کرونا کی وبا۔ ہم کیا کریں؟


اخبار کی ورق گردانی کرتے ہوے آج یہ خبر نظر سے گزری کہ اک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت اس وائرس کی وبا کو سازش تصور کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب عالمی سطح پر مختلف قومیں اس ضمن میں ایک دوسرے پر شکوک و شبہات ظاہر کریں تو ہمارا تعلق تو پہلے ہی اس ریجن سے ہے، جہاں پر اک صدی تک سامراج کا تسلط رہا ہے۔ سو اس طرح کی سوچ انہونی نہیں۔ مزید یہ کہ متعدد بار حالات سے متاثر ہوکر اس طرح کی سوچ ایک طرح سے ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔

بہرحال یہ وائرس قدرتی ہے؟ بایولاجیکل وار ہے؟ سرے سے غلط فہمی ہے یا تجرباتی لغزش؟ اس کا جواب آئیندہ کے تاریخی صفحات پر واضح ہوجائے گا۔ ابھی اس بارے میں اتنی بات واضح ہے کہ اک وقوعہ ہوچکا ہے، جس نے انسانیت کو محصور کردیا ہے۔ لھاذا اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ آئیے! اس سوال کا جواب تلاش کریں۔

ایک حدیث شریف کے مفہوم میں پانچ چیزوں سے قبل پانچ چیزوں کے قدر کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ ان میں زندگی کی قدر موت سے پہلے، صحت کی قدر بیماری سے پہلے اور فراغت کی قدر مشغولی سے پہلے شامل ہیں۔ اس وقت ہماری اکثریت کو یہ تینوں چیزیں میسر ہیں۔ خاص طور پر تیسری چیز یعنی فراغت کا حل اکثریت تلاش کر رہی ہے، اور یہی چیز انہیں تشویش میں مبتلا کر رہی ہے۔

اکیس مارچ سے اب تک ملک لاک ڈاؤن ہے، جبکہ صورتحال کے مطابق مزید اتنے ہی دن شاید معمولات بحال نہ ہوسکیں۔ اس فراغت و لاک ڈاؤن سے فائدہ اٹھا کر ترقی یافتہ دنیا آرٹیفیشل انٹیلیجینس پر مبنی ٹیکنالاجی بھرپور انداز میں سامنے لارہی ہے۔ کیا ہمیں اتنا بڑا وقت ویسے ہی بیٹھے بیٹھے ضایع کردینا چاہیے؟ کیا اس بحران کی وجہ سے ہونے والے سماجی، تعلیمی و معاشی نقصان کی تلافی آسانی سے کرسکیں گے؟ کیاہمیں اجتماعی طور پر پھر اتنی فراغت ملے گی؟ میرے خیال میں اس کا جواب ”نہیں“ میں ہوگا۔

ہمارا کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنے معمولات کو نئے سرے سے ترتیب دیں۔ اپنے موبائل و کمپیوٹر کے ذریعے جتنا بھی آن لائن کام ہوسکتاہے، اتنا نمٹائیں۔ اپنے پروفیشن، تعلیم، سماجی روابط کاروبار کو ٹھپ کرنے کے بجائے جتنا ہوسکے آن لائن کریں۔ اگر اکیلے نہیں ہوسکتا تو دیگر ساتھیوں کے ساتھ اجتماعی ترتیب بنائیں۔

بہت سے اہم انفرادی، ذاتی کام ہم ٹائم نہ ہونے کے سبب کینسل یا مؤخر کردیتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ان پر توجہ دیں۔ اپنے گناہوں پر استغفار کریں۔ اپنے اللہ کی رضا حاصل کریں۔ ویسے بھی رمضان المبارک کی آمد ہے، یہ وقت ہے اپنے اعمال کو سنوارنے اور روحانیت حاصل کرنے کا۔

اپنے بڑوں کو وقت دے کر ان کے تجربے کی تجوڑی سے خزانہ حاصل کریں، قبل اس کے کہ وہ اپنا خزانہ ساتھ لے کر اللہ کے پاس چلے جائیں۔ نئے نئے ہنر سیکھیے۔ انٹرنیٹ و ٹیکنالاجی پر مہارت حاصل کریں۔ اس کو ایکسپلور کریں۔ اپنا تجربہ و قدیم سنہری روایات و تاریخ دوسروں کے ساتھ شیئر کریں۔ اپنے کلچر و تہذیب کو انٹرنیٹ پر شو کریں تاکہ دوسرے بھی اسے فائدہ اٹھائیں۔

یاد رہے کہ یہ کام بے ترتیب طرح نہیں ہوں گے ، بلکہ اس کے لیے ہمیں ٹائم ٹیبل اور ترتیب بنانی ہے۔ پھر اس پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہے۔ ورنہ ہم سے اتنا بڑا وقت جسے حدیث شریف میں غنیمت سمجھنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، ویسے ضایع ہوجائے گا۔ شاید ہم بور ہوکر نفسیاتی طور پر متاثر نہ ہوجائیں! اس لیے اپنا وقت منظم کرنا ہے۔

اسکے ساتھ ادھر ادھر کی افواہوں اورچینلز پر کان دھر کر اپنے آپ کو ڈپریس نہ کریں۔ بلکہ ڈاکٹروں کی بتائی ہوی احتیاطی تدابیر اختیار کرکہ مطمئن رہیں۔ آپ کی دعاؤں اور تدابیر کی مدد سے کرونا وائرس پر کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ ابھی تو دوا بھی ایجاد نھیں ہوی، مگر پھر بھی پاکستان جیسے غریب ملک میں بھی ایک ہزار سے زیادہ افراد صحتیاب ہوچکے ہیں۔ علاج کی تلاش بھی جاری ہے۔ اللہ تعالی سے خیر کی طلب کریں۔ اللہ تعالی کی اس آزمائش کے پیچھے بھی ہمارے لیے ہی بہت کچھ فائدہ پوشیدہ ہے، جو مستقبل میں ظاہر ہوگا ان شاءاللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments