امسال ایک مختلف رمضان



رمضان المبارک اسلامی تقویم کا نواں مہینا ہے۔ یہ وہ مہینا ہے جس میں ایک ایسی رات ہے جسے شب قدر کہتے ہیں، اس رات کو قرآن پاک نازل ہونا شروع ہوا۔ جیسا کہ قرآن پاک کی سورہ القدر میں ذکر کیا گیا ہے کہ انا انزلنا فى لیلة القدر، یعنی بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا۔ اور شب قدر کی عبادت ہزار راتوں کی عبادت سے بہتر ہے۔

یہ وہ با برکت مہینا ہے جس کا انتظار عالم اسلام پورے ایک سال تک کرتا ہے۔ مسجدوں کو سجایا جاتا ہے۔ نماز پنج گانہ، تراویح اور شبینہ سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ رات کو سحری کے لئے جگانے ڈھول والے چکر لگاتے ہیں۔ سحری کی اپنی رونقیں ہوتی ہیں اور افطار کی اپنی۔ دوستوں رشتے داروں کی دعوتیں ہوتی ہیں۔ مل کے افطار کی جاتی ہے۔ آج کل کچھ سال سے تو افطار پارٹیاں ایک الگ ہی رنگ اختیار کر گئیں ہیں۔ سیاست دان افطار پارٹیوں کو سیاسی ملاقاتوں اور جوڑ توڑ کے لئے استعمال کرتے ہیں اور امرا و روسا تعلقات بنانے کے لئے۔

جس طرف دیکھیے بڑی بڑی افطار پارٹیاں خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ نوجوان ہوٹلوں پر دوستوں کے ساتھ افطار کر رہے ہیں اور گھریلو خواتین ٹی وی کے سامنے گیم شوز کے میزبانوں کے ساتھ۔ بلکہ اب تو سحری بھی دعوتوں اور ہوٹلوں میں ہونے لگی ہے۔ رمضان عبادت کے مہینے سے زیادہ سماجی رابطے کا مہینا بن گیا ہے۔ ایک باقاعدہ تہوار کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

مگر امسال کا رمضان مختلف ہو گا۔ کرونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا کو بدل دیا وہاں لوگوں کے رہن سہن کے طریقے اور مذہبی اور معاشرتی طریقے بھی بدل دیے ہیں۔ امسال کا رمضان تہوار نہیں ہو گا۔ نہ سحری باہر ہو سکے گی نہ افطار پر پارٹی ہو گی۔ نہ سموسوں پکوڑوں کے ٹھیلے سجیں گے، نہ کچوریوں اور جلیبیوں کی دکانوں کے باہر ہجوم ہو گا۔ نہ سحری اور افطار کے وقت گیم شوز مین مہمانوں میں تحائف اور گاڑیاں تقسیم کی جائیں گی، نہ مختلف چینلوں میں کسی معصوم بچے کو بلانے پر جھگڑا ہو گا۔

یہاں تک کہ نماز پنج گانہ بھی مسجدوں میں ادا نہیں ہو سکے گی۔ لوگوں کو تراویح گھر میں ادا کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے گا۔ شبینہ کی محافل بھی نہیں سجیں گی۔ یہ سب سننے میں بہت عجیب لگتا ہے، کیوں کہ ہم میں سے کسی نے کبھی ایسا رمضان نہیں دیکھا تھا، ہمیں رمضان کو تہوار کے طور پر منانے کی عادت پڑ چکی ہے۔ مگر شاید یہ جان کر ہمیں تسلی ہو کہ تراویح کی نماز رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی گھر پر بھی پڑھی جاتی تھی۔

بلکہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2012 کے مفہوم کے مطابق عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ (رمضان کی) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چناں چہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔

آپ نے (اس رات بھی) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ (لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔ امابعد! تمھارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائی سے عاجز ہو جاؤ۔

اس کے بعد لوگ اپنے گھروں ہی میں حسب توفیق قیام الیل کرنے لگے۔ آپ کے وصال کے بعد اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے ایک رات مسجد میں مسلمانوں کو اپنی اپنی نماز پڑھتے پایا اور آپ کی سخت نظم وضبط والی طبیعت کو یہ بات گراں گزری، چناں چہ آپ نے حضرت عبی ابن کعب کو امامت کی ذمہ داری سونپ دی اور تراویح بالجماعت رائج کر دی۔

امسال کا رمضان اس حساب سے بھی مختلف ہو گا، کہ مساجد اور مراقبہ مراکز میں اعتکاف کے لئے لوگ نہیں بیٹھ سکیں گے۔ اعتکاف جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب سنت ہے۔ ام الومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرماتے اور آپ کے وصال کے بعد آپ کی ازواج نے اعتکاف جاری رکھا۔ ” (بخاری شریف کی حدیث نمبر 243 باب اعتکاف۔ باب نمبر 33۔ )

اس مرتبہ متمول حضرات مکہ مکرمہ میں آخری عشرہ گزارنے کا موقع تو نہیں پائیں گے مگر جو رقم آپ نے آخری عشرہ خانہ کعبہ کے قرب میں گزارنے کے لئے مختص کی تھی وہ اللہ کی راہ میں دے کر، غریب روزہ داروں کے حقوق ادا کر کے اللہ کا قرب ضرور پا سکتے ہیں۔

بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس سال رمضان میں عید کی خریداری اور کپڑوں کی سلائی بھی نہیں ہو گی۔ آرائش و زیبائش، چاند رات کی گہما گہمی، چوڑیوں اور مہندی کی عارضی دکانیں، دُپٹوں کی رنگائیاں، بچوں کے تحائف اور عید کے نئے جوڑوں کے بغیر عید خارج از امکان نہیں۔ غرض امسال ہر وہ روایت جو وقت کے ساتھ ساتھ رمضان اور عید کے ساتھ لازم ملزوم سمجھی جانے لگی ہے، موجود نہیں ہو گی۔

ہمیں چاہیے کہ خود کو، اہل و عیال کو اور خاص طور پر بچوں کوذہنی طور پر ایک مخلتف رمضان اور مختلف عید کے لئے آمادہ کریں۔ سادگی یوں بھی اللہ کو اور آللہ کے رسول کو پسند ہے۔ یہ وبا اپنے ساتھ بہت سی چیزوں کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دے گی، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود کو اور اپنے بچوں کو ایک طویل لڑائی کے کیے تیار کریں۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ علمائے اسلام موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اجماع کے اہتمام کریں۔

شاید یہ رمضان دوبارہ سے اللہ پاک سے رابطہ بنانے کا موقع لے کر آیا ہو۔ استغفار اور توبہ کا موقع لے کر آیا ہو۔ یاد رکھیں سادگی سے رمضان منانا سنت نبوی ہے، قیام الیل کا گھر پر اہتمام کرنا بھی سنت ہے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ گھر پر افطار بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ حکومت وقت نماز کی مساجد میں ادائی، افطار، تراویح اور عیدین سے متعلق جو بھی فیصلے کرے گی وہ ہماری بھلائی کے لئے ہوں گے۔ اور ہمیں ذمہ دار شہریوں کی طرح اپنی حکومت سے تعاون کرنا ہو گا۔

قرآن کا فرمان ہے کہ ‏ ”جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی“۔ القرآن (5: 23)
اس وقت اپنی اور دوسری کی جان بچانے کے لئے جو سب سے زیادہ کارگر کام کر سکتے ہیں، وہ ہے سماجی فاصلہ برقرار رکھنا اور گھر پر رہنا۔ قرآن کی آیت کے مطابق دوسروں کی جان بچانے کی نیت سے گھر پر رہنا اس وقت بذات خود عبادت ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو رمضان کو اصل روح کے مطابق گزارنے اور رمضان کی برکات سمیٹنے کی توفیق دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments