موجودہ صورتحال ،تبلیغی جماعت اور شتر مرغ


اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی زد میں ہے اور ابھی تک اس مہلک وبا کا علاج دریافت نہیں ہوسکاہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس نازک گھڑی میں کہ جب دنیا ایک عظیم جانی، مالی، سماجی، اور اقتصادی بحران سے دوچار ہے کچھ ذہنی مریض اس وائرس کو مذہبی و علاقائی عینک سے دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکہ بار بار کہتا رہا ہے کہ یہ ایک چینی وائرس ہے جبکہ حالیہ دنوں میں امریکی صدر کے رویے میں مصلحت و سیاست آمیز تبدیلی رونما ہوئی اور انہوں نے کہاکہ وہ اس وائرس کو چینی وائرس نہیں کہیں گے۔

اسی طرح پاکستان میں شہرت دی گئی کہ یہ وائرس ایران گئے ہوئے پاکستانی زائرین کے ذریعہ ان کے ملک میں داخل ہوا۔ غرضکہ پوری دنیا اس وائرس کے پھیلنے کا الزام ایک دوسرے کے سر منڈھنے کی کوشش کررہی ہے اور یہاں تک کہاجا رہا ہے کہ یہ وائرس یا تو چین نے خود بنایا ہے یا پھر امریکہ نے تخلیق کیا ہے۔ اب جبکہ یہ وائرس ان دونوں ملکوں کے قابو سے باہر ہو چکا ہے اس لئے مل جل کر اس کی ویکسین تیار کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ انسان کا تخلیق کیا ہوا وائرس نہیں ہے۔

بہر حال کچھ بھی ہو، مگر ابھی وثوق کے ساتھ کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ ’ڈیلی میل‘ میں شائع رپورٹ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امریکی کمک سے چینی لیبارٹری میں یہ وائرس تیار کیا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق اس مہلک وائرس کے پوری دنیا میں پھیلنے کے لئے ایک چینی لیبارٹری کو ذمہ دار ٹھہرایا گیاہے جو امریکی مالی امداد کے ذریعہ چمگادڑوں پر ریسرچ کررہی تھی۔ یہ لیب ووہان میں موجود گوشت مارکیٹ کے قریب واقع ہے۔

امریکہ میں کانگریس جماعت کے بعض اراکین نے بھی اس طرف اشارہ کیاہے۔ انہوں نے امریکہ کی اس مذموم حرکت کو انسانیت مخالف قرار دیاہے۔ ایسے سائنسی تجربات کے خلاف آوازاٹھانے والی آرگنائزیشن ’وہائٹ کوٹ ویسٹ‘ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کورونا وائرس چینی لیبارٹری کے ذریعہ پھیلا ہے جو چمگادڑوں پر تجربہ کررہی تھی۔ لیکن اس وقت یہ بحث زیادہ اہم نہیں ہے کہ یہ وائرس کس نے اور کیسے پھیلایا ہے بلکہ اس کے معالجے پر زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ اس وبا پر قابو پانے کے بعد اس موضوع پر یقینا بات ہونی چاہیے کہ یہ وائرس کیوں اور کیسے عالم وجود میں آیا، تاکہ اس کے مجرموں کا عالمی سطح پر بائیکاٹ کیا جا سکے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟

ہندوستان میں کورونا وائرس کے آغاز کے ساتھ ہی اس پر قابو پایا جاسکتا تھا مگر سستی شہرت اور اقتدار کی ہوس نے مرکزی حکومت کو خواب خرگوش میں مبتلا رکھا۔ جس وقت ہندوستان میں اس مہلک وائرس کی دستک ہورہی تھی وزیر اعظم نریندر مودی گجرات میں ’نمستے ٹرمپ‘ پروگرام کرنے میں مصروف تھے۔ ٹرمپ کی واپسی کے فوراً َ بعد بھی اگر اس وائرس کے سلسلے میں سنجیدگی سے غور کیا جاتا تو شاید نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی مگر بی جے پی مدھیہ پردیش میں کانگریس کی سرکار گرانے میں زیادہ دلچسپی لینے لگی۔

وزیر اعظم نے اس وقت تک لاک ڈاؤن کے نفاذ پر غور تک نہیں کیا جب تک مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کو اقتدار سے کرسی سے نہیں کھینچ لیا۔ ظاہر ہے سیاسی رہنماؤں کی خرید و فروخت میں پارٹیوں کا بڑا بجٹ صرف ہوتاہے اس لئے کورونا کے بڑھتے ہوئے اثر پر توجہ دینے کے بجائے مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی سرکار بنانے پر زیادہ دھیان دیا گیا۔ اس پر یہ کہ جو لوگ بیرون ملک سے ہندوستان آرہے تھے ان کی اسکریننگ پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔

اگر حکومت بیرون ملک سے ہندوستان آنے والے افراد کی اسکریننگ کرتی اور انہیں ائیرپورٹ سے سیدھے کورنٹائن سینٹر لے جایا جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ مگر لاک ڈاؤن کے نفاذ سے پہلے تک ملک میں اس وبا سے نمٹنے کے لئے کوئی کورنٹائن سینٹر موجود نہیں تھا یہ ہماری حکومت کی مستعدی پر سوالیہ نشان ہے۔ ظاہر ہے حکومت اپنی غفلتوں اور کوتاہیو ں سے اچھی طرح واقف تھی، انہیں اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی کے لئے ایک ’مہرے‘ کی ضرورت تھی جو انہیں تبلیغی جماعت کی صورت میں مل گیا۔

پورے ملک کو یہ بارآور کرادیاگیاکہ حکومت نے کورونا پر قابو پالیا تھا مگر مرکز نظام الدین سے برآمد ہوئے کورونا مریضوں کے ذریعہ ملک دوبارہ اس وباد کی زد میں آگیاہے۔ ہر پریس کانفرنس میں تبلیغی جماعت کے مریضوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جانے لگا اور عوام کو یہ یقین کرادیا گیاکہ ہندوستان میں کورونا کے پھیلنے کا سبب تبلیغی جماعت ہے۔ ظاہر جو عوام مودی جی سے ان کی ناکامیوں پر سوال نہیں کرتی وہ اس پروپیگنڈے کے بارے میں ان سے کیسے سوال کرنے کی جرا ¿ت کرتی۔ نتیجہ یہ ہواکہ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا خطرناک ماحول سازگار کردیاگیا جوکہ پہلے سے موجود تھا۔

بنیادی غلطی مولانا سعد سے بھی سرزد ہوئی۔ انہیں کورنٹائن ہونے کے بجائے میڈیا کے سامنے آکر اپنا موقف رکھنا چاہیے تھا۔ اتنی بڑی جماعت کا کوئی قابل ذکر ترجمان میڈیا سے روبرو نہیں ہوا جس کا نقصان صرف جماعت کو ہی نہیں بلکہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کو ہوا۔ میڈیا یہ خبر مشتہر کرتی رہی کہ مولانا سعد روپوش ہوگئے ہیں، بعض نے انہیں فرار بھی دکھانے کی کوشش کی، اگر وہ میڈیا کے سامنے آکر اپنی بات رکھتے تو ممکن ہے یہ منفی بیانیہ غلط ثابت ہوتا جسے قومی میڈیا نے تیار کیا تھا۔

یہاں صرف مولانا سعد اور مرکز کی کوتاہیوں پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سرکار کی لاپرواہی اور غفلت بھی سامنے آتی ہے۔ مگر کسی نے سرکار کی لاپرواہی کو مورد الزام قرار نہیں دیا بلکہ یہ ثابت کرنے کی جی توڑ کوشش کی کہ ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے ذریعہ کورونا وائرس پھیلاہے۔ کیا دہلی سرکار اور مرکزی حکومت کو یہ علم نہیں تھا کہ مرکز نظام الدین میں جماعت کے متعلقین کی اتنی بڑی تعدا د موجود ہے؟ حیرت خفیہ ایجنسیوں پر ہے کہ وہ بھی جماعت کی سرگرمیوں سے کیسے لاعلم تھیں؟ جو غیر ملکی جماعت کے مراکز میں موجود تھے کیا ہماری سرکار کو نہیں معلوم تھاکہ یہ لوگ ہندوستان میں کیوں اور کس مقصد کے تحت آمدورفت رکھتے ہیں؟

قابل افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا کے ذریعہ منفی پروپیگنڈے اور غلط خبروں پر سخت قدم نہیں اٹھائے جاتے۔ زی نیوز جیسے درجنوں نیوز چینلوں نے جس طرح تبلیغی جماعت کے نام پر ملک میں فرقہ پرستی کا ماحول پیدا کیا وہ قابل توجہ ہے۔ اس نفرت انگیزی کے بعد اقلیتی فرقے کے افراد کے متعلق اکثریتی فرقے کی ذہنیت ہی بدل گئی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فقط میڈیا کے پروپیگنڈے اور زعفرانی ایجنڈے کا شکار ہیں۔ انہیں نہ حقیقت سے کوئی سروکار ہوتاہے اور نہ وہ حقیقت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انہیں ’اندھ بھکت‘ کہنا اور کوڑھ مغز کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ میڈیا اپنے پروپیگنڈے میں کامیاب ہوچکا تھا جبکہ اس کے ذریعہ چلائی جارہی ’فیک نیوز‘ کی حقیقت بھی سامنے آچکی تھی، مگر متعصب اور نفرت آمیز ذہن ان حقائق کو تسلیم نہیں کرسکتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سبزی فروشوں سے ان کے نام دریافت کیے جانے لگے۔ مسلمان ٹھیلے والوں کے ہندو محلوں میں داخلے پر روک لگا دی گئی۔ جس مسلم ریسٹورینٹ نے اس برے وقت میں بلا تفریق ذات و مذہب غریبوں کو کھانا کھلانے کی کوشش کی اس کے خلاف سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلائی گئیں کہ وہ تبلیغی جماعت سے منسلک ہیں اور کھانے میں تھوک ملاکر تقسیم کررہے ہیں تاکہ ہندوؤں میں کورونا پھیل جائے۔

کئی غریب مزدور جو اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے انہیں گاؤں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا بلکہ ان پر تشدد کیا گیا۔ ان تمام واقعات پر ہمیشہ کی طرح وزیر اعظم کی افسوس ناک خاموشی ایسے افراد کی ہمت افزائی کا سبب بنتی رہی۔ انہوں نے ایک بار بھی منظر عام پر آکر یہ نہیں کہا کہ کسی ایک مذہب اور ذات کے افراد نے جان بوجھ کر اس وبا کو نہیں پھیلایا ہے۔ ظاہر ہے یہ تمام واقعات بی جے پی اور آرایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق وقوع پذیر ہورہے تھے اس لئے ان پر قدغن لگانے کی توقع رکھنا عبث ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی نے اس ملک کو نفرت کی بھٹّی میں جھونک دیاہے۔ ظاہر ہے یہ خاموشی کسی دباؤ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس ایجنڈے کی بنیاد پر ہے جو ناگپور سے ان کے اور ان کی پوری جماعت کے لئے بن کر آتاہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ تبلیغی جماعت کی لاپرواہی نے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ وہ جماعت جو سو سے زیادہ ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اس سے ایسی غفلت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ان کی اس غفلت پر کوئی جواز بھی پیش نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ایسی جماعت کو عالمی حالات کی خبر ہونی چاہیے۔ جماعت کے افراد کا سماجی و سیاسی شعور بہت گہرا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے لائحہ عمل کے مطابق تبلیغ کو اہمیت دیتے ہیں۔

ان کی تبلیغات سے مسلکی منافرت میں بہت تیزی سے اضافہ ہواہے۔ جس جماعت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے مثالی کارنامے انجام دینا چاہیے تھے وہ جماعت ایک محدود اور مخصوص آئیڈیالوجی کے فروغ میں اپنی توانائی ضایع کرتی رہی۔ ایسے وقت میں کہ جب ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ختم ہوتی جارہی ہے، جماعت اس کی بحالی اور ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی تھی۔ مگر جماعت کو سوچنا چاہیے کہ اتنا بڑا نیٹ ورک ہوتے ہوئے بھی کیا وہ مسلمانوں کو سیاسی و سماجی سطح پر منظم کرسکی ہے؟ ہر گز نہیں! مسلمانوں کو فقط مساجد میں اکٹھاکرنے سے ترقی ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے مضبوط اور منظم لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو فی الوقت جماعت کے پاس نہیں ہے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ تبلیغی جماعت آئندہ اپنا لائحہ عمل تبدیل کرے گی۔ مسلکی منافرت کو ہوا دینے کے بجائے مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق اور سماجی و سیاسی شعور کی بیدار ی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو انہیں یقین کرلینا چاہیے کہ ان کے ساتھ ہندوستان میں ایسا ہی نفرت آمیز اور امتیازی سلوک روا رہے گا۔ صرف انہیں ہی نہیں بلکہ تمام مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو اسی صورتحال سے دو چار ہونا پڑے گا، جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہم موجودہ وقت میں اس سے بھی بدتر صورتحال کا شکار ہیں، مگر ہم موجودہ حالات کو غور کرنے کے بجائے شترمرغ کی طرح ریت میں گردن ڈال کر یہ سوچ رہے ہیں کہ شکاری ہماری طرف سے غافل ہے جبکہ وہ ہماری تاک میں بیٹھاہے کہ کب اور کس طرح شکار کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments