سب کچھ بھول بھلیاں



ہمارے نقادوں نے اصطلاحات کے نام پر محض اپنی تنقید کو مستعار مغربی افکار سے آراستہ کرنے یا سجانے کا کام کیا ہے۔ جدیدیت، ترقی پسندی، ساختیات، پس ساختیات، متن، ماہیت، نظریہ، رجحان یہ سب مانگے کی خیرات یا اصطلاحات ہیں، جن سے ادب تخلیق کرتے ہوئے ہمارا فکشن رائٹر کبھی دوچار نہیں ہوتا۔ کسی مخصوص نظریہ یاکسی مخصوص رجحان کے سیلاب میں تنکے کی طرح بہہ جانا بھی جینوئن ادیب کا کام نہیں ہے۔ یہ ہماری ذہنی پسماندگی ہے کہ اعلیٰ ادب کی تخلیق کے لئے ہم اب بھی مانگے کے اجالوں سے کام چلارہے ہیں۔

مغرب کی فرسودہ اصطلاحات سے باہر نکلیں تو پھیلتی سکڑتی دنیا کے ہر پہلو پر جہاں مغرب والے اپنے انداز سے غور کررہے ہیں، وہیں ایک ذات ہم اردو والوں کی بھی ہے اور ہمارا ادیب اپنے نظریہ سے سائنسی، سماجی، مذہبی، سیاسی تبدیلیوں کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ ہمارے تخلیقی رجحان اس نو آبادیاتی فکری نظام کا حصہ ہیں، جہاں اچانک آنے والی تبدیلیوں نے ہماری گول گول گھومتی دنیا کے آگے بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ایک طرف ارتقاکی ریس، دوسری طرف گریٹ ڈپریشن کی شکار اکانومی۔

جنگ عظیم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، بڑھتی ہوئی دہشت گردی، تاریخ کے ساتھ سیاست کا جبر۔ مذہب کی بالا دستی بھی اور ایک دوسرے کے مذاہب پر شب خوں مارنے کی تیاری بھی۔ ہم ایک نئے جوراسک پارک میں تضاداور کنفیوژن کا شکار ہوکربونے ہوچکے ہیں۔ ایک معیشت تباہ ہورہی ہے اور نئے سماجی وسیاسی رویے پروان چڑھ رہے ہیں۔ ہم تہذیبوں کو بچانے، ماحولیات کے تحفظ کی باتیں کرتے ہیں اور جغرافیائی سطح پر ہماری زمین کم ہوئی جارہی ہے۔

کلوننگ پروسس، ڈی ان اے کی نئی تہذیب اور موت پر فتح پانے کے چیلنجز کے باوجود ہم بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے بھی پریشان ہیں۔ خوف کے اندیشے میں برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک مل کر کچھ معصوم تانا شاہوں کو ہلاک کردیتے ہیں۔ چھوٹے ممالک بڑی مچھلیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ یہ سب بھی رجحانات ہیں، جن کی طرف ہمارا ادیب دیکھ رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ڈپریشن، شوگر جیسے امراض میں مبتلا ہیں۔ بچوں اور عورتوں میں عالمی سطح پرآنے والی تبدیلیاں بھی نئے رجحان کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

سیاست، عمدہ فکشن کے لئے ضروری ہتھیار بن چکاہے۔ ایک ختم ہوتی دنیا میں ڈائنا سورس کے لوٹنے کی پیشین گوئی ممکن ہے اور یہ دنیا توہمات سے اس قدر آلودہ ہے کہ ہالی وڈ ’اوتار‘ اور ’2012‘ جیسی فلموں کی نمائش کررہا ہے۔ ہمارے اردو کے ’نظریہ سازوں‘ اور ’رجحان سازوں‘ کو شاید اس بدلتی ہوئی دنیا سے کوئی مطلب نہ ہو۔ مگراس دنیا کا جائزہ لئے بغیر آج کے فکشن کا سنجیدگی سے تنقیدی مطالعہ نہیں کیا جاسکتا۔

میں نے چھوٹی عمر سے لکھنا شروع کیا۔ سترہ برس کا تھا، جب پہلا ناول مکمل کیا۔ یہ وہ دور تھا، جب جدیدیت کی ہوا چل رہی تھی۔ میں بھی اس ہوا کا شکار ہوا۔ اس کے بعد مارکسی تنقید کے اثرات نے مجھے بہت دنوں تک اپنی قید میں رکھا۔ نوجوانی کا زمانہ تھا۔ روسی ناول نگاروں کو پڑھنے کا جنون پیدا ہوا۔ دوستوفسکی، پشکن، تالستائے، نکولائی گوگول، ترگینیف سب کو پڑھ گیا۔ پھر ایک وقت آیا، جب مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ مجھے ان کے اثرات سے باہر نکلنا چاہیے۔

ہنری جیمس، وکٹر ہیو گو، البیر کامو، تیتھنیل ہیٹنگ، جارج آرویل، ولیم گولڈنگ، گراہم گرین، سال بیلو، ان سب کو پڑھا۔ یہ خیال حاوی تھا کہ عمدہ کہانیوں کی تلاش میں محض کہانی پن اور سپاٹ بیانیہ کا سہارا نہیں لیاجا سکتا۔ دادا پوتا، باپ بیٹا، صدی کو الوداع کہتے ہوئے، فزکس، کیمسٹری، الجبرا جیسی کہانیوں میں، محض بیانیہ نہیں ہے، علامتیں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ میں نے متعدد کہانیوں میں بیانیہ کو علامتوں اور فنتاسی سے جوڑنے کی کوشش کی۔

کیونکہ ایک دنیا بدل رہی تھی۔ پریم چند، منٹو، بیدی اور عصمت چغتائی کی کہانیوں سے وقت بہت آگے نکل گیا تھا۔ کہیں خدا واپس آگیا تھا، کہیں نئے رشتوں کی تلاش ہورہی تھی۔ ایک گلوبل دنیا سامنے تھی، جس کی چمک میں پرانی دنیا گم ہوچکی تھی۔ سائنس، کائنات اور انسان کو ادب کی مضبوط بنیاد کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ ہرمن ہیسے نے ’ڈیمیان‘ میں کہا۔ ’ایک چڑیا انڈے سے جنم لینے والی ہے۔ جو جنم لینا چاہتا ہے، اسے ایک دنیا کو تباہ وبرباد کرنا پڑے گا۔

پرانی دنیا کا زوال نزدیک آرہا ہے۔ یہ دنیا نئی شکل لے گی۔ ‘ مارخیز کو کہنا پڑا۔ ایک ایسی حقیقت بھی ہے جو کاغذی نہیں، ہمارے اندر رہتی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ایسے پابند اظہار یا ذریعے کی تلاش کا رہا ہے، جو ہماری زندگیوں کی حقیقت کو قابل یقین بنانے میں ہماری مدد کرسکے، یہی تنہائی کا عقیدہ ہے۔ ا ن سے الگ ایک فکر میری بھی تھی۔ میں ہندوستانی سطح پر ایک نوآبادیاتی نظام کا گواہ تھا۔ مسلمانوں کی آمد، مغلوں کی حکومت، انگریزوں کی غلامی کے بعد تیزی سے تبدیل ہوتا ہوا ہندوستان میرے سامنے تھا۔

نئی صدی کے 16 برسوں میں فرقہ پرستی، دہشت گردی کے ساتھ سوپر انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا کے نعرے بھی تھے۔ حقیقت سے زیادہ فنتاسی حاوی تھی۔ عالمی سطح پر مارخیز کے سوسال کی اداسیوں کا پہرہ تھا۔ اس کو بھی نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ نئی صدی کے آغاز کے ساتھ میں کہانیوں سے دور ہوتا چلا گیا۔ اب میں ناول کے میدان میں تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ وقت کہانیوں سے زیادہ ناول کا ہے۔ وقت کے تضاد اور کنفیوزن کو عام حقیقتوں کی طرح تحریر نہیں کیا جاسکتا۔

بقول غالب، کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لئے۔ فکشن کا موجودہ سفر آسان نہیں ہے۔ فکشن بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ فکشن محض علامتوں کا کھیل نہیں۔ محض کیفیت اور احساس کو زبان دینے کا نام نہیں۔ اگر آپ کے پاس زندگی، سائنس، کائنات اور انسان سے وابستہ کوئی بڑا فلسفہ یا ویژن نہیں، تو آپ فکشن میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ نئی کہانی فنتاسی اور متھ کی سرنگ میں چلی گئی ہے۔ ایبسٹریکٹ آرٹ کی طرح یہاں آڑی ترچھی لکیروں کی بھی ضرورت ہے کیونکہ حال اور مستقبل پر ابہام کی پرت چڑھ چکی ہے۔ فکشن میں ایک بار پھر ہم آہستہ آہستہ تجریدی رجحان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

نئی صدی کے بہتر برسوں میں زندگی کے معیار اور معنی بدل چکے ہیں۔ انفارمیشن تکنالوجی اور صنعتی ترقی نے ادب کوبھی متاثر کیا ہے۔ ہمارا افسانہ بیانیہ اور کہانی پن سے بہت دور نکل آیا ہے۔ طلسمی حقیقت نگاری، موہوم حقیقت نگاری کی اصطلاحات بھی سامنے آچکی ہیں۔  1980 میں ڈھول پیٹا گیا کہ کہانیوں میں بیانیہ اور کہانی پن کی واپسی ہوگئی ہے۔ یہ حقیقت سے زیادہ ایک گمراہ کرنے والا بیان تھا۔ کیا 06 اور08 کے درمیان جو کہانیاں لکھی گئیں، ان میں بیانیہ نہیں تھا؟

جدیدیت کو فیشن بنا لینا ایک گمراہ کن رویہ تھا مگر جدیدیت کی اہمیت سے مطلق انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح 06 سے 08 تک تجریدیت کا نام بھی بار بار لیا گیا۔ بیشتر افسانہ نگار ایسے تھے جو خلا میں افسانہ لکھ رہے تھے اور تجریدی تجربے سے واقف نہیں تھے۔ کہانیوں کا لاسمت ہونا صحیح تھا، لیکن لایعنیت کو بھی محدود معنوں میں دیکھا جارہا تھا۔ اس لئے 06 سے 08 کے درمیان ابھر نے والے زیادہ تر ادیب غائب ہوگئے۔ مگر اس عہد کی کئی کہانیاں اب بھی ایسی ہیں، جو شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔

میں کئی معاملوں میں ترقی پسند عہد سے زیادہ جدیدیت کے دور کی حمایت کرتا ہوں، کیونکہ پہلی بار کہانی کو آزاد فضا میں پھلنے پھولنے کا موقع دیاگیا۔ بیانیہ، کہانی پن، یہ اصطلاحات اب بھی میری سمجھ سے پر ے ہیں۔ شاعری کے پیمانے پر فکشن کو پرکھنے کی غلطی کرنے والے کلیم الدین احمد سے لے کر آج تک موجود ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ادب کو جمالیات کا نعرہ دیا۔ حسن و جمال کے نئی معنی تلاش کیے ۔ شعری کائنات ایک مختلف کائنات ہے اور فکشن کی دنیا ایک مختلف دنیا۔

حقیقت یہی ہے کہ جو نقاد سامنے آئے وہ فکشن کے تئیں سنجیدہ نہیں تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو گروپ بندی کے شکار تھے۔ یہ سلسلہ ہنوز قائم ہے۔ نقاد یہ بھول جاتے ہیں کہ قارئین کو بہت دنوں تک بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ اب یہ دھند چھٹ رہی ہے۔ ایمانداری سے اردو فکشن کی تنقید لکھی جائے تو جہاں کئی بت ڈھیر ہوجائیں گے، وہیں نئے چہرے بھی سامنے آئیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments