کیا نوکر شاہی گڈ گورننس میں رکاوٹ ہے؟


گڈ گورننس کی بنیاد آزادی کے اصولوں، فکر، تقریر، مساوات، شفافیت اور برابری پر قائم ہوتی ہے۔ اگر پاکستان میں حکمرانی کے انداز کو جانچنے کی کوشش کی جائے تو نوکر شاہی جسے انگریزی میں بیورو کریسی کہتے ہیں، کا جائزہ لئے بغیر نامکمل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ پاکستان کے ناقص طرز حکمرانی اور اس سے جڑے نوکر شاہی کے مسائل کی جڑیں برطانوی طرز حکمرانی سے ورثے میں ملی ہیں جس کی بنیاد آقا (اشرافیہ) اور نوکر (عوام) کی عدم مساوات پر مبنی تھی۔

برطانوی انتظامیہ میں تین اقدار (جبر، کمان اور کنٹرول) کارفرما رہے۔ برطانوی حکمرانی کے خاتمے کے 72 برسوں بعد بھی، پاکستان کو بد انتظامی کے معاملات درپیش ہیں اور اس حوالے سے پاکستانی معاشرے کے تمام طبقات میں عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بشمول حکمراں جماعت کچھ مخصوص اداروں کی ضرورت سے زیادہ خودمختاری کا رونا رورہی ہے، تو دوسری طرف ایف بی آر کی ٹیکس کی وصولی کی کارروائیوں اور نیب کی بلیک میلنگ پر صنعت کار اور تاجر برادری مایوس ہے۔

سول سوسائٹی کے ممبران ملک میں بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ قوم پرست جماعتیں خودمختاری کی تلاش میں ہیں اور غریب عوام بنیادی ضروریات کی چیزوں کی ہوشربا قیمتوں پر زندگی سے تنگ نظر آتے ہیں۔ عوام کو ایک ایسے سیاسی اور بیوروکریٹک نظام کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو نہ تو کسی کو جوابدہ ہے اور ہی کسی مسلے کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔ ان تمام مسایل کی وجوہات بیڈ گورننس، ریاستی اشرافیہ کی ہٹ دھرمی اور ان کو بلا تعطل ملنے والی مراعات سے منسلک ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عوام سیاست سے لاتعلقی کا شکار ہوگئے ہیں، اور احتساب، معاشی اصلاحات اور قومی سلامتی سے متعلق ریاست کے بیانیہ کی شفافیت پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ خراب حکمرانی کی وجہ سے ابھرنے والے سیاسی، معاشی اور سلامتی کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے، تمام ریاستی ادارے بالاخصوص ایگزیکٹو، عدلیہ اور مقننہ ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مسلسل بے جا مداخلت کیے جا رہے ہیں۔ اور نتیجے میں حکومتی اداروں کے انتظامی امور بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں۔

ایوب کھوڑو (سیاست دان) چوہدری محمد علی (بیوروکریٹ) کے حضور

موجودہ سیاسی حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان ایک مسلسل کشمکش اور انتظامی الجھن کی سی کیفیت ہے جس کو حل کرنے کے لئے کی جانے والی کوششیں مخلصانہ نہیں۔ حکومتی وزراء نوکر شاہی سے نالاں نظر آتے ہیں جبکہ بیوروکریٹس حکومت کی طرف سے عدم اعتمادی کی شکایت کرتے ہیں۔ اکثر وزراء نے اس مئسلے کا حل کچھ عارضی بھرتیاں کر کے نکالا ہے جہاں اپنے من پسند افراد کو سسٹم کا حصہ بنا کر کام کروایا جا رہا ہے۔ اس طرح کے اقدام سسٹم کو مزید کمزور کر رہے ہیں اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی وجہ سے معاملات مزید بگڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف اداروں کی مڈل مینیجمنٹ (ڈائرکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز) بھی سسٹم کے باہر سے لائے گئے من پسند سیکرٹریز اور جاۂنٹ/ایڈیشنل سیکرٹریز کو قبول کرنے سے انکاری یے۔ اس کے نتیجے میں کسی بھی اہم پراجیکٹ پر عمل درآمد نا ممکن ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب حکومتی وزراء کا موقف ہے کہ بیوروکریسی جو ان کو ورثے میں ملی ہے وہ گزشتہ حکمرانوں کے ساتھ مضبوط وابستگی کی وجہ سے حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کررہی اور بد عنوان افسران کو احتساب کا خوف ان کی سست کارکردگی کے پیچھے ایک اوراہم وجہ ہے۔ حکومتی ممبران کا دعوی ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اپنے متعلقہ حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کررہے ہیں اور انہیں عوامی رابطوں سے اجتناب کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ حال ہی میں، پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور نے پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری سے ملاقات سے قبل میڈیا کو بیوروکریسی کی جانب سے پی ٹی آئی کے پارلیمنٹیرینز اور تنظیمی عہدیداروں کے فیصلوں پر عمل درآمد پر ناکامی پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے رہنما ”صرف“ درخواستوں اور مطالبات کے ساتھ سرکاری افسران کے پاس جاتے ہیں۔

پاکستان کے حکمران طبقہ اور متعلقہ قومی سلامتی کے اداروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک بار جب ملک میں ریاست کے معاملات سے عوام عدم اطمینان اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں تو اقتدارمحض ایک کمزور ستون کی طرح کسی بھی ہلکے سے جھٹکے سے ڈھے سکتا ہے۔ ریاست کے تمام اداروں کو اب زندہ رکھنے کے لئے بیوروکریسی کے اندر جامع اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ بیوروکریسی کو سمجھنا ہو گا کہ ایک خودمختار آئینی جمہوریہ میں انتظامی امور کو مساوات، نگہداشت اور شفافیت سے چلایا جاتا ہے اور اس کی بہت سی کامیاب مثالیں مغربی ممالک میں موجود ہیں۔

اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ پاکستان بدعنوانی پر قابو پائے، احتساب کو بہتر بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اداروں کے مابین سالمیت، ہم آہنگی اور باہمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ صوبوں کو اختیارات دینے کے باوجود، انتظامی ڈیسنٹریلائیزیشن اور وسائل کی مساوی تقسیم اب بھی سب سے زیادہ متنازعہ معاملہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں طرز حکمرانی کو بہتر بنانے کے لئے کچھ معاملات میں اصلاحات ناگزیر ہیں خاص طور پر مالی اور مالیاتی پالیسی، مالیاتی انتظام (بجٹ خسارہ) ، توانائی کے شعبوں میں (سرکلر ڈیبٹ منیجمنٹ) ، لاء اینڈ آرڈر (نسلی اور دہشت گردی کے تنازعات) اور سب سے اہم مقامی حکومتوں کو اختیارات اور وسائل منتقل کرنا ہیں۔

جب وزیر اعظم اور تحریک انصاف کو بیوروکریٹس کا نام نہاد مکمل تعاون نہیں مل رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ اس کو کیسے یقینی بنائیں گے؟ اس سلسلے میں ان کی حکمت عملی کیا ہے؟ صوابدیدی تقرریاں، بیوروکریسی کی مستقل بدلاؤ اور ذاتی وفاداری کا مطالبہ مسائل کا حل نہیں۔ اگر حکومت بیوروکریسی کے بارے میں مستحکم احتساب چاہتی ہے تو اسے منصفانہ احتساب اور قواعد پر مبنی ترقیوں اور تبادلوں میں بھی توسیع کرنی ہوگی۔

بیوروکریسی کے خلاف غیر ذمہ دارانہ حملوں سے وزیر اعظم اور تحریک انصاف بڑے پیمانے پر اپنے اور عوام کے لئے مزید پریشانی پیدا کرسکتی ہیں۔

حکومت کو گڈ گورننس پر توجہ دینی چاہیے، اور بیوروکریسی کا اعتماد حاصل کرنا ان کی اولین ترجیحات میں ہونا چاہیے۔ بیوروکریسی کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے سول سروس اصلاحات کے لئے ایک قابل عمل روڈ میپ تیار کرنا جلد از جلد ترجیحی بنیاد پر کیا جانا ہی مسائل کا حل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments