جوناتھن سوئفٹ کے بندر، انجان عدلیہ، ہانپتا ہوا ملک


جمعیت علمائے ہند نے سپریم کورٹ میں دعوی پیش ٰکیا کہ نظام الدین مرکز کیس کو میڈیا نے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سازش کی ہے۔ ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ تبلیغی جماعت کے کچھ حصوں سے متعلق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹ نے پوری مسلم قوم کو نشانہ بنایا اور مسلمانوں کی توہین کی گئی۔ میڈیا کے ذریعے جو رویہ اختیار کیا گیا اس سے مسلمانوں کی آزادی اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے جو دستور میں دیے گئے رائٹ ٹو لائف کے بنیادی حق کے خلاف ہے۔

اس کے علاوہ شوشل میڈیا پر فرضی خبریں پھیلانے والوں پر بھی کارروائی کے لئے حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ زی نیوز اور دیگر چینل اب بھی زہر پھیلانے میں مصروف ہیں۔ کہتے ہیں، قانون کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ 2020 میں خیال آتا ہے کہ اس پٹی کے آگے تاریکی کا سمندر ہے اور اس سمندر میں ڈوبا ہوا ملک ہانپ رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ابھی دل شکستہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر یہ افسوسناک ہے کہ ہندوستانی میڈیا کے فیک اور زہریلے تبصروں پر ساری دنیا حیران ہے، مگر ہماری عدلیہ انجان ہے۔

ثبوت و شواہد کی روشنی میں کسی دوسری تاریخ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ فیصلہ ہونا تھا اور ان نیوز چینلوں کو سبق سکھانے کی ضرورت تھی، جنہوں نے آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ملک کو بارودی سطح پر کھڑا کر دیا ہے، جہاں سے کوئی راستہ انسانیت اور انسان دوستی کی طرف نہیں جاتا۔ ابھی تین برس پہلے کی بات ہے جب سپریم کورٹ کے چار جج انصاف کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس افسانے کو یاد کر لیجیے کہ اس کا ایک مہرہ اب راجیہ سبھا میں پھچ چکا ہے۔

ہندوستان کی سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں نے پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اتھارٹی کو چیلنج کیا تھا۔ اس وقت ہم سوچتے تھے کہ جب انصاف کی تاریخ لکھی جائے گی، جسٹس جے چلاسپیشمر، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف کا نام روشن حروف میں لکھا جائے گا۔ اس وقت چار ججوں نے جو بیان جاری کیا، وہ تاریخ کی کتاب اور انصاف کے باب میں نیا اضافہ تھا۔

چلاسپیشمر نے کہا ’ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سپرم کورٹ کا وقار مجروح ہوا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی اور نہ ہی کسی اور ملک میں۔ اس بیان کا سب سے مضبوط حصّہ وہ تھا، جس میں کہا گیا کہ ہم نہیں چاہتے کہ 20 سال بعد اس ملک کی تارخ لکھی جائے تو یہ نہ کہا جائے کہ چلاسپیشمر، رانجن گوگوئی، مدن لوکر اور کرین جوزف نے اپنا ضمیر بیچ دیا تھا۔ اس کے بعد کی کہانی دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایسا لگتا ہے، اندھوں کے قبرستان میں ملک کی مکمل آبادی کو اتار دیا گیا ہے۔ کچھ یہاں جشن منا رہے ہیں۔ کچھ مر رہے ہیں۔ کچھ کو مارا جا رہا ہے۔ ایک اسٹیج ہے جہاں نہ ختم ہونے والی تاریکی میں کچھ جوکر کھڑے ہیں۔ تاریکی کا سمندر ہے اور ملک ہانپ رہا ہے۔

جوناتھن کے شہرہ آفاق ناول گلیورس ٹریول کا کردار چھوٹے قد کے بونوں اور گھوڑوں کے دیس سے واپس آ کر بندروں کے دیس کب گیا، یہ بتانا آسان ہے۔ مگر بندروں کے دیس کی مجبوری ہے کہ آپ جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہیں، کویی سزا نہیں۔ آپ بندروں کی فطرت اور عادت کے مطابق تشدد پر آمادہ ہو کر باغات، کھیت، فصلیں روند ڈالیں، کویی مضایقہ نہیں۔ آپ ملک کا تمام سرمایہ، اناج، دھن، سب کچھ ڈکار لیں یا کھا جاہیں تب بھی بندروں کی ٹولی اس چھوٹی سی بات کو بندروں کی قدیم وراثت ہی ٹھہراے گی کیونکہ بندروں کا شغل ہی یہی ہے۔

گلیور ان دنوں بندروں کے دیش میں ہے۔ وہ سفر نامہ کا دوسرا حصّہ قلم بند نہیں کر سکتا۔ اب سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ بندروں کی ٹولی کو میڈیا کہا جاتا ہے۔ جرائم پسند بندروں کی حکومت ہے۔ ایک حکومت کی عدلیہ کسی مجرم کو سزا سناتی ہے تو دوسری حکومت آتے ہی عدلیہ کا فیصلہ بدل جاتا ہے۔ تمام بڑے بڑے جرائم پیشہ بندر آزاد ہو جاتے ہیں لاک ڈاؤن میں بھی ان بندروں کی سازش کم نہیں ہوئی۔

گلیور کی طرح میں بھی سوچتا ہوں کہ اچانک اس ملک کو کس کی نظر لگ گی۔ مجھے امریکی صدر ٹرمپ پر ترس آتا ہے کہ منتخب ہونے کے باوجود نہ اس کی گرفت وہاں کی عدلیہ پر ہے نہ میڈیا پر۔ ۔ میڈیا کی بندر ٹولی سچ کو جھوٹ، نا جائز کو جائز ٹھہرانے کے لئے ایک شاخ سے دوسری شاخ تک اچھل کود مچا کر عالمی میڈیا کے سامنے جسم کے تمام لباس اتار چکی ہے۔

تاریخ کے صفحات پر کی چہرے چمکتے ہیں اور اوجھل ہو جاتے ہیں۔ ہٹلر، چنگیز، ہلاکو، نیپولین، مسولینی۔ مسولینی کہتا تھا کہ میں تاریخ کے صفحات پر اپنے خونی نشانات چھوڑجاؤں گا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ میرے نشان شیرکے پنجوں کے نشانات سے مشابہ ہوں گے۔ یہ اس شخص کا اعتراف تھا جس نے پانچ لاکھ انسانوں کو اپنی خوشی کے لئے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا یہ کہانی ان تانا شاہوں تک آ کر ختم ہو جاتی ہے؟

سپریم کورٹ نے پریس کونسل کو فریق بنانے کا حکم دیا، کیا اس کی حقیقت میں ضرورت تھی؟ جمعیت کی طرف سے وکیل اعجاز مقبول نے عدالت کے سامنے 98 اخبارات کے تراشے اور ویڈیوز بطورثبوت پیش کیے اور انڈیا ٹی وی، زی نیوز، نیشن نیوز، ری پبلک بھارت، ری پبلک ٹی وی، شدرشن نیوز چینل اوردیگر چینلوں پر نفرت کا زہر روکنے کی بات کی۔ انہوں نے WHO کا حوالہ بھی دیا۔ اور میڈیا کی اشتعال انگیزی پر پابندی لگانے کی مانگ بھی کی۔ کیا عدلیہ مجبور ہے؟ کیا عدلیہ کمزور ہے؟ یا عدلیہ دباؤ میں ہے؟ کیا عدلیہ کو کسی دباؤ میں ہونا چاہیے؟ جوناتھن کے بندر عدلیہ کی خاموشی سے اور طاقتور ہو جاییں گے۔ کیا سپریم عدلیہ کو اس بات کا احساس ہے؟

ہمیں سپریم کورٹ پر اب بھی بھروسا ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس اب بھروسا کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اگر ان شر انگیزیوں کا طوفان نہیں تھما تو آگے جو خطرے پیدا ہو سکتے ہیں، ان کا احساس سپریم کورٹ کو بھی ہوگا۔
کورونا کے دنوں میں مسلمانوں کے ساتھ میڈیا جو کھیل، کھیل رہا ہے، سپریم کورٹ کو اس پر بھی ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments