زیرِ آسماں: کالم میں خاکے


کبھی دل فرصت کے دن ڈھونڈتا تھا، تصورِ جاناں سے زیادہ اپنے آپ سے ملاقات کے لیے۔ فراغتے و کتابے و گوشۂ چمنے کی خواہش دل میں مچلتی رہتی تھی، لان میں پڑی بید کی کرسی پر اُس وقت بیٹھنا ہوتا تھا جب کوئی بھولا بھٹکا مہمان آجاتا۔ وہ بھی شام کے وقت۔ اور شام بھی ایسی کہ کہیں جانا نہ ہو۔ اب جو کورونا نے سماجی زندگی کو معطل کر دیا ہے، دفاتر اور بازار بند ہیں، کہیں آنے جانے پر پابندی ہے تو فرصت ہی فرصت ہے۔ مگر ایسی فرصت جس میں اجتماعی بے بسی اور انفرادی گوشہ نشینی کا عالمی تجربہ مشترک دکھ اور خوف کے ساتھ ہر فرد کی زندگی کا حصہ بنا ہوا ہے۔

اس دردِ مشترک میں ہم نہ کسی کو گلے لگا کر تسلی دے سکتے ہیں، نہ ہاتھ تھام کر معتبر رفاقت کا یقین دلا سکتے ہیں۔ کیا ہو رہا ہے، کیا ہونے والا ہے، کب تک یہ بلا ٹلے گی، وہ سوالات ہیں جو سب کو پریشان کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں فرار ہی ایک کیفیت ہے جس میں پناہ مل سکتی ہے۔ غالب کا یہ شعر بار بار یاد آتا ہے :

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
تنہائی کے ان شب و روز میں اگر کوئی مونس و ہم دم ہے، تو وہ کتابیں ہیں جو شیلف سے بستر پر منتقل ہو رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ حال میں چھپنے والی وہ تصانیف بھی ہیں جو شیلف پر گئی بھی نہیں تھیں۔ اچھی کتاب کے لیے سادہ سا پیمانہ یہ ہے کہ وہ خود کو پڑھوا لیتی ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی کے کالموں کا مجموعہ ”زیرِ آسماں“ ایسی ہی کتاب ہے جسے اٹھا لیا جائے تو پڑھے بغیر رکھنے کی نوبت نہیں آئے گی۔

”زیرِ آسماں“ پڑھنی شروع کی تو انکشاف ہوا کہ یہ کالم جو شاہد صدیقی لکھتے رہے ہیں۔ صحافتی تحریر نہیں بلکہ اچھے خاصے ادبی خاکے ہیں جنھیں کسی بھی بڑے خاکہ نگار کے خاکوں کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔ خاکہ نگاری سے ہماری شناسائی مرزا فرحت اللہ بیگ کے لکھے ہوئے خاکے ”ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ اُن کی کچھ میری زبانی“ اور مولوی عبدالحق کے ”نام دیو مالی“ کے توسط سے ہوئی تھی۔

شاہد صدیقی کے کالموں کو پڑھنا شروع کیا تو متعدد شخصیات اور مقامات کے دل چسپ خاکے توجہ کا سبب بنے۔

سکینہ جو سرسوں کے کھیت میں چُھپ کر اپنی اس خواہش کی تکمیل پر خوش ہوتی ہے کہ ”کوئی اس کا انتظار کر رہا ہے۔ “

ماسٹر فضل صاحب ہیں جن کی زندگی اِس خواب میں سمٹ آئی تھی کہ ”اُن کے اسکول میں اسکالرشپ ہولڈرز کی تعداد سب سے زیادہ ہو۔ “ مظہر کلیم ہیں جن کے ”ذہنِ رسا نے امکانات کے نئے دریچے کھولے اور اپنی محنت، لگن اور قوتِ متخیّلہ سے عمران سیریز کی روایت کو آگے بڑھایا۔ “

شکیل عادل زادہ ہیں، ”جو اپنی طرز کی نثر کا موجد تھا اور جس نے ڈائجسٹ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا جس کے ’سب رنگ‘ کی پتنگ اُڑتے اُڑتے آسمان کی بلندیوں میں تارا بن گئی تھی۔ “

بھگت سنگھ ہے ”جو اپنے انقلابی دوستوں کے ساتھ مل کر وطن کی آزادی کے منصوبے بنایا کرتا تھا۔ “
والدہ، والد، بڑے بھائی ہیں جنھوں نے شاہد صدیقی کی زندگی کو شائستگی کے سانچے میں ڈھالا۔ والدہ جنھوں نے ”جنھوں نے ایک سادہ اصول سمجھایا کہ ہم دوسروں کی عزت کریں گے تو لوگ ہماری عزت کریں گے۔ “

قدیم بستیاں، تاریخی مقامات، مانچسٹر میں گزارے ہوئے طالب علمی کے شب و روز، ساتھیوں کی یادیں اوربہت کچھ ان کالموں میں سمٹا ہوا ہے۔ بعض کالم تو افسانوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں کہ زندگی جن کرداروں اور واقعات میں بکھری ہوئی ہے، اُنھی کی کہانیاں تو لکھی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت راج کی ہے۔ ”پارس“ اور ”زندگی کی بساط پر“ میں راج کی شخصیت کو بڑی اثرانگیزی کے ساتھ موضوع بنایا گیا ہے۔ راج کا اپنا مضمون تو ”سوشیالوجی“ تھا لیکن ادب، فلسفہ، نفسیات اور سیاست پر اُس کی دسترس حیرت انگیز تھی۔ حالاتِ حاضرہ پر اُس کی رائے معتبر اور دو ٹوک ہوتی۔ ”

شاہد صدیقی تخلیقی نثر نگار ہیں۔ وہ اپنی تحریر میں الفاظ کا استعمال کسی ماہر مصور کی طرح کرتے ہیں اور کردار اور ماحول کی ایسی تصویر بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو قاری کے تصورات کو اُن کی تحریر سے ہم آہنگ کردے۔

راج کا خاکہ پڑھ کر شاہد صدیقی کا ناول ”آدھے ادھورے خواب“ یاد آیا جس میں اُن کا یہی اُسلوب بہت واضح ہے۔ اس ناول میں بڑے کینوس پر مرکزی کردار سہارن رائے کی شخصیت، آدرش اور فکر و عمل کی کئی جہتی تصویر اس کامیابی کے ساتھ بنائی گئی ہے کہ قاری کو دیگر کرداروں کی موجودگی اور سہارن رائے غیرموجودگی محسوس ہی نہیں ہوپاتی۔ سہارن رائے اپنی وجودی تنہائی کو اپنے آدرش کے جوہر سے غیرمحسوس بنانے میں کامیاب ہے۔ مصنف کے تبصرے یا اصرار کے بغیر۔ صرف اپنے ہونے کی صورت میں۔ اور اس ہونے ہی کو اجاگر کرنا شاہد صدیقی کی تحریر کا وصف ہے۔

”زیرِ آسماں“ میں شامل ہر کالم میں تصور اور یادوں کے امتزاج سے مقامات اور شخصیات کو مجسم کر دیا گیا ہے اور متحرک بھی۔ فکر و دانش کے رنگ اعلیٰ جمالیات کے ساتھ اُس وقت اُبھر سکتے ہیں جب لکھنے والے کا باطن آئینے کی طرح شفاف ہو۔ اس آئینے میں ہی وہ دوسرا عکس منعکس ہوتا ہے جو مصنف کی اپنی ذات کا ہے۔ خیر اور مثبت رویہ رکھنے والا انسان دوست لکھاری ہر کردار کے ساتھ خود موجود ہوتا ہے۔

سوچتی ہوئی مہربان آنکھیں، دھیمی مسکراہٹ، شائستہ لہجہ، کتابوں اور لکھنے والوں کی باتیں — ڈاکٹر شاہد صدیقی کی ذاتی شناخت اور نثری اُسلوب میں تضاد نہیں۔ وہ تعلیم و تدریس کے میدان میں ایک متعینہ منزل کے مسافر ہیں، اُن کے نصب العین نے اُنھیں ایسے سفر پر گامزن رکھا ہے جس میں زادِ راہ کتاب اور قلم ہیں۔ وہ تعلیمی اداروں کو اُس بلند مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں جہاں تک ترقی یافتہ ممالک نے رسائی حاصل کرلی ہے۔

”زیرِ آسماں“ کے مضامین کا موضوع بلند عزائم اور واضح نصب العین رکھنے والی شخصیات اور وہ مقامات ہیں جنھیں سنگِ میل بنا کر ترقی کا سفر طے کیا جاسکتا ہے۔

والدہ، والد، بڑے بھائی، سماجی اکابرین، تاریخی مقامات و کردار، اُن کے اپنے نصب العین کے حصول میں رہنما ہیں۔ اُن ہی کے آدرش پر مستحکم یقین رکھتے ہوئے منزل کی طرف مضبوط قدموں کے ساتھ گامزن رہنے میں جو شخصیات، واقعات اور مقامات مانوس نظر آئیں، اُنھیں شاہد صدیقی نے اس مہارت سے اپنی تحریر میں محفوظ کردیا ہے کہ قدموں کے نشان اور آثار مزید واضح ہوگئے ہیں۔

بلاشبہ اپنے علمی، ثقافتی اور تہذیبی سفر میں شاہد صدیقی جس راہ سے بھی گزرے ہیں، اُسے معدومی سے بچانے میں کامیاب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments