امریکہ کی سرزمین پر پہلا قدم


میرا ذہن ابھی اگلے رد عمل کے لیے لائحہ عمل تیار کر ہی رہا تھا کہ گارڈ کی صورت پھر سے ابھری۔ اس کے ہاتھ میں ایک نیا بورڈنگ پاس تھا جو اس نے میری جانب بڑھا دیا۔ میں نے مسکرا کر بورڈنگ پاس پکڑا اور جہاز میں داخل ہوگئی۔ جہاں مغربی نقوش کی حامل خوبرو فلائٹ اٹینڈنٹس کھڑی تھیں۔ میں نے اکانومی کلاس والے دروازے کا رخ کیا۔ دروازے پر کھڑی ایئر ہوسٹس نے میرا بورڈنگ پاس دیکھا اور ساتھ ہی اس نے مجھے بزنس کلاس والے دروازے سے داخل ہونے کا اشارہ کیا۔

اسی لمحے مجھے کچھ دیر پہلے والا واقعہ بھی یاد آیا جب گارڈ نے میرا بورڈنگ پاس پھاڑ کر مجھے نیا بورڈنگ پاس دیا تھا۔ دراصل کچھ طلباء کی فلائٹ اپ گریڈ ہو گئی تھی اور خوش قسمتی سے ان طلباء میں میں بھی شامل تھی۔ مگر افسوس اس دفعہ بھی مجھے کھڑکی والی نشست نہیں ملی تھی۔ میرے ساتھ والی نشست پر ایک امریکی خاتون بیٹھی تھیں۔ اس خاتون کا نام مونا تھا۔ اور ان کے ساتھ اس فلائیٹ میں ان کے بچے بھی موجود تھے۔ اسی دوران مائیک میں پائلٹ کی آواز گونجی اور کچھ ہی دیر میں ہم دبئی کی فضاؤں کو چیرتے ہوئے اگلی منزل کی جانب گامزن تھے۔

رات کے اس پہر جب ہم نے دبئی کو الوداع کہا، تب ہی نیند کی دیوی نے مجھے جکڑ لیا۔ اور میں گہری نیند سو گئی۔ پچھلے دس گھنٹوں کی تھکن مجھے پریوں کے دیس لے گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو لمحے بھر کے لئے مجھے لگا کہ میں واقعی پرستان میں ہوں اور میرے آس پاس پریاں ٹہل رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک پری اپنی جادوئی چھڑی گھماتی ہے اور میرے سامنے ناشتے کی پلیٹ آجاتی ہے۔ اتنے میں آواز سنائی دیتی ہے کہ تھوڑی دیر تک ہم زمین پر پہنچنے والے ہیں۔ اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ چھ گھنٹے اور 50 منٹ کی فلائٹ میں نے اتنی گہری نیند سو کر گزاری کہ ایک لمحے کے لیے بھی میری آنکھ نہیں کھلی اور اب ہم فرینکفرٹ پہنچنے والے تھے۔

پیسنجر لاؤنج میں شیشے کی دیوار کے اس پار جہازوں کی لینڈنگ اور پرواز کے مناظر دیکھتے ہوئے میرا بہت شدت سے دل چاہا کہ میں ائیرپورٹ سے باہر جاؤں۔ مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔ منزل ابھی دور تھی اور سفر ابھی باقی تھا۔ گھڑی کیا وقت بتا رہی تھی یہ تو مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ وہ صبح کا کوئی پہر تھا۔ میں شیشے کے اس پار وقفے وقفے سے قطار میں گرنے والی ان بوندوں کو محسوس کرسکتی تھی۔ ہوا کا جھونکا ان بوندوں کا نضم و ضبط خراب کر رہا تھا۔

میری یاداشت کے مطابق ہماری اگلی پرواز ساڑھے سات گھنٹے بعد تھی۔ جب زندگی کی گاڑی کسی ایئرپورٹ پر ساڑھے سات گھنٹے کے لئے پھنس جائے تو زندگی کسی فلم کی طرح روائنڈ ہونے لگتی ہے۔ خدا خدا کرکے یہ ساڑھے سات گھنٹے گزرے اور ہم نے یورپ کو خدا حافظ کہا۔ آٹھ گھنٹے اور 55 منٹ کی لمبی پرواز کے بعد ہم نے سرزمین امریکہ کو اپنا شرف بخشا۔

جب دو دن تک ایئرپورٹس کی خاک چھان کر ہم واشنگٹن ڈی سی پہنچے تھے تو اپنے پروگرام ایڈوائزرز کو خوش آمدید کا بورڈ پکڑے دیکھ کر پل بھر کے لئے ہماری ساری تھکان غائب ہوگئی تھی۔ واشنگٹن پہنچنے کے بعد ایک نیا سفر اور ایک نئی منزل ہماری منتظر تھی۔ واشنگٹن میں ہمارا تین دن کا قیام تھا۔ یہ تین دن وہ آخری تین دن تھے جب ہم سب ساتھ تھے۔ اصل سفر کا آغاز ان تین دنوں کے بعد ہوا۔

فور ایچ یوتھ ہاؤس میں ہماری رہائش کے انتظامات کیے گئے تھے۔ پراجیکٹ مینیجر مائیکل ڈیئر نے خندہ پیشانی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ مگر جیسے ہی اگلی صبح کے سات بجے تو ہمیں درحقیقت دن میں تارے نظر آنے لگے۔ کیونکہ نادیہ، روبن، ایرک، جِینی سمیت دیگر ایڈوائزرز کسی ظالم سارجنٹ کی طرح ہمارے دروازوں پر کھڑے تھے اور پانچ منٹ کے اندر اندر ہمیں نیچے پہنچنے کا حکم ملا۔ آدھی کھلی اور آدھی بند آنکھوں کے ساتھ ہم مطعلقہ ہال میں پہنچے۔ جہاں ہمیں چار گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہر گروہ کو الگ الگ رنگ کی شرٹس بھی تقسیم کی گئیں۔ میں جس گروپ میں تھی اس گروپ کو لال رنگ کی شرٹس ملی تھیں۔ وہ تمام چہرے جو کل تک نفیس تھے مگر اب جلاد بنے کھڑے تھے۔

پہلا ٹریننگ سیشن نادیہ کے ساتھ تھا۔ کہنے کو وہ پاکستانی نژاد امریکی تھی مگر ہمارے لئے سو فیصد پاکستانی تھی۔ اور نادیہ نے کسی قیمت پر ہمیں پاکستان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ وہ یوں کہ دوران ٹریننگ نظم و ضبط توڑنے کی صورت میں ویزا کینسل کرنے سے لے کر پاکستان واپس بھیجنے تک اور غرض یہ کہ ہمیں ہر وہ دھمکی دے چکی تھی جس کی توقع کسی پاکستانی انسٹرکٹر سے کی جاسکتی تھی۔ یہ سب خالص پاکستا نی دھمکیاں تھیں۔

نادیہ کی کچھ ایسی دھاک بیٹھی کہ اس وقت کمرے میں موجود پاکستان کا کل مستقبل نظم و ضبط کی بیڑیاں پہنے خاموش بیٹھا تھا۔ فقط دو دن کی اس قید کے بعد ہمارے مشیروں کو یقین ہوگیا کہ ہم آزادی کے تمغے کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوگئے ہیں، تو ہمیں آزادی کا پروانہ دے کر اپنی اپنی یونیورسٹیوں کے لیے رخصت کردیا گیا۔ مگر اس رخصتی سے قبل واشنگٹن میں گزارا ایک یادگار دن آج بھی آزادی کے اس تمغے کا سہرا معلوم ہوتا ہے۔ جب علی الصبح ناشتے کے بعد ہمیں واشنگٹن شہر کا دورہ کروایا گیا۔ دو دن تک پھیکے کھانے کھانے کے بعد جب ہماری بس واشنگٹن ڈی سی میں موجود پاکستانی ایمبیسی کے باہر جاکر رکی تو ہماری خوشی کا ٹھکانہ ناں رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments