اٹھا کر لے گئے تھے۔ نہ جانے ان کے ساتھ کیا ہوا ہوگا، انہیں مارا گیا ہوگا، وہ چیخی ہوں گی، انہیں ا یک ایک کرکے کئی بنگالیوں نے پامال کیا ہوگا۔ وہ بھاگی ہوں گی انہیں پکڑلیا ہوگا اور شاید قتل کر کے کسی ندی نالے دریا میں پھینک دیا ہوگا۔ ان کا کچھ پتہ نہیں چلا تھا، خدا کرے مرگئی ہوں، کئی بہاری لڑکیاں بنگالیوں کے گھر میں رکھ لی گئی تھیں، انہیں مستقل پامال کیا جاتا رہا تھا۔ میں نے پھرآنکھیں بند کرلی تھیں۔ انسان کیسے درندہ بن جاتا ہے، انسان کا تو دماغ ہوتا ہے وہ سوچتا ہے سمجھتا ہے، اس کے رشتے ہوتے ہیں۔ وہ کیسے ان رشتوں ناطوں اصولوں کے بندھن توڑدیتا ہے۔

کیسے وہ کیسے کسی بنگالی سے شادی کرسکتی ہے، ان لوگوں سے جنہوں نے میرے ابو، میری اماں کو، پھوپھی کو بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ میری باجی کو اٹھا کرلے گئے تھے، پہلی دفعہ زندگی میں پہلی دفعہ مجھے اپنی اکلوتی بیٹی سے گھن آئی، شدید نفرت کا ایک ریلا سا میرے پورے جسم میں ٹھاٹھیں مارنے لگا تھا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میری بیٹی میری اپنی اتنی بے حِس ہوگی۔

لندن میں ساجدہ کے مرنے کے بعد میں نے شادی نہیں کی تھی، مجھے کوئی اچھا ہی نہیں لگتا تھا، کوشش کے باوجود ساجدہ کی جگہ کسی کوبھی نہیں دے سکا۔ میں اس کے بغیر اس کی یادوں کے ساتھ زندہ رہنا چاہتاتھا، کسی اور کی کوئی جگہ نہیں تھی، میرے دل و دماغ میں۔ گاڑی کے حادثے کے بعد وہ گیارہ دن تک زندگی وموت کی کشمکش کے بعد مرگئی تھی۔ میری زندگی میں جیسے اندھیرا ہوگیا، ایسا لگا جیسے سارے چراغ گل ہوگئے ہیں، تمام راستے بند ہوگئے ہیں، روشنی کی کوئی کرن کہیں بھی نہیں ہے، میں اسما میری نوسالہ بیٹی، ساجدہ کی آخری نشانی کسی ٹمٹاتے ہوئے چراغ کی طرح میری رہنما بن گئی تھی، زندگی اسی کے سہارے گزاردی تھی میں نے، کچھ اس طرح سے اپنے آپ کومنظم کیا تھا۔

صبح اٹھنا، اسے تیار کرنا، اسکول چھوڑنا، پھر اپنی سرجری میں سہ پہر تک بیٹھنا، اسے گھر واپس لانا، ہوم ورک کرانا، باہر جانا، پارک میں گھومنا، کبھی گھرپر کبھی گھر کے باہر کھانا کھانا، اس کے ساتھ کھیلنا، اسے سلانا، ان ساری سرگرمیوں میں مجھے مزا آنے لگا تھا۔ وہ میری بیٹی تھی، میرا کھلونا، میرا دل جگر، میری جان، میری دوست، اسی ایک سہارے کے ساتھ زندگی گزر ہی گئی تھی، گزر ہی جاتی ہے۔

سانتاھار کے ریلوے اسٹیشن سے کراچی تک بھی گزری تھی۔ روتے ہوئے، موت کے خوف سے چھپ چھپ کر بھاگتے ہوئے، معیظ چاچا نے اپنے جوان بیٹے کوآنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا تھا، ان کے سالے کی لاش سڑک کے کنارے ملی تھی، وہ نا جانے کیسے بچتے بچاتے مجھے اورچچا امی کو بچاتے ہوئے ہندوستان کے راستے کراچی پہنچے تھے۔ اورنگی کی کچی اور گندی بستی میں زندگی گزارنی شروع کی تھی، سبزی منڈی میں کام کرکرکے مجھے پڑھایا، اپنے بیٹے سے زیادہ مجھے پیاردیا، اسکول، کالج، ٹیوشن کی فیسیں دی تھیں اورمجھے ڈاکٹر بنادیا تھا۔

جب میں کسی قابل ہوا کہ انہیں کچھ آرام پہنچاؤں تو انہوں نے میرے لیے خوبصورت سی ساجدہ تلاش کرکے میری شادی کردی تھی۔ کیا نہیں کیا تھا ان دونوں نے۔ اپنے دوست کے یتیم بیٹے کو ماں باپ کا پیار دیا تھا، ہر ضرورت پوری کی تھی میری۔ ساجدہ میری زندگی میں ایسی ہی تھی جیسے تپتے ہوئے صحرا کی ٹھنڈی شام۔

معیز چاچا نے ہیمجھے قائل کیا تھا کہ میں انگلستان چلا جاؤں۔ پہلے میں اوراس کے پیچھے پیچھے ساجدہ انگلستان آگئی تھیں، اچھا زمانہ تھا، امتحان پاس ہونے کے فوراً بعد ہی مجھے تربیتی پروگرام میں لے لیا گیا تھا کتنے خوش ہوئے تھے معیظ چاچا اورچچی جب میں نے ان دونوں کو اسما کی پیدائش پر لندن بلا کر چھ مہینے اپنے پاس رکھا تھا۔ وہی تو میرے سب کچھ تھے۔ سوبار پیدا ہوکر بھی میں ان کا احسان نہیں اتارسکتا تھا۔ ہم سب ایک ہی کشتی کے مسافر تھے، دکھ کی کشتی کے جس نے غموں کے دریا اورآگ کے سمندر کو اکٹھے پار کیا تھا۔

میں نے معیز چاچا سے بہت کہا تھا کہ وہ لندن میں ہی رک جائیں لیکن چاچا اورچچا امی دونوں ہی کو کراچی پسند تھا۔ اورنگی کی گلیاں، ساتھ کے لوگ، چھوٹا سا گھر، میں سال میں دو دفعہ کراچی آتا تھا۔ چھوٹے سے گھر میں آسائش کی ہر ممکن چیز کا میں نے انتظام کردیا تھا۔ انہوں نے کام نہیں چھوڑا تھا، کم ہی وقت کے لئے مگر جاتے ضرور تھے منڈی میں۔ میری طرف سے ہر ماہ پاکستان کے لحاظ سے بڑی رقم خودبخود ان کے اکاؤنٹ میں چلی جاتی تھی۔ میں چاہتا تھا وہ خوش رہیں، زندگی گزاریں کسی کمی کے بغیر۔

اسما تین سال کی تھی جب مجھے معیظ چاچا کا فون آیا کہ چچی امی کو دل کا دورہ پڑا اورہسپتال پہنچنے سے قبل ہی وہ انتقال کرگئی تھیں۔ میں اورساجدہ اسما کے ساتھ بھاگم بھاگ کراچی پہنچے تھے، تدفین میں شرکت کی تھی۔ اٹھارہ دن، اور رات معیظ چاچا کے ساتھ رہے تھے۔ میں نے انہیں بہت کہا تھا کہ وہ لندن چلیں ہمارے ساتھ رہیں۔ کراچی میں اکیلے رہنا کچھ آسان نہیں تھا۔ کون پکائے گا، کھلائے گا، میں نے انہیں بہت سمجھایا مگر وہ نہیں مانے تھے۔ اورنگی چھوڑنا آسان نہیں ہے۔ جیسا بھی ہے۔ غربت کے باوجود دریا دل ہیں لوگ۔ وہاں کی بیٹھکیں وہاں کا مزاج سب کچھ اپنا ہے، اپنے کو کون چھوڑتا ہے۔ لندن اچھا ہوگا مگر اورنگی تو نہیں ہوسکتا۔

ارے اورنگی میں کیا خطرہ ہے، یہاں سب اپنے ہیں، دوست، پڑوسی محبت کرنے والے، محلہ دار، یہاں زیادہ خوش رہوں گا، لندن کی سردی مجھ سے برداشت نہیں ہوگی یہی ان کاآخری فیصلہ تھا۔

میں نے ان کے کھانے پینے کے سارے انتظامات کردیئے تھے۔ ایک پڑوسی گھر کو ہر مہینہ پیسے بھیجتا تھا جو ان کے گھرکے سارے انتظامات کرتے تھے۔ ناشتہ کھانا گھر میں پانی، بجلی، پنکھا، میٹر سب کی دیکھ بھال ان کی ذمہ داری تھی۔ ڈیڑھ سال میں ہرچھ ماہ پر میں آتا تھا اور ہفتہ ہفتہ رہتاتھا، کاش وہ میرے ساتھ چلے چلتے لیکن انہیں تو اورنگی پسند تھا۔ اورنگی کے لوگ، گلیاں، گلیوں کے چائے خانے، چھوٹی سی دنیا کی بڑی بڑی سیاستیں، مگر اسی اورنگی میں ہی ہمارے چھوٹے سے گھر پر ڈاکہ ڈالا گیا، وہ سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔ گھرکی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے لے کر پنکھے تک اورکسی کوپتہ بھی نہیں چلا۔ انہی کرسی سے باندھ کر انہیں مارا پیٹا گیا، صبح جب ان کے لئے ناشتہ لایا گیا تو وہ مکمل طورپر بے ہوش تھے۔

مجھے جیسے ہی خبر ملی تھی میں پہلی پرواز سے کراچی پہنچ گیا تھا۔ وہ سول ہسپتال میں بڑے خستہ حال میں تھے، نیم بے ہوش، نہ کوئی دیکھنے والا، نہ پوچھنے والا، نہ ڈاکٹر کو پتہ تھا کہ انہیں کیاہوا ہے، نا نرسوں کو اندازہ تھا کہ انہیں کون سی دوا ملنی ہے۔ میں نے جلدسے جلد انہیں پرائیویٹ ہسپتال میں منتقل کرنا چاہا تھا مگراس سے پہلے کہ میں انہیں لے جاتا وہ سرجیکل وارڈ میں بے کسی کی موت مرگئے تھے انہیں اپنے شہر میں اپنے ہی لوگوں نے ماردیا تھا۔

میں زندگی میں اتنا کبھی نہیں رویا، زندگی اتنے دھوکے دے گی میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان کے بعد کراچی میں ایسا ہوگا اورنگی کی اس بستی میں جہاں سب بہاری رہتے ہیں، کیا ہوگیا تھا اس شہرکو۔ شہر کو شہر والوں نے ہی لوٹ لیا تھا، زبان کے نام پر، نسل کے نام پر، نفرت کے نام پر، حق کے نام پر، سارے زخم میرے تھے، تمام دکھ میرے لیے۔

ساجدہ نہیں ہوتی تو شاید میں مرجاتا، بڑا برا وقت تھا میرے لئے۔ یاسیت، اُداسی، محرومی اور ناخوشی نے جیسے میرے جسم کے ایک ایک خلیے پر قبضہ کرلیا تھا۔ ماں باپ پھوپھی کا قتل، لاپتہ ہونے والی بڑی بہن نہ جانے جس پر پر کیا گزری ہوگی۔ بہت دنوں کے بعد وہ خواب میں آنا شروع ہوگئی تھی، وہی کپڑے جو سانتاھار میں پہنی ہوئی تھی، وہی گھر کا آنگن، وہی اس کی سہلیلیاں، حسینہ، ثمینہ، جمیلہ، شہلا، نجمہ۔ وہی کھلتے ہوئے چہرے، وہی کھیل

گوپی چندر
ہرا سمندر
بول میری مچھلی
کتنا پانی۔ کتنا پانی۔ کتنا پانی۔ کتنا پانی
پھر وہ اپنے سر پر ہاتھ رکھ کے کہتی تھی اتنا پانی۔ اتنا پانی۔ اور میں خوف سے بے دار ہوجاتا، باجی ڈوب گئیں۔ ڈوب گئیں۔

پسینے میں شرابور، تیز دل کی دھڑکنوں کے ساتھ میری آنکھیں کھل جاتی تھیں۔
آہستہ آہستہ میں صحیح ہوگیا تھا، ساجدہ کے لئے اوراسما کے لئے۔ اب یہی دونوں تو میری دنیا تھے، ان کے لئے تو مجھے زندہ رہنا تھا۔ ایک دن خواب میں باجی نے بھی یہی کہا تھا۔ مسکراتے ہوئے، میں ٹھیک ہوں، یہاں پے۔ خوش رہو تم خیال رکھو اپنا اورمیری اسماکا، وہ مسکرادی تھیں، میری آنکھیں کھل گئی تھیں، خوشی کے ساتھ ان کا مسکراتا ہوا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا، کیسی تھی میری بہن، مر کے بھی میرے ساتھ تھی، میری فکر میں۔ اس رات بڑی گہری نیند سویا تھا۔

سب کچھ صحیح ہوگیا تھا، زندگی اپنی ڈگر پر چل نکلی تھی، دوستوں کا ایک چھوٹا سا خاندان تھا، کم خرچہ اورزیادہ آمدنی تھی، اچھی سی بیوی تھی اورہنستی مسکراتی کھیلتی کودتی اسما تھی، اتنی زیادہ خوشیاں تو میں نے مانگی بھی نہیں تھیں۔ شاید اوپر والے کو یہی برا لگ گیا تھا۔

زندگی نے پھر دھوکہ دیا، ساجدہ لندن جیسے شہر میں سڑک پار کرتے ہوئے ایک بے قابو کار سے ٹکرا گئی، شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچائی گئی، میں پہنچا تو وہ جاچکی تھی۔ آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ سانتاھار میں جو کچھ ہوچکا تھا اس کے بعد تواوپر والے کو قرارآجانا چاہیے تھا۔ کیوں بار بار میرا ہ امتحان ہورہا تھا۔ ایسا کیا گناہ کیا تھا میں نے اورمیرے پُرکھوں نے جس کی سزا مجھے ہی بار بار دی جارہی تھی۔ میری دنیا ایک بار پھر ویران ہوگئی، مگرمیں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا اس نوسال کی گڑیا کے لئے جسے ابھی توزندہ رہنا تھا، اگرمجھے کچھ ہوجاتا تو اس کا کیا ہوتا، یہ سوچ کر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، اسے کھلاتے پڑھاتے سلاتے اور خود آہستہ آہستہ اندر اندر روتے میں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا۔

بڑا مضبوط رشتہ تھا ہم دونوں باپ بیٹی کا، آنسوؤں سے ترایا ہوا، بہت قریب تھے ہم دونوں۔ ساجدہ کے بعدایک دن ایسا نہیں گزرا تھا جب ہم دونوں نے ایک دوسرے سے بات نہیں کی ہو۔ اسکول، کالج، تعلیمی کیمپ، کالج کی پکنک اوراب کیمبرج یونیورسٹی کے سال، ہر روز بات کرتے تھے، ہنستے تھے، خوش ہوتے تھے، وہ ہر بات مجھ سے کرتی تھی اور ایک دم سے ہمارے درمیان یہ بنگالی لڑکا آگیا تھا جس سے اسما شادی کرنا چاہتی تھی، اس قوم میں جس کے لئے میرے دل میں نفرت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں۔

سات مہینے تک ہم نے ضرورت کے سوا کوئی بات نہیں کی۔ میں دل ہی دل میں دعا کرتا تھا کہ میں ہی مرجاؤں تو وہ سکون سے اس بنگلہ دیشی سے شادی کرلے۔ اپنے ہوتے ہوئے میں اسے ان لوگوں کے ساتھ اپنی متاعِ حیات زندگی کی تمام پونجی کیسے رخصت کرتا جو میری ماں باپ خاندان کے قاتل تھے، میری بہن کو پامال کیا تھا ان لوگوں نے۔

اس اتوارکی صبح اسما نے جھجکتے ہوئے آہستہ آہستہ مجھ سے کہا تھا پاپا ایک وعدہ آپ کریں اورایک وعدہ میں کرتی ہوں۔

میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ اس نے نظریں نیچی کرلی تھیں۔ میں نے بہت دنوں کے بعد اس کے چہرے پر نظر ڈالی تھی، اتنی ویران آنکھیں، اتنا سرد چہرہ، یہ میری بچی تو نہیں تھی، میرے دل کے اندر جیسے خون رسنے لگا تھا۔

میں اس سے شادی نہیں کروں گی لیکن آپ ایک بار صرف ایک بار اس سے مل لیں۔ ایک بار ملنے کے بعد بھی اگرآپ کہیں گے کہ اس سے شادی نہ کروں تو میں شادی نہیں کروں گی، وہی کروں گی جو آپ کہیں گے، اس کی آنکھیں ڈبڈبارہی تھیں۔

کہاں ہے وہ؟ میں نے سوال کیا تھا۔
ڈھاکہ بنگلہ دیش میں اپنی ماں کے پاس، میرے جواب کا انتظارکررہا ہے لیکن جواب تو آپ نے دینا ہے۔ پلیز پاپا ڈھاکہ چلے جائیں اس سے اس کے خاندان سے مل لیں، جواب دے دیں جو بھی جواب ہے، ایک بارصرف ایک بارپھر جوآپ کہیں گے، وہی کروں گی دل و جان کے ساتھ سب منظور ہوگا مجھے۔

بڑی مشکل سے وہ اپنے آنسو روک رہی تھی، بڑی مصیبت سے میں اپنے آپ کو سنبھال رہا تھا۔
میں منع نہیں کرسکا تھا۔ ڈھاکہ کے سونار گاؤں ہوٹل میں، میں نے کمرہ بک کرلیا اورلندن سے ایمرٹ ایئر کے جہاز سے ان لوگوں سے ملنے چلا گیا تھا، اسی بنگلہ دیش میں جہاں میں اورمیرے جیسے ہزاروں بہاری خاندان برباد کردیئے گئے، قتل کردیئے گئے اور پامال ہوئے تھے، میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی بنگلہ دیش جاؤں گا مگر قسمت مجھے پھریہاں لے آئی تھی۔ مجھے پتا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ واپس انگلستان جا کر اسما کو اس شادی کے لئے منع کردینا ہے، قسمت قسمت قسمت، کیا کرارہی تھی مجھ سے۔ میں اندر سے ڈر سا گیا تھا۔

مولوی تمیز الدین روڈ پر بنا ہوا بنگلہ دیش حکومت کا پانچ ستاروں والا عالی شان ہوٹل ہے، ویسا ہی جیسے سارے پانچ ستارے والے ہوٹل ہوتے ہیں، خوبصورت اور جذبات سے خالی پُرتپاک۔

طفیل مجھ سے ہوٹل میں ہی ملنے آیا تھا۔ اسما نے اسے خبر کردی تھی اورمجھے اس کا نمبر دیا تھا۔ پہنچنے کے دوسرے دن میں نے اسے فون کرکے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پہلی نظر میں ہی میں اس سے مرعوب ہوگیا تھا، اس کی شخصیت میں ا یک خاص قسم کی چمک تھی، وہ عام بنگالیوں کی طرح سانولا نہیں تھا، گورا، طویل قامت اور پُراعتماد، رک رک کر سمجھ سمجھ کر انگریزی میں بات کرتے ہوئے اچھا لگتا تھا۔ اس نے کیمبرج سے ہی معاشیات میں ماسٹرز کیا تھا اورایک بڑی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر کام کررہا تھا، اس کی ماں ڈاکٹر تھی اوروالد کا انتقال ہوچکا تھا۔

مجھے وہ بظاہر اچھا لگا اور حقیقت تویہ ہے کہ وہ اسما سے زیادہ وجیہہ تھا، عام حالات میں کسی بھی لڑکی کا باپ اسے داماد بنا کرخوش ہی ہوتا، یہ میں نے سوچا ضرور تھا مگر سانتاھار اور سانتاھار کا ریلوے جنکشن، پٹریاں، پتھر، گھانس، ٹوٹے ہوئے لکڑی کے سلیب، بہاریوں کا کیمپ اورباجی کی چیخیں، ہر ہرا سمندر، ہرا سمندر، بڑی مشکل سے میں نے اپنے آنسو روکے تھے۔

اس نے مجھے گھرآنے کی دعوت دی تاکہ میں اس کی ماں سے ملوں لیکن میں نے کہا تھا کہ بہت ہی اچھا ہو اگر میں اُن سے سونارگاؤں ہوٹل میں ہی مل لوں، مجھے ان کی میزبانی کرکے اچھا لگے گا۔ اس نے ضد نہیں کی تھی۔

گھرجا کر مجھے فون کرکے بتایا کہ دوسرے دن شام کو چار بجے وہ اور اس کی ماں مجھ سے ملنے آئیں گے۔ میں نے سوچا تھا کہ اچھا ہے جلد ہی مل لوں تو پھر دوسرے دن ہی واپس چلا چلوں گا۔ میں نے اپنا وعدہ پورا کرلیا تھا اب اسما نے وعدہ پورا کرنا تھا۔ مجھے ایک طرح سے اطمینان سا ہوا تھا۔

سونار گاؤں ہوٹل کے لاؤنج میں کونے والے صوف پر وہ اکیلی بیٹھی ہوئی تھیں اورمجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئی تھیں، میں ہی طفیل کی ماں ہوں، اکیلی آئی ہوں، میں نے اسے آنے سے منع کردیا تھا۔ انہوں نے صاف سیدھی انگریزی میں کہا تھا۔

نیلے رنگ کی قیمتی ساری میں لپٹی ہوئی خوبصورت ناک نقشے کے ساتھ ان کے سانولے رنگ میں بے پناہ کشش تھی۔ میرے ذہن میں فوراً ہی انگریزی کا لفظ ایلی گینٹ آیا تھا۔ وہ ایک جوان جہان بیٹے کی ماں نہیں چھوٹی بہن لگ رہی تھیں۔ نہ چاہنے کے باوجود مجھے ان کا وجود اچھا لگا۔

اسما کی شکل آپ سے بہت ملتی ہے، انہوں نے آہستہ سے کہا تھا۔
اچھا آپ اس سے مل چکی ہیں میں نے سوال کیا تھا۔


کئی بار! جب طفیل کیمبرج میں پڑھ رہا تھا تو میں سال میں دو تین بار چلی جاتی تھی، اسما بہت پیاری بچی ہے، بہت پیاری اور بہت پیار کرنے والی۔ اس نے ہمیشہ بہت خیال کیا ہے میرا، مجھے بہت پسند ہے، وہ بہت اچھی لگتی ہے مگر پتہ نہیں وہ میرے قسمت میں ہے کہ نہیں مگر یہ سارے فیصلے تو اوپر والا ہی کرتا ہے جو وہ کرے گا اچھا کرے گا۔ ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایک سکون سا تھا۔ ایک خاص قسم کا سکون جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ہوں۔

ان کے خوبصورت چہرے پر اطمینان کی چاندنی سی پھیلی ہوئی تھی۔ میں خاموش رہا، کیا کہہ سکتا تھا۔
میں نے ان کے لئے چائے منگوائی اور میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں ان سے کیا بات کروں کیوں کہ میرے پاس توبات کرنے کوکچھ بھی نہیں تھا۔ شاید انہوں نے سوچا ہو کہ میں رشتہ مانگوں گا، میں خاموشی سے کبھی ان کو اور کبھی ہوٹل میں آنے جانے والوں کو تکتا رہا تھا۔

طفیل کا باپ نہیں ہے انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ کہا تھا۔ اسے یہی پتہ ہے کہ میں اس کی پیدائش کے بعد بیوہ ہوگئی تھی اورمیں نے اسے ماں اورباپ بن کر ہی پالا ہے مگر حقیقت کچھ اور ہے جو میں اُسے نہیں بتانا چاہتی ہوں اسی لئے میں اسے لے کر نہیں آئی ہوں۔ یہ رشتہ ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات آپ کوپتہ ہونا چاہیے کیونکہ آپ اسماء کے باپ ہیں، یہ کہہ کروہ خاموش ہوگئی تھیں۔

انہوں نے میرے چائے کی پیالی میں چائے انڈیلی، میں نے دودھ خود ہی اٹھا کر اپنی چائے میں شامل کی تھی اور تازہ پیٹیز کی پلیٹ ان کے سامنے رکھ دی تھی۔ انہوں نے بھی چائے اپنی پیالی میں انڈیلی اورآدھی چمچ چینی ڈالی تھی۔ ان کا چہرہ بہت سنجیدہ تھا، مجھے ایسا لگا جیسے وہ بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کررہی ہیں۔

میری زبان کو بھی جیسے تالا لگ گیا تھا۔
میں اس وقت ڈھاکہ میڈیکل کالج میں تیسرے سال میں پڑھتی تھی پاکستانی فوجی بدرشمس کے رضاکاروں کے ساتھ ہمارے ہاسٹل میں گھس گئے تھے، بدلتے ہوئے خراب حالات کی وجہ سے ڈھاکہ شہر کی زیادہ تر لڑکیاں اپنے گھروں کو چلی گئی تھیں، ہم پندرہ سولہ لڑکیاں ڈھاکہ سے باہر کی تھیں اور گھروں کو جانے والی تھیں مگر اس دن ہم سب کا اجتماعی بلاد کار کئی گھنٹوں تک ہوتا رہا تھا۔ ایک کے بعدا یک ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے طاقتور مردوں کے ہاتھ میں اسلحہ ہوتو ان سے ہماری جیسی لڑکی نہیں لڑسکتی ہے۔ ان کا بلادکار ہوتا ہے، انہیں لوٹا جاتا ہے، وہ چیخ بھی نہیں سکتیں، رو بھی نہیں سکتیں، اگر بچ جاتی ہیں تو تمام زندگی روتی رہتی ہیں اور ان کی خاموش چیخیں ان کے اندر ہی گونجتی رہتی ہیں۔

مجھے پتہ نہیں ہے ان میں سے کون سا پنجابی طفیل کا باپ تھا۔ زندہ بچا، یا بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ شاید جنگی قیدی بنا ہوا، شایدزندہ ہو، پاکستان میں کہیں لاہورمیں، جہلم میں گجرات میں، طفیل ان میں سے ہی سے کسی کا بیٹا ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی تھیں۔ ٹشوپیپر سے اپنی آنکھوں سے نکلتے ہوئے قطروں کوخشک کیا تھا، پھر میری طرف غور سے دیکھا، آہستہ سے بولی تھیں، آپ کو اس کا پتہ ہونا چاہیے، میرے بیٹے کو پتہ ہو نہ ہو، لڑکی کے باپ کو یہ بتانا ضروری ہے۔

ان کی آنکھوں کی چمک ماند پڑگئی تھی، میں کوشش کے باوجود اپنے آنسوؤں کو سنبھال نہیں سکا تھا، مجھے توپتہ تھا کہ وہ کیوں رورہی ہیں لیکن انہیں نہیں پتہ تھا کہ میرا دکھ کیا ہے، مجھے درد کیوں ہے، میں کیوں لرز رہا ہوں۔ میں تربتر آنکھوں کے ساتھ سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا سنسار ہے مولا تیرا یہ کیا انصاف ہے وہ جنہیں سانتاھار میں مارا گیا، قتل کیا گیا وہ انسان تھے اوروہ جنہیں لوٹا گیا، جن کا بلادکار ہوا اس عورت کا اوراس جیسی میری بہن جیسی ناجانے کتنی لڑکیوں کا وہ بھی انسان تھے تیری بنائی ہوئی دنیا میں تیرے حکم سے بننے والے انسان۔ کیوں بنایا تھا تو نے انہیں کیوں؟ آخر کیوں!

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments