سماوار: ایران سے آئی کہانی جس سے محبت کی بھاپ اٹھتی ہے


کہانی: ہوشنگ مرادی کرمانی

ترجمہ: عارف بھٹی 

بی بی اور کچھ ہمسائیوں نے پیسے اکٹھے کیے، تا کہ وہ طاہرہ خانم کی بیٹی کے لیے ایک عمدہ اور دیدہ زیب تحفہ خریدیں۔ طاہرہ خانم کی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی۔ ہمیں بھی دعوت پر بلایا گیا تھا۔ یہ اس کا حق تھا کہ اس کے لیے کوئی عمدہ اور مناسب چیز لے کر جائیں۔ بی بی، جس نے ایک عمر گزار کر اپنے بال سفید کیے تھے۔ وہ اپنی ہم سن اور قریبی عورتوں میں آداب دانی، سلیقہ مندی اور تجربہ کاری میں مشہور تھی۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس بات پر مامور کی گئی کہ تحفہ خریدنے سے پہلے، کسی بہانے دُلھن کے گھر جائے اور دھیان کے ساتھ یہ نوٹ کرے اور دیکھے کہ کس چیز کی کمی ہے۔ تا کہ وہی چیز خریدی جائے۔

بی بی نے اپنی چادر اوڑھی۔ وہ شادی والے گھر پہنچی۔ باتوں باتوں میں ہی اندازہ لگا لیا کہ دُلھن کے پاس اگر ایک عدد خوبصورت سماور ہو تو برا نہیں ہے۔ اس وجہ سے بی بی نے اس کام کا بِیڑا اٹھایا اور ہر کسی سے، اس کی گنجائش کے مطابق، پیسے اکٹھے کیے۔ اپنی طرف سے بھی پیسے ڈالے اور ولیمے والے دن کی صبح کوکب خانم اور ان کی بھابھی اکرم خانم کے ساتھ چادر اوڑھی اور بازار پہنچیں۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لیتی گئیں۔

ہم بازار میں پھرتے پھراتے رہے۔ بی بی مشکل پسند تھی۔ اسے کوئی بھی سماور پسند نہیں آ رہا تھا۔ یہاں تک کہ بازار کے آخری کونے میں پہنچ کر سماور فروشوں کی دکانوں میں سے ایک دکان پر، تانبے کا بنا ہوا ایک بڑا سماور، بی بی اور دوسری عورتوں کو پسند آ گیا۔ مجھے بھی وہ سماور واقعی اچھا لگا، حالاں کہ مجھے سماوروں کے بارے زیادہ معلوم نہیں۔ سماور اس طرح گہرے پیلے رنگ کا اور چمک دار تھا کہ اس کا رنگ قرمزی نظر آتا تھا۔ آئینے کے مانند اس میں چہرہ دیکھا جا سکتا تھا۔ لیکن آنکھیں، بھویں اور منہ ٹیڑھا میڑھا اور لمبوترا نظر آتا تھا اور شکل بد لگتی تھی۔

بہرحال، بی بی نے اس بات پر اصرار کرنا شروع کیا کہ لازما اسی کو خریدنا ہے۔ تاکہ دُلھن کے گھر والوں کے یہاں ہماری ناک اونچی ہو اور وہ کہیں کہ ”واہ وا! ان میں کس قدر سلیقہ ہے۔“۔ لیکن پسند آنے والا یہ سماور مہنگا تھا اور اس کی قیمت کے مقابلے میں جمع شدہ رقم تھوڑی تھی۔ بھاؤ تاؤ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن سماور فروش ضد کے گدھے پر سوار تھا اور نیچے اترنے پر راضی نہیں تھا۔ وہ ایک قرآن بھی کم کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔

اللہ بخشے، بی بی کی یہ انوکھی عادت تھی کہ اس کی آنکھوں کو جو چیز پسند آ جائے، وہ اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ ہوتی تھی۔ بہرحال، کوکب خانم کو ایک طرف لے جا کر بولی، ”مجھے یہ سماور پسند آیا ہے۔ یا تو اسی کو خریدنا ہے یا پھر سماور خریدنے کا خیال ہی رہنے دینا چاہیے۔ میں خود اس کی بقیہ رقم دے دوں گی۔ بہتر ہے ایسی چیز خریدیں کہ جب بھی وہ اسے استعمال کریں تو انھیں ہماری یاد آئے اور ہمارے حق میں دعاے خیر کریں۔ یہ ایک یادگار چیز ہو گی“۔

مختصر یہ کہ بی بی نے اس رقم میں جو سب سے اکٹھی کی ہوئی تھی، اس میں اپنی طرف سے کچھ پیسے شامل کیے اور اوپر نیچے سے اچھی طرح دیکھنے بھالنے کے بعد، سماور خرید لیا۔

سماور کو بازار سے گھر لے جانا میرے ذمے ٹھہرا۔ بی بی اور دوسری عورتیں جو اس کی ہم راہ تھیں، انھوں نے اچھی طرح ہدایت کی کہ اس مہنگے سماور کو صحیح و سالم گھر تک پہنچاؤں۔ کچھ ایسا نہ کروں کہ اس کی ٹونٹی اپنے دستے کے ساتھ ٹوٹ جائے۔ کیوں کہ اگر سماور کو کچھ ہوا تو بی بی کو جواب دینا پڑے گا۔ میں نے ان کی باتوں پر آمنا و صدقنا کہا۔ خوب صورت اور بڑے سماور کو اٹھا لیا اور ہر سختی اور زحمت کے ساتھ گھر تک پہنچایا۔

رستے میں بہت تھک گیا تھا۔ بازو، ہاتھ اور کمر درد کرنے لگے تھے۔ لیکن میں نے یہ محسوس نہ ہونے دیا اسے اس طرح اٹھا کر لایا کہ اگر اس کے اندر پانی ہوتا تو وہ بھی چھلک نہ پایا ہوتا۔ بی بی اور دوسری عورتوں کا اس طرف دھیان نہیں تھا۔ وہ آگے آگے چلتی جا رہی تھیں۔ کسی بات پر ہنستی اور تیزی سے باتیں کرتیں جا رہیں تھیں اور میں سماور کو اپنے بازوؤں میں دبوچے ان کے پیچھے پیچھے ہانپتا ہوا آ رہا تھا۔ بہر صورت، سماور پھولوں کے کسی نازک گل دان کی طرح صحیح و سالم گھر پہنچ گیا۔

گھر میں دوسرے لوگوں کی یا بی بی کی ان ہم راہیوں کی جب جب نظر سماور پر پڑتی، بی بی کے سلیقے کی داد دیتیں۔ کوکب خانم نے باقی رقم، جسے بی بی نے اپنے پاس سے دیا تھا، دوسروں سے جمع کی اور اسے دی تا کہ سب کا آپس میں حساب کتاب برابر رہے۔

یہاں تک تمام کام خوش اسلوبی سے طے ہوا کہ کوکب خانم نے کہا، ”مجید! تمھیں اس سماور کو یہاں تک لانے میں بہت زحمت اٹھانا پڑی ہے۔ یہ برا نہیں کہ ایک زحمت اور اٹھاؤ اور اسے ظہر کے بعد، شادی والے گھر تک پہنچا آؤ۔ ہم بھی تمھارے پیچھے پیچھے ہی آتی ہیں“۔

جب یہ بات ان کے منہ سے نکلی تو میں نے فوراً ہمیشہ کہ طرح کا یہ بہانہ بنایا کہ ”مجھے کئی طرح کے کام کرنے ہیں۔ سبق یاد کرنا ہے۔ مشق لکھنی ہے۔ کل امتحان میں بے چارہ نہ ہو جاؤں۔ خدا آپ کی عمر لمبی کرے اگر آپ یہ کام میری گردن سے اٹھا لیں“۔

وہاں بیٹھے سب لوگوں کو میری بات اچھی نہ لگی۔ انھیں اس بات کی توقع نہیں تھی کی میں یوں اس طرح انکار کروں گا۔ بی بی نے کہا، ”کوئی بات نہیں۔ سماور شادی والے گھر پہنچا کر جلدی سے واپس آ کر اپنا سبق پڑھتے رہنا“۔

کوکب خانم نے، جو کہ بہت تیز طرار اور خوش مزاج تھی، شوخی سے کہا، ”میں تو اپنی بیٹی تمھیں دینا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے سست قسم کا داماد نہیں چاہیے“۔

اس جھگڑے کے دوران ہی ان کی بیٹی، جس کی عمر چار سال سے زیادہ نہ رہی ہو گی، رونے لگی اور کہا، ”مجھے مجید نہیں چاہیے“۔

بی بی نے اس بات کو سنجیدہ لے لیا۔ گرجتے ہوئے لڑکی سے کہا، ”مگر میرے بچے مجید میں کون سا عیب ہے“؟
میں نے جب یہ دیکھا کہ بات مجھ میں کون کون سے عیبوں کے ہونے اور نہ ہونے تک پہنچ چکی ہے اور جھگڑا جڑیں پکڑنے لگا ہے تو میں بولا، ”ٹھیک ہے۔ میں سماور لے جاؤں گا۔ آپ جھگڑا مت کریں۔ صرف ایک سائیکل کا بندوبست کریں کہ میں سماور کو اس کے کیریئر پر لاد کر جلدی سے پہنچا آؤں“۔

کوکب خانم نے یہ بات قبول کی کہ اپنے شوہر کی سائیکل مجھے دے گی اور میں سماور لے کر جاؤں گا۔

دن دو بجے کا وقت تھا۔ سماور کو اچھی طرح ایک نئے نکور کپڑے میں گٹھڑی کی طرح باندھ کر اور حسین آغا، کوکب خانم کے شوہر کی سائیکل کے کیریئر پر رکھا۔ سماور کو مضبوطی سے ایک رسی کے ساتھ کیرئیر پر باندھا۔ تاکہ پھسل کر گر نہ جائے۔ بی بی نے سماور کی ٹونٹی کو اتار کر سماور کے اندر رکھ دیا کہ راستے میں ٹوٹے نہیں۔ جیسا کہ سماور کو سلامتی کے ساتھ پہنچانا مقصود تھا۔ اس لیے ہر ممکن کوشش کی گئی، پھر مجھ سے کہا گیا کہ مجھے سائیکل پر سوار ہونے کا حق حاصل نہیں۔ کیوں کہ اس بات کا ڈر ہے کہ میرا دھیان بھٹکنے پر سائیکل کسی گڑھے یا کھڈے میں گرنے سے سماور کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

گلی کا موڑ مڑنے تک، بی بی اور کوکب خانم کی آواز اپنے پیچھے سنتا رہا جو سماور کا خیال رکھنے کا کہہ رہی تھیں۔ میں اسی حالت میں دو تین گلیوں سے ہوتا ہوا سڑک پر پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ یوں پیدل چلنا، ہاتھ میں سائیکل پکڑے، ٹھیک کام نہیں ہے۔ سائیکل کو سماور لانے، لے جانے کے لئے نہیں بنایا گیا ہے۔ بلکہ اسے تو اس لئے بنایا گیا ہے کہ بندہ اس پر سوار ہو، پیڈل مارے اور ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ پہنچے اور اپنے کاموں کو نپٹائے۔

تب میں نے ان کی ہدایتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے، جو کہ ابھی تک میرے اِس کان میں تھیں، کو اُس کان سے نکالا۔ سائیکل کے اوپر چڑھا۔ البتہ احتیاط کے ساتھ کہ سماور کو کوئی خطرہ پیش نہ آئے۔ لیکن میں نے دیکھا کی سائیکل کی کاٹھی اونچی ہے اور میری چھوٹی ٹانگیں پیڈلوں تک نہیں پہنچ پا رہیں تو فوراً نیچے اترا۔ سائیکل کو سڑک کے کنارے پر موجود ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا کیا۔ پتلون کے پانچوں کو لپیٹ کر اونچا کیا، تا کہ نئی پتلون خراب نہ ہو۔ میں نے اچھے کپڑے پہن رکھے تھے اور ڈر تھا کہ خراب ہو جائیں گے۔ اپنے دائیں پاؤں کو سائیکل کے ڈنڈے کے درمیان سے دوسری طرف نکالا۔ کاٹھی اور ڈنڈے کے ساتھ ٹیک لگائی اور قینچی چلاتا ہوا چل پڑا۔

سڑک پتھریلی اور گرد آلود تھی۔ سائیکل اس پر ہچکولے کھاتے ہوئے چل رہی تھی اور کیریئر پر موجود سماور ڈول رہا تھا۔ اس کے اندر پڑی ہوئی ٹونٹی ’کھڑ کھڑاک، کھڑ کھڑاک‘ کی آواز سے بج رہی تھی۔ سماور کی اس سر و صدا کو میں نے کوئی اہمیت نہ دی اور تیر کی سی تیزی سے خود کو شادی والے گھر تک، سماور کو بنا کوئی نقصان پہنچائے، پہنچایا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ بی بی اور اس کے ساتھ آنے والی عورتوں کے بغیر اس گھر کے اندر جانے سے مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے۔

ہمارے درمیان طے ہوا تھا کہ میرے پیچھے پیچھے وہ جلد پہنچیں گی۔ لیکن میں بہت زیادہ جلدی پہنچ گیا تھا۔ میں آدھے گھنٹے تک یا اس سے زیادہ، یوں گلی میں منتظر اور بے کار کھڑا نہیں رہنا چاہتا تھا۔ میں وقت کو اس طرح گزارنا چاہتا تھا کہ وہ سب بھی پہنچ جائیں اور ہم اکٹھے گھر کے اندر جائیں۔ اچانک مجھے خالہ صغریٰ کے گھر جانے کا خیال آیا۔

خالہ صغریٰ کو ایک مدت سے نہیں دیکھا تھا۔ وہ ایک با خدا، مہربان اور تنگ دست عورت تھی۔ مجھے بہت پسند کرتی تھی۔ ہم ایک ہی علاقے کے رہنے والے تھے اور اس نے مجھے شیر خواری میں دودھ بھی پلایا تھا۔ میں نے سنا تھا کہ وہ بیمار ہے۔ تو اس کی عیادت اور احوال پرسی کرنے کے لئے جانے کا خیال برا نہیں تھا۔

مختصر یہ کہ میں نے سائیکل کا ہینڈل موڑا اور سیدھا ان کے گھر کی طرف گیا۔ گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ میں نیچے اترا اور سائیکل سمیت اندر داخل ہوا۔ بے چاری نے دری کو درخت کے نیچے بچھا رکھا تھا اور اس پر لیٹی ہوئی تھی۔ پھر مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور اس کا چہرہ پھول کی طرح کِھل اٹھا۔ وہ اٹھ کر میری جانب بڑھی۔ مجھے گلے سے لگا لیا اور رونا شروع کر دیا۔ وہ شر شر آنسو بہا رہی تھی اور سسکیاں بھر رہی تھی۔

کہہ رہی تھی کہ، ”آج سورج کس طرف سے نکلا ہے کہ تمھیں میری احوال پرسی کا خیال آ گیا؟ تم تو اس قدر بے وفا نہیں تھے۔ تم جانتے ہو میں نے تمھیں کتنا دودھ پلایا ہے۔ تمھارے لیے کتنی زحمتیں اٹھائیں ہیں۔ میری آنکھیں ہر وقت دروازے کی طرف دیکھتی رہتی تھیں کہ تم ایک وقت ضرور آؤ گے۔ خوش آمدید۔ تمھارے آنے سے بہت خوشی ہوئی ہے“۔

اس کے باتوں اور رونے نے مجھے بالکل بے حال کر دیا۔ میری آنکھوں کے کونوں میں آنسو جمع ہو گئے۔ سائیکل کو دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا کیا۔ خالہ صغریٰ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولی، ”آؤ بیٹھو! بتاؤ تا کہ مجھے معلوم ہو کہ تم کہاں تھے۔ کیا کر رہے تھے۔ کون سی کلاس میں ہو“؟

میں نے کمرے میں جا کر ہر چیز کے بارے میں بتانا چاہا۔ میری نگاہ سائیکل پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ دو موٹی تازہ بلیاں سائیکل کے قریب آپس میں بر سر پیکار تھیں۔ ایک دوسرے کے اوپر سے چھلانگیں لگا رہی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ دونوں بلیاں سائیکل ہی نہ گرا دیں۔ دُلھن کے اس سماور کا کوئی نقصان ہی نہ کر دیں اور ہمیں اس وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑے۔ چناں چہ اسی وجہ سے میں نے سماور کے گرد لپٹی رسی کو کھولا۔

سماور کو اٹھایا اور خالہ صغریٰ کے کمرے میں لے آیا۔ تا کہ جاتے وقت اسے ساتھ لے جاؤں گا۔ خالہ صغریٰ کی نظر جب سماور پر پڑی تو وہ میرے قریب آئی۔ مجھے گلے لگایا، چوما، رونے لگی اور کہا، ”تم کس قدر اچھے اور مہربان ہو۔ کتنی زحمت اٹھائی ہے۔ مجھے تو تم سے کوئی توقع نہیں تھی۔ اور پھر اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے کہا، کیا توقع نہیں رکھنی چاہیے؟ ہاں۔ توقع ہے۔ آخر تمھیں دودھ پلایا ہے۔ تمھیں بڑا کیا ہے۔ ضروری ہے کہ تم سے توقع رکھوں۔ خدا تمھیں زندگی دے مجید کہ تمھیں میرا خیال آیا“۔

میں نے چند بار یہ کہنے کی کوشش کی کہ ”خالہ صغریٰ! یہ تمھارے لیے نہیں ہے۔ لیکن یہ کہہ نہیں پایا۔ میری زبان کو جیسے تالا لگ گیا ہو۔ صرف التجا انگیز نگاہوں سے ہی دیکھ سکا۔ اپنے آپ سے کہا، “ آہستہ آہستہ بتاؤں گا۔ فوراً بتانا ٹھیک نہیں رہے گا”۔

خالہ صغریٰ سماور کے پاس پہنچی ہوئی تھی۔ اس کے اوپر لپٹے کپڑے کی گٹھڑی کی گرہیں کھولتے ہوئے کہا، ”تمھیں معلوم تھا کہ میرے پاس سماور نہیں ہے۔ تبھی میرے لیے لائے ہو؟ آج کچھ دنوں سے کیتلی والی چائے پی رہی ہوں۔ میرے پاس ایک سماور ہے کہ اب بالکل خراب اور بے قیمت ہو چکا ہے۔ چند بار ٹھیک کروانے کے لئے دیا ہے۔ لیکن اب بھی اس کی ٹونٹی سے پانی ٹپکتا ہے۔ “ پھر، چہرہ آسمان کی طرف کر کے کہا، ”اے خدا! تو کس قدر مہربان ہے۔ پچھلی رات ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ اک نورانی بزرگ ایک سبز چادر اوڑھے میرے گھر تشریف لائے اور ایک پوٹلی مجھے عنایت کی۔ خوب۔ میرے خواب کی تعبیر ہو گئی ہے“۔

میں وہیں بنا پلکیں جھپکائے خالہ صغریٰ کو، کہ خوشی سے اس کے پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے، دیکھ رہا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ چند بار یہ خیال ذہن میں آیا کہ آگے بڑھ کر خالہ کا ہاتھ پکڑوں۔ ہر چیز صاف صاف اسے بتاؤں اور خود کو پر سکون کروں۔ لیکن مجھے اس کی جرأت نہ ہوئی۔ صرف زبان کو اپنے ہونٹوں پر پھیرا اور مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔ خالہ صغریٰ نے سماور کو اٹھایا اور کمرے کے درمیان رکھ کر اسے اچھی طرح دیکھنے لگی۔

پھر کہا، ”ماشاءاللہ! کتنا عمدہ سلیقہ ہے۔ میرے خیال میں اس سماور کی خریداری ضرور بی بی نے ہی کی ہو گی۔ اوہ ہاں! تمھاری بی بی کیسی پے؟ ٹھیک ہے؟ اس نے یہ بڑی زحمت کی ہے“۔ وہ بے چاری انتہائی خوشی کی حالت میں اپنے حواس کھو بیٹھی تھی۔ احوال پرسی اور باتیں کر رہی تھی۔ پھر سماور کو اچھی طرح سے دیکھنے کے بعد بولی، ”ابھی۔ اسی سماور میں جسے تم لائے ہو ایک عمدہ اور خوش بو دار چائے بناتی ہوں۔ ہم اکٹھے پئیں گے“۔ وہ سماور کا ڈھکن اٹھانے ہی والی تھی کہ میں نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے بے آواز ہنسی کے ساتھ کہا، ”اچھا۔ تم خود سماور میں پانی اور آگ ڈالنا چاہتے ہو؟ ٹھیک ہے۔ خود ہی یہ زحمت کر لو۔ تمھارے ان مہربان ہاتھوں پر قربان“۔

اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کانپتے ہاتھوں، گنگ زبان، اور کلبلاتے دل کے ساتھ میں اٹھ کر یہ کام کرنے لگا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، ”چائے پیتے وقت، دھیرے دھیرے یہ قصہ سناؤں گا اور تمام بات بتا دوں گا۔ “ خالہ صغریٰ پچھلے کمرے کی طرف گئی۔ ایک پلیٹ میں دو خشک کیے ہوئے انار اور کچھ اخروٹ لا کر میرے سامنے رکھے اور کہا، ”لوگ کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کے بعد تمھارا اب کوئی نہیں رہا۔ کہاں گئے ہیں وہ؟ آ کر دیکھیں کہ تم میرے لیے سماور لے کر آئے ہو۔ میری احوال پرسی کرنے آئے ہو“۔

میرے اندر شور سا اٹھنے لگا۔ ذہن میں اس وقت صرف بی بی اور اس کے ہم راہ آنے والی عورتوں اور دُلھن کا خیال تھا۔ میرا انتظار کر رہی تھیں۔ انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ سماور کہ ساتھ کیا بیتی ہے۔

سماور میں پانی کے ابلنے کی آواز آنے لگی۔ میں مجسمے کے مانند آلتی پالتی مارے ساکت بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ سماور ابل رہا تھا اور بے تاب ہو رہا تھا۔ اس کا وجود لرز رہا تھا۔ گرم بھاپ اس کے سوراخوں سے اور دھواں اس کے دھوں کش سے باہر نکل رہا تھا۔ میرا حال بھی اسی کے جیسا ہو رہا تھا۔ ویسا ہی بے تاب ہو رہا تھا۔ کانپ رہا تھا اور میری پیشانی گرم ہو چکی تھی۔ بہت دل چاہا کہ میری زبان بولنے لگ پڑے تا کہ دل کی بات بتا دوں۔ لیکن اس چیز کا امکان کہاں تھا۔ مجھ سے یہ کام نہ ہو پایا۔

خالہ صغریٰ نے ایک چٹکی چائے ایک کیتلی میں ڈالی۔ اس میں سماور کی ٹونٹی سے گرم پانی ڈالا اور اسے دم دینے کے لیے سماور کے اوپر رکھ کر کہا، ”مجید تم اناروں کو کھاؤ میں ابھی آتی ہوں“۔

میں نے کہا، ”خالہ صغریٰ! آپ کو خبر ملی ہے کہ طاہرہ خانم کی بیٹی کی شادی ہے۔ بی بی جانا چاہتی ہے۔ آپ ولیمے میں نہیں جا رہیں؟ کاش جاتیں۔ اگر جانا ہوا تو ان کے لیے ایک سماور لے جانا“۔ یہاں تک بات کرتے ہی میری جان ہونٹوں تک آ گئی۔ اب مزید کچھ کہہ پانا ممکن نہیں تھا۔ خالہ صغریٰ جو کہ اب اٹھ کر اپنے جوتے پہن رہی تھی بولی، ”مجھے انھوں نے دعوت نہیں دی۔ خیر کوئی بات نہیں۔ اب تم آ گئے ہو تو وہاں کیا کام“؟ وہ صحن میں پہنچی۔ دیوار سے اپنی ہمسائی کو آواز دے کر کہا، ”آؤ چاے پیئیں۔ مجید آیا ہے۔ وہی جس کے بارے میں تمھیں بتایا تھا کہ اسے دودھ پلایا ہے اور بڑا کیا ہے۔ میرے لیے سماور لے کر آیا ہے جو بے مثال ہے۔ رب اسے صحت اور لمبی عمر دے“۔

بات مکمل ہونے تک عورتیں چائے پینے اور مجھے دیکھنے کے لئے آن پہنچیں۔ خالہ صغریٰ کی ان ہمسائیوں کے آ جانے سے میرا کام اور بھی مشکل ہو گیا۔ خالہ صغریٰ بھی چپ نہ رہی بلکہ انھیں میرے بارے میں بتانے لگی۔ میں ہمسائیوں کی تحسین آمیز نگاہوں اور خالہ صغریٰ کی طرف سے کیے گئے اپنے تعارف کے دوران میں درماندہ اور پریشان بیٹھا تھا۔ میرا چاے پینا بھی دیکھنے لائق تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بی بی کی دی ہوئی کوئی تلخ دوا پی رہا ہوں۔

منہ لٹکائے چائے کو بمشکل نگل رہا تھا۔ اپنے چہرے کو دُلھن کے اس چمک دار اور خوب صورت سماور میں دیکھا کہ جس میں چہرہ بہت بدصورت لگ رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب بی بی کس حال میں ہو گی اور کیا کر رہی ہو گی۔ اپنے ساتھ بیٹھی دوسری عورتوں کے سوالوں کے جواب کس طرح دے پا رہی ہو۔ شاید وہاں اس تقریب سے باہر نکل کر مجھے ڈھونڈ رہی ہو۔ کتنی غلطی کر بیٹھا ہوں کہ سماور کے ساتھ خالہ صغریٰ کے ہاں آ گیا۔ اچانک میں اٹھا اور آدھی پی ہوئی چائے کی پیالی کو ایک طرف کیا اور کہا، ”خدا حافظ! میں جا رہا ہوں۔ خاصی دیر ہو گئی ہے“۔

خالہ صغریٰ نے گٹھڑی والے کپڑے کو تہہ کیا اور اس میں تھوڑی قند ڈال کر مجھے پکڑایا اور کہا کہ شام تک یہیں ٹھہروں۔

میں نے کہا، ”بس اجازت دیں۔ ٹھہرنا ممکن نہیں ہے۔ بس آپ سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو سماور مجھے دیں۔ یہ سماور اچھا نہیں ہے۔ اس میں پانی دیر سے گرم ہوتا ہے۔ میں اس سے زیادہ بڑا اور خوب صورت سماور آپ کے لیے لاؤں گا۔ یہ سماور آپ کے قابل نہیں“۔

خالہ صغریٰ آگے بڑھی۔ مجھے گلے لگایا۔ اس کی آنکھیں لب ریز تھیں۔ کہا، ”یہ کیا بات کہہ رہے ہو مجید؟ یہ سماور تو بہت اچھا ہے۔ اس سے بہتر تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ تم کس قدر مہربان اور سادہ ہو۔ یہ سماور میرے لیے بہتر سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اپنی بی بی کو میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ: بہت زحمت کی۔ سماور عمدہ ہے۔ خالہ صغریٰ نے پسند کیا اور بہت خوش تھی۔ یہ بنات تبرک والا ہے۔ وہ اسے کھائے۔ اسے کے پاؤں کے درد کے لئے اچھا ہے۔ ٹھیک ہے اب جاؤ۔ جلدی جلدی جانا تاکہ بی بی پریشان نہ ہو“۔

خالہ صغریٰ کے گھر سے نکل کر باہر آیا تو میں پریشان حال اور شکستہ دل تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہنسوں کیا روؤں۔ اتفاق سے میں خوش بھی تھا اور غم گین بھی۔ خوشی اس بات کی تھی کہ خالہ صغریٰ کو ایک عمدہ اور خوب صورت سماور مل گیا ہے اور غم گینی اس بات کی کہ بی بی ایک مشکل میں پڑ گئی ہے اس کی عزت خاک میں مل گئی ہے۔

میں بھی خالی ہاتھ دُلھن والوں کے گھر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اچانک ذہن میں ایک خیال آیا۔ میں نے فوراً ایک ٹانگ سائیکل کے فریم سے دوسری طرف نکالی اور گھر پہنچا۔ گھر کا دروازہ بند تھا۔ ہر ممکن کوشش کر کے گھر کا دروازہ کھولا۔ اندر آیا۔ مجھے معلوم تھا کہ بی بی کمرے کی چابی گملے میں رکھتی ہے۔ چابی اٹھائی۔ کمرے کا دروازہ کھولا۔ نبات کو ایک پیالے میں رکھا اور بی بی کے پرانے سماور کو اٹھایا۔ گٹھڑی میں باندھا۔ اسے سائیکل کے کیریئر پر لاد کر رسی کے ساتھ اچھی طرح باندھا۔ دروازہ بند کیا اور تیزی سے شادی والے گھر پہنچا۔

جیسا کہ میں نے پیشن گوئی کی تھی، بی بی بے قرار تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد مڑ کر یہ دیکھتی کہ میں ابھی پہنچا کہ ابھی پہنچا۔ پانچ دروازوں والے بڑے کمرے میں، وہ کچھ عورتوں اور مردوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی۔ دُلھن اور اس کی ماں کمرے ایک طرف براجمان تھے۔ بی بی کی نظر جب مجھ پر پڑی اور یہ دیکھا کہ میں سماور اٹھائے آیا ہوں۔ خوشی سے تھوڑا اٹھی۔ لیکن پھر فوراً ہی بیٹھ گئی۔ مجھے اشارہ کیا کہ میں سماور کو دُلھن کے سامنے رکھوں۔

میں نے چند بار آنکھوں اور ابرو کے ساتھ اشارہ کیا کہ ذرا باہر آئے کہ اس سے ایک کام ہے۔ لیکن وہ نہ آئی۔ میں نے گٹھڑی میں لپٹے سماور کو سب کی آنکھوں کے سامنے، دُلھن کے سامنے لا کر رکھا اور چوہے کے مانند کمرے کے دروازے سے باہر نکل کر صحن میں پہنچا کہ وہاں سے دیکھوں کی اس قضیے کا اگلا مرحلہ کیا ہوتا ہے اور وہ کس انجام سے دوچار ہوتا ہے۔

بی بی وہیں بیٹھی تھی۔ اس نے ہنس کر کہا، ”ہم نے ایک دوسرے کی مدد سے دُلھن خانم کے لیے ایک عمدہ چیز لے کر آئے ہیں۔ ان شا اللہ پسند آئے گی“۔ پھر اٹھ کر سماور کے پاس پہنچی۔ میں نے اس کے چہرے پر تعجب کے آثار دیکھے۔ گٹھڑی میں لپٹا سماور اس کی آنکھوں کو چھوٹا چھوٹا لگا۔ وہ گرہیں کھول رہی تھی۔ میں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا۔ میری حالت چڑیا کے اس بچے کے مانند ہو رہی تھی جو بارش میں بھیگا ہوا پریشان کھڑا ہو۔ میں دل میں خدا خدا کرتے ہوئے کہنے لگا، ”اللہ کرے بی بی رک جائے“۔

بہرحال، بی بی نے پہلی گرہ کھولی تو وہاں بیٹھی خلقت تالیاں بجانے اور ہلہلہ کرنے لگی۔ بی بی بہت خوش تھی۔ کوکب خانم اور ان کی ہم راہیوں کا بھی یہی حال تھا۔ وہ سب خوشی سے مسکرا رہی تھیں۔ لیکن جیسے ہی دوسری گرہ کھلی تو نازیبا، کالا کلوٹا، گندا اور پرانا سماور برآمد ہوا۔ بی بی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور خلقت کے تالیاں بجاتے اور ہلہلہ کرتے ہاتھ تھم گئے۔ بی بی خود کو سماور کے پاس بیٹھنے سے نہ روک پائی۔ اس کا جھریوں بھرا چہرہ اس صدمے سے پسینا پسینا ہو رہا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھ لیا۔

دُلھن کی ماں نے کہا، ”بہت بہت شکریہ بی بی۔ آپ نے بہت زحمت کی۔ آپ سے اس کی توقع بالکل نہیں تھی“۔
میں بید کی طرح لرز رہا تھا۔ میں مہمانوں کے چہروں کی طرف دیکھنے لگا اور اپنے ہونٹوں کو کاٹنے لگا۔ کوکب خانم نے کہا، ”جو سماور ہم نے خریدا تھا وہ کہاں ہے“؟

بی بی نہیں جانتی تھی کہ کیا کہے۔ اپنے ہاتھوں کو فرش پر رکھ کر اوپر اٹھی۔ اس کا رنگ زعفران کی طرح پیلا ہو چکا تھا۔ اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں تھی۔ میں چاہتا تھا کہ آگے بڑھ کر اسے اٹھنے میں مدد دوں۔ لیکن اس نے بہت مشکل سے میرے پہنچے سے پہلے ہی خود کو کھڑا کیا۔ صحن میں پہنچی۔ اس کی نگاہیں مجھے ڈھونڈ رہی تھیں۔ جب مجھے دیکھا تو اس سے کچھ بولا نہ جا سکا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ کہاں سے شروع کرے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

حوض کے پاس لے گیا تا کہ اپنے چہرے پر تھوڑا پانی ڈالے اور حالت کچھ بہتر ہو۔ چہرہ دھونے کے بعد میں اسے ایک طرف لے گیا۔ وہ سیڑھیوں پر بیٹھی۔ خالہ صغریٰ کے گھر جانے کا سارا قصہ سنایا اور کہا، ”ابھی کہ تمھاری عزت نہیں رہی۔ خالہ صغریٰ کے سامنے میری عزت بنے رہنے دینا۔ کاش تم وہاں ہوتی اور اس کی خوشی کو دیکھتی۔ میں خود رقم جمع کروں گا اور سماور کے پیسے دوں گا۔ ناراض مت ہو“۔ پھر اس کے ہاتھ کو ملنے لگا۔

بی بی ایک معاملہ فہم اور جہاں دیدہ عورت تھی۔ میری بات سننے کے بعد اٹھی اور کوکب خانم کو آواز دی۔ ادھر صحن میں ہی بی بی نے خوشی خوشی ساری بات کوکب خانم کے گوش گزار کی۔ پھر کوکب خانم جو کہ بی بی سے بھی زیادہ زبان دار تھی، یہ داستان دُلھن، دُلھن کی ماں اور وہاں بیٹھی باقی خلقت کو بھی سنائی۔ انھوں نے جب سنا کہ خوب صورت اور قیمتی سماور خالہ صغریٰ کی اچھی قسمت سے اس کا ہو گیا ہے تو انھوں سے صرف نظر کیا اور خوب ہنسے۔

اُس کالے کلوٹے سماور کو واپس گھر لے کر جانا، بی بی نے میرے ذمے لگایا۔ اور پھر اسی طرح بازار جانا، نیا سماور خریدنا، خرید کر گھر لانا اور پھر دُلھن خانم کے گھر لے کر جانا۔ مختصر یہ کہ دو تین روز تک میرا کام سماور کشی یعنی سماوروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈھونا رہا۔ لیکن ہر جگہ بی بی اور ہم سائیاں اس بات کا خیال رکھتیں اور ان کا دھیان اسی طرف رہتا کہ میں راستے میں کوئی غلطی نہ کروں، نہ کسی سے بات کروں اور نہ ہی کسی کی عیادت کروں تا کہ سماور ٹھیک اپنے مطلوبہ مالک تک ہی پہنچے۔

۔۔۔۔۔۔

ہوشنگ مرادی کرمانی کا تعلق ایران سے ہے۔ وہ بچوں کے مقبول ادیب ہیں۔ ان کی کتابوں پر کئی مشہور فلمیں اور ٹی وی سیریز بنائے جا چکے ہیں۔ یہ کہانی ان کے ایک مقبول کردار ”مجید“ کے بارے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments