وقت سے فائدہ اٹھائیں، اپنی ذات کا نفسیاتی دفاع سیکھیے


دوسروں کی نفسیات سے تو ہم جانے انجانے ہمیشہ ہی کھیلتے ہیں۔ چلیے لاک ڈاؤن کے دنوں میں اپنی نفسیات سے کھیلیے۔ یہ کھیل ضرور آپ کے لیے دلچسپ ثابت ہو گا اور اگر اس میں آپ کی دلچسپی لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی برقرار رہی اور وقتاً فوقتاً آپ یہ کھیل کھیلتے رہے تو آپ اپنی ذہنی صحت پر اس کے مثبت اثرات خود محسوس کریں گے۔

انسانی نفسیات کی گتھیاں سلجھانا الجھے ہوئے ریشم کو سلجھانے سے بھی زیادہ باریک اور نفیس کام ہے جو مکمل ارتکاز کے بعد بھی کُلّی طور پر ممکن نہیں ہو پاتا اس کے باوجود مکمل ارتکاز ناگزیر ہے۔

آپ میں سے تقریباً ہر شخص اس تجربے سے گزرا ہو گا کہ کئی بار ہم اپنے ہی احساسات کو سمجھ نہیں پاتے یا ان سے اس قدر خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں۔ دراصل ہم جو کچھ محسوس کر رہے ہوتے ہیں اسے تسلیم کرنا اور پھر بیان کرنا ہمارے لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ہماری شخصی اور معاشرتی ساکھ متاثر ہونے کا اندیشہ ہمیں مضطرب کرتا ہے جو ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتا۔

اور بعض اوقات ں یرونی اثرات یا ہمارے بارے میں کسی دوسرے کے خیالات اتنی شدت سے ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں کہ ہمیں واقعی خود پر کسی مخصوص خرابی کا شک ہونے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اپنے اس احساس سے الجھتے الجھتے خود اپنے ہی بارے میں غلط اور منفی انداز میں سوچنے لگتے ہیں اور یہ کیفیت اتنی شدید بھی ہو سکتی ہے کہ ہمیں خود سے ہی متنفر کر دے۔ یہ کشمکش ہماری نفسیاتی پیچیدگیوں اور الجھنوں میں اضافہ کر دیتی ہے۔

اس صورتحال سے بچنے یا نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود سے الجھنے کی بجائے ان گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کریں۔

اس کام کو آغاز کرنے کے لیے اہم یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم بھرپور اعتماد سے خود اپنا سامنا کریں۔ اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے شبہات، توہمات، خیالات اور احساسات کو مکمل طور پر تسلیم اور قبول کرنے کی صلاحیت خود میں پیدا کریں اور پھر جو خیالات و احساسات ہمارے معاشرے، عقیدے یا تمدن سے متصادم ہوں ان پر اپنے آپ سے بحث کریں اور دلیل سے ان کو رد کرنے پہ خود کو قائل کریں۔

کیونکہ ہم جس معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اس میں رائج قوانین پر عمل پیرا ہونا، وہاں کے تمدن کے مطابق خود کو ڈھالنا علاوہ ازیں جس عقیدے کے ہم پیروکار ہوتے ہیں اس کی حدود سے متجاوز نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر انسانیت کے یونیورسل اصولوں کی پاسداری کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

اپنے آپ سے ہماری ٹیبل ٹاک تبھی ممکن ہو گی جب ہم اپنی تمام حدود کو مانتے ہوئے یہ حقیقت بھی جان لیں کہ ذہن میں آنے والا ہر خیال ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا۔ پھر خود کو اس بات کا یقین دلائیں کہ ہم جس مخصوص دائرے میں اپنی مرضی اور آمادگی سے زندگی گزار رہے ہیں یہاں ذہن میں آنے والا ہر خیال نہ تو بیان کیا جا سکتا ہے نہ ہی ہر خیال پر عمل کرنا ممکن ہے۔ ہاں البتہ ہم اپنے خیالات کو مطلوبہ ڈگر پر چلانے کی اہلیت ضرور رکھتے ہیں۔

اگر ہم یہ پہلا قدم اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کے نتیجے میں ہم خود پر وہ اعتماد حاصل کرتے ہیں جو ہمیں ہماری تمام تر خوبیوں اور خامیوں سمیت ہمارا اپنا دوست بنا دیتا ہے۔ یوں ہم اگلے مرحلے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور اگلا مرحلہ یہ ہے کہ خارجی اور داخلی ہر دو اطراف سے ہمیں نفسیاتی طور پر متاثر کرنے یا ہماری سوچ کو پراگندہ کر کے ہماری مجموعی شخصیت کو نقصان پہنچانے والے حملے پر اپنا بھرپور دفاع کر سکیں۔ اس کے بعد ہم اپنی معاشرتی، قانونی اور مذہبی حدود کو پوری دیانتداری سے پیشِ نظر رکھتے ہوئے جس قدر غلط ہیں خود کو اتنا ہی غلط تسلیم کرنے اور رتی بھر بھی اضافی الزام کو رد کرنے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

تسلیم کے اس دشوار گزار مرحلے کو عبور کرنے کے بعد ہمارے لیے اپنے قصور یا غلطی سے زیادہ کے الزام اور سزا دونوں کو پوری قوت سے رد کرنا آسان ہو جاتا ہے اور ہم با آسانی کسی بھی قسم کا اضافی خمیازہ بھگتنے یا ناکردہ غلطی اور جرم کی سزا پانے سے انکار کر سکتے ہیں۔

کیونکہ جب ہم ضد چھوڑ کر اپنے سامنے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے خود سے مفاہمت کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں اور اپنی غلطی کے ازالے یا سزا دونوں صورتوں کے لیے خود کو تیار کر لیتے ہیں تو بہت کچھ جو ہمیں ناممکن یا مشکل لگ رہا ہوتا ہے وہ خود بخود آسان ہونے لگتا ہے۔ پھر جب کوئی ہماری ایک غلطی پر دس ناکردہ غلطیوں کا اضافی بوجھ لادنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسے وقت میں ہمارے لیے ڈٹ کے اپنا دفاع کرنا مشکل نہیں رہتا۔

ایک اور اہم بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ یہ جو اگلے وقتوں کے سیانے کہہ گئے ہیں ”سب کچھ وقت پر چھوڑ دیں، وقت خود ہی سب کچھ واضح کر دے گا“ تو یہ بھی ہماری نفسیات کے ساتھ ایک داؤ ہی کھیلا گیا ہے کیونکہ عموماً وقت کچھ بھی نہیں کرتا سوائے اس کے کہ وہ چیزوں، واقعات اور معاملات پر خاک ڈال کر ان کو دھندلا اور پرانا کر دیتا ہے اور پرانی ہو کر بیشتر چیزیں غیر اہم ہو جاتی ہیں۔

وقت گزرتا جاتا ہے اور اس معاملے کی اہمیت کو ختم یا کم کر دیتا ہے جس میں آپ کسی ایسی چیز کے لیے ملزم یا موردِ الزام ٹھہرائے گئے جہاں آپ بے قصور تھے، اور جب کسی معاملے کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہتی یا سرے سے ختم ہو جاتی ہے تو اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ آپ تب قصوروار تھے یا معصوم۔

ہاں البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ آپ پر لگا ہوا الزام غیر محسوس طریقے سے آپ کی ذات سے منسلک ہو جاتا ہے اور لوگ شعوری یا لا شعوری طور پر اسی کے پیشِ نظر آپ کو رد اور قبول کرنے لگتے ہیں۔ آپ کی خاموشی کے نتیجے میں ہونے والا یہ آپ کا نا قابلِ تلافی نقصان ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کبھی آپ پر چوری کا الزام لگا اور آپ نے اپنا دفاع کرنے کی بجائے کسی گمان میں اپنا معاملہ وقت پر چھوڑ دیا اور فوری طور پر صحیح اور غلط نِتھر کر سامنے نہیں آیا تو لوگ اس حوالے سے ضرور آپ سے محتاط ہو جائیں گے اور اپنی قیمتی چیزوں کو آپ سے چھپانے لگیں گے۔

اسی طرح اگر کسی پر بدکاری، زنا، بدچلنی، ہم جنس پرستی، دھوکہ دہی، بے ایمانی، بدعنوانی، غداری یا اسی طرح کا کوئی اور الزام لگ چکا ہو تو بھلے ہی مدعی اس الزام کو سچ ثابت نہ کر سکے اور ملزم بھی کسی ڈر یا کمزوری کے پیشِ نظر انصاف کو وقت پر چھوڑ کر بیٹھ گیا ہو تب بھی لوگ شعوری یا لاشعوری طور پر ان تمام معاملات میں اس ملزم کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یوں وہ بے قصور ہوتے ہوئے بھی اپنا اعتبار کھو دیتا ہے۔ اس لیے موقعے پر ہی اپنے صحیح کو غلط بننے سے بچایئے اور اپنے آپ کو بے قصور ثابت کیجیے۔ بے بنیاد لگنے والے الزام کی بدنمائی سے خوفزدہ یا شرمسار ہو کر خاموشی اختیار کر لینے سے آپ ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کے مجرم بن جائیں گے اور آپ کو ملزم ٹھہرانے والا آپ کی خاموشی پر سرخرو ہو جائے گا۔ اپنے آپ کو ہمیشہ کے احساسِ جرم سے نکالنے کے لیے بہتر ہے کہ اپنے معاملے کو وقت پر چھوڑنے جیسا بزدلانہ فیصلہ نہ کیا جائے بلکہ دلیل سے خود کو صحیح ثابت کریں۔

یہ بات قطعی غلط ہے کہ جو صحیح ہوتا ہے اسے ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی۔ صحیح کو اگر جھٹلایا جا رہا ہو تو اسے ثابت کرنا بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہوتا ہے جتنا غلط کو غلط ثابت کرنا۔

اور اگر آپ خود ایسا نہیں کرتے تو وقت آپ کا زر خرید غلام نہیں کہ آپ کے لیے یہ سب کرتا پھرے۔ تمام عمر اپنے ضمیر کی عدالت میں شرمساری سے سر جھکائے کھڑے رہنے اور زمانے کی نظر میں بے اعتبار ہو کر جینے سے بہتر ہے وقت کے بجائے خود پر بھروسا کیا جائے اور اپنے سچ کو ثابت کیا جائے لیکن ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً اپنی نفسیات کے ساتھ میدان میں آئیے اور اس کے ساتھ کُھل کھیلیے تاکہ آپ کو یہ پتہ چلتا رہے کہ آپ کہاں کہاں اپنے آپ کے ساتھ دیانتدار رہے اور کہاں کہاں فاؤل کھیلا۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments