ایک ادنی میڈیا ورکر کی اپنے سیٹھ سے التجا


صاحب۔ آپ کو یقیناً نہیں معلوم ہو گا! کہ ساری رات بستر میں پژمردہ کیفیت کے ساتھ کروٹیں بدلتے ہوئے خود سے بھاگتی نیند میں ایک اچھے خواب کا تعاقب کرنا بلاشبہ ایک تھکا دینا والا معمول ہے۔ اس تھکاوٹ کا علاج جب صبح کی چائے سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو نا جانے کیوں حلق تر ہونے کے باوجود چائے کی مٹھاس، مزاج پر چھائی کرواہٹ کو زائل کرنے میں سراسر ناکام ہو جاتی ہے۔ میرے مالک۔ دراصل یہ کرواہٹ اس احساس ندامت کی ہے جو مجھے یاد دلاتی ہے کہ کس طرح میں گزشتہ دو مہینوں سے دودھ والے اور کریانہ کی ادائیگوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال مٹول کرنے کے بعد مزید ایک مہینہ انہوں اپنی ضروریات زندگی کا پہیہ چلانے پر آمادہ کررہا ہوں۔

دودھ والا جو ہمشہ میرے برتن میں دودھ ڈالتے وقت دھیمی آواز میں کچھ خصوصی مغلظات بکتا ہے اس کا بے رخی سے دیگچی میں دودھ ڈال کر میری طرف دھکیلنا بھی اس کا نیازمند بنا دیتا ہے۔ عالی جاہ۔ اللہ نا کرے آپ کے دشمنوں کا واسطہ بھی کبھی کریانے والے بٹ صاحب سے پڑے۔ جن کا گالم گلوچ کرنے میں پورے علاقے میں کوئی ثانی نہیں۔ اپنی دکان کے سامنے سے گزر پر نا صرف بلند آواز میں اپنا ادھار چکتا کرنے کا حکم صادر کرتا ہے بلکہ پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے بھرے بازار میں میرا گریبان چاک نا کرنے کا بھی احسان جتاتا ہے۔

اور تو اور گلی میں روز چیختی چنگھاڑتی آواز میں اپنی آمد کا اعلان کرنے والا سبزی فروش بھی جانے کیوں صرف میرے گھرے کے سامنے سے گزرتے وقت اپنی آواز دھیمی اور قدموں کی رفتار تیز کرلیتا ہے۔ سیٹھ جی۔ یہ سب کچھ اس لئے نہں ہوتا کہ میں کوئی چور یا ڈکیت ہوں، یہ بھی نہیں کہ میں کوئی اچھوت یا کسی موزی مرض میں مبتلا ہوں بلکہ ان سب کے پیچھے ایک سادہ سی وجہ میرا آپ کے چھاوں تلے پروان چڑھنے والے منافع بخش ٹی۔ وی چینل کا ایک ادنی ورکر ہونا ہے۔ جہاں محنت کو اجرت کے پلڑے میں تولنے کی ریت جانے کیوں مدہم پڑتی جارہی ہے۔

میرے حضور۔ اگر میرا جرم دیکھا جائے تو مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عارنہیں کہ سراسر قصور وار تو میں خود ہوں جو اس جگماتی دنیا کے سراب سے متاثر ہوکر اس سے ناتا جوڑا۔ مگر کیا اس ناسمجھی کی سزا اتنی بھیانک ہونی چاہیے؟ آپ بڑے لوگ بجا سوچتے ہیں کہ روح اور جسم کے تعلق کو قائم و دائم رکھنے کے لئے فضا میں بڑی مقدار میں ہوا اور زمین میں پانی موجود ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ آپ کی نظر میں سانسوں کی مالا بحال رکھنے کے لئے ضروریات زندگی کی ایسی تمام اشیا عیاشی کے زمرے میں آتی ہیں جن کی تکمیل کے لئے تنخواہ نامی کوئی شے مطلوب ہوتی ہے۔

میں اس سے بھی لاعلم نہیں کہ میری ادنی تنخواہ آپ کی دل اور جیب میں ننھا سا سوراخ کرکے آپ کے لئے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ پر کیا آپ مہان لوگ اس نظریے پر نظرثانی نہیں کر سکتے جس میں تصور کیا جاتا ہے کہ بھوک سے تو گلی کا آوار کتا بھی نہیں مرتا تو انسان کیسے مرے گا؟ میرے سردار۔ یقین جانیے دو، تین ماہ کے تعطل سے میرے آگے پھنکے جانے والی یہ قلیل تنخواہ نا صرف مجھے میرے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر کرتی ہیں بلکہ مجھے میری ذمہ داریوں کے سامنے بھی مجرم کی مانند کھڑا کر دیتی ہیں۔ شکوہ کرنے کی بساط نہیں تو جسارت کیسے کر سکتا ہوں؟ میری تو فقط یہ التجا ہے کہ مجھے میری اجرت جس کے قلیل ہونے کا ہر گز شکوہ نہیں، فقط اس کی ادائیگی میں پڑنے والے تعطل کو کم کرنے پر غور کیا جائے کیونکہ اس میں پڑنے والا نیا وقفہ پچھلے وقفہ سے بڑھتا چلا جا رہا ہے؟

میرے حضور۔ اگر یہ وقفہ کم ہو جائے تو میں اپنے بیوی بچوں کی ان ادنی خوشیوں میں شامل ہو سکوں گا، جن کو سنجیدگی کی آڑ میں صرف اس لئے نہیں لئے نہیں بٹور پاتا کہ کہیں ان کی یہ چھوٹی خوشیاں ان بڑی خوشیوں کی ٓآس میں نا لگ جائیں جن کی سوچنے کی بھی استطاعت نہیں رکھ سکتا۔ میرے والی۔ آپ کی برقت کی ادائیگی مجھے ضیعف والدین سے طبیعت پوچھنے والی ہچکچاہٹ سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں کیونکہ مجھے خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کی بیماری کا علاج کسی مہنگی دوائی میں دریافت نا ہوچکا ہو جس کو میری خالی جیب پوری کرنے سے قاصر ہے۔ جہاں پناہ۔ میری اس کم ضرف خواہش کی تکمیل کے بعد مجھے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اس بنیادی سازو سامان سے ہر گز ہاتھ نہیں کھینچنا پڑے گا جن کی عدم فراہمی ان کو ان کے ہم نواوں کے سامنے احساس کمتری میں ملوث کرتے ہیں۔

میرے ”خدا“ ْ۔ میری حق الخدمت کی بروقت ادایئگی جیسی گستاخ خواہش اگر آپ کو گراں گزر رہی ہے تو اس کو درگرز فرمائیں۔ جانے کیوں مجھے اپنی ذاتی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے تکمیل کرکے انسان کے عہدے پر فائز ہونے کا شوق چرایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments