ریٹنگ کے بھوکے


حسیب خان

\"haseeb\"صحافت ایک بااعتماد اور پر وقار شعبہ ہے جس کو ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ ریاست کا اہم جزو ہونے کے ناطے اس ادارے پر کچھ فرائض ہیں جس پر عمل پیرا ہونا اس شعبہ پر ہر صورت لازم ہے۔ پاکستان میں صحافتی تاریخ تو بہت پرانی ہے مگر اس میں جدت گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ آتی گئی اخبارات، رسائل، جریدوں اور ریڈیو سے بات نکل کر ٹی وی سکرینوں تک جا پہنچی۔ اس بات کو کہنے میں مجھے قطعاً کوئی عار محسوس نہیں ہو گی کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں صحافتی آزادی پرویز مشرف صاحب نے تحفہ میں دی جنہوں نے اپنے دور میں نیوز چینلز کو ایسے لائسنسز دئیے جیسے کوئی مفت میں ٹافیاں بانٹتا ہے۔ آزاد صحافت کا نعرہ تو لگا دیا مگر شاید اپنی آمرانہ سوچ کو وہ بدل نہ سکے اور پھر اس پر ضرب لگانے کی کوشش بھی کی مگر کامیاب نہ ہو سکے یوں میڈیا کی آزادی ایک انقلاب بن کر ابھری جو کہ آج تک اپنے آپ میں ایک انقلاب ہی بنی ہوئی ہے۔ ویسے تو صحافت کی اگر تعریف کی جائے تو کسی بھی معاملے کو اس پر تحقیق کے بعد صوتی،بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر پہنچانے کے عمل کا نام ہے اور اس عمل کے کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں یعنی کہ عوام کو با خبر رکھنے کا اصل نام صحافت ہے۔ اس لئے ایک صحافی کو نہایت ہی ذمہ دار اور فرض شناس ہونا چاہئے مگر آج کے دور میں آزادی صحافت کے نام پر ہم نے خبر کا معیار اس قدر گرا دیا ہے کہ عوام اس شعبہ سے بد ظن ہوتے جا رہے ہیں۔ صحافی اپنا معیار اور صحافت اپنا نام بدنام کرتی جارہی ہے اور ریاست کا چوتھا ستون کمزور ہوتا جارہا ہے کیونکہ اب کسی نے اس کو بدمعاش کا نام دے دیا ہے، کسی نے اس کو کاروبار اور کچھ نے تو ڈرامے باز بھی کہنا شروع کر دیا ہے۔ اس میں کہنے والے کا قصور نہیں بلکہ کرنے والے کا قصور ہے کیونکہ بریکنگ نیوز کے چکر میں کسی سیاسی لیڈر کا کتا بھی مر جائے تو سرخ کیوب میں خبر چلا دی جاتی ہے اور چیخ چیخ کر بتایا جاتا ہے کہ پالتو وفادار کتا مر گیا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ خبر کے معیار کی جگہ اب صرف اور صرف ریٹنگ نے لے لی ہے۔ نمبر ون کی دوڑ نے صحافتی معیار کو کہیں مسل کر رکھ دیا ہے اور خبر کے نام پر عوام کو عجیب کشمکش میں مبتلا رکھتے ہیں۔ کچھ چینلز دیکھ کر تو ایسے گمان ہوتا کہ قیامت آگئی ہے اب کوئی نہیں بچے گا۔۔۔ اگر گھر سے باہر نکلے تو زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ ماضی میں ایک نیوز چینل کے رپورٹر نے صرف اپنی رپورٹ بنانے کے لئے ایک خاتون کے کپڑوں پر تیل پھینکوا کر آگ لگوائی اور بعد میں کیمرے سے منظر کشی کرتا رہا۔ تماشائی تماشا دیکھتے رہے اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اسی طرح کچھ ہفتے پہلے ایک نجی علاقائی نیوز چینل کی اینکر کو ایک ایف سی کے اہلکار نے طمانچہ دے مارا۔ اس بیچارے کم تعلیم یافتہ ایف سی اہلکار کو تو سب نے برا بھلا کہا لیکن کسی نے اس خاتون اینکر کی حرکات و سکنات کو اس طرح تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جتنی وہ مستحق تھی۔ ایک خاتون اینکر کو اس سیکیورٹی گارڈ سے الجھنے کی کیا ضرورت تھی جب کہ وہ ان سے بات ہی نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ میڈم نے ان کو ان کے گھر میں بیٹھی ماں بہن کی یاد دلائی، وردی کھینچی اور ساتھ ہی رد عمل آیا طمانچہ۔ کہنے کا مقصد یہ کہ کیا صحافی کا کوئی ضابطہ اخلاق نہیں جس پر عمل پیرا ہو کر اس کو اپنے فرائض سر انجام دینے ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی ضابطہ اخلاق نہ ہو مگر اگر کوئی ضابطہ اخلاق ہے تو وہ کہاں ہے؟ آج کل کہیں نظر کیوں نہیں آ رہا؟ یا ضابطہ اخلاق بھی ریٹنگ کی نذر ہو گیا ہے۔ نیوز چینلز نے عوام کو صرف سیاسی باتوں میں الجھائے رکھا ہے جس سے چھوٹے سے بڑے تک سب سیاسی بن گئے ہیں۔ کہیں گو نواز گو کی آواز ہے تو کہیں رو عمران رو کی۔۔ کہیں بھی غریب کے بچے کی رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی۔۔ نواز شریف سے یہ سوال تو کیا جاتا ہے کہ عمران کی پالیسی پر آپ کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا مگر کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ فلاں شہر میں ایک غریب نے بھوک سے خودکشی کی اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یا غربت کو ختم کرنے کے لئے آپ کی کیا حکمت عملی ہے؟ عمران خان صاحب کہ کسی شہر میں ناشتے اور کھانے کا انتظام تو دکھایا جاتا ہے لیکن اس شہر میں موجود غریب جو روٹی کی بھیک مانگ رہا ہوتا اس کو نہیں دکھایا جاتا۔ گڈانی میں بیس مزدور آگ سے جھلس کے مر جاتے ہیں اور ایک سو تیس کے لگ بھگ کا پتہ نہیں کہ زندہ ہیں یا مر گئے اور کسی کو اس کی پرواہ نہیں، سب عمران خان کے دھرنے یا جلسے کے پیچھے پڑے رہے۔ کراچی میں ٹرینوں کی ٹکر ہوتی ہے اور مسافر ریسکیو کے انتظار میں بوگیوں میں ٹھنسے ہوئے چیخ چیخ کر جانیں دے دیتے ہیں اور صحافی مائیک لے کر ان کے روتے، مدد کے لئے پکارتے رشتہ داروں کے منہ میں گھسانے کے در پے ہوتے ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ میڈیا صرف سیاستدانوں کی نمائندگی کے لئے ہی رہ گیا ہے کہیں پر دو سیاستدان بٹھا کر ایک عجیب تماشہ لگایا ہوتا ہے تو کہیں پر ان کو لڑوانے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔ اگر یہ سب نہیں تو سیاسی پنڈت شیخ رشید صاحب کے ساتھ انٹرویو کیا جاتا ہے۔

غرض عوام کو انہی باتوں میں الجھایا ہوا ہے مگر اب عوام بھی کافی با شعور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے ردعمل کا اظہار شروع کر دیا ہے اور لفافہ صحافی، زرد صحافی جیسے بہت سے ناموں سے پکارنا شروع کر دیا ہے۔ کچھ صحافیوں میں اور پنجاب پولیس میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا دونوں کا مشن صرف ایک ہی نظر آتا ہے اوپر کی کمائی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب سرمایہ دارانہ نظام آچکا ہے جس نے اس شعبہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اب خبر عوام کی خدمت کے لئے نہیں دی جاتی کہ عوام کو با خبر رکھا جائے بلکہ ریٹنگ کے لئے دی جاتی ہے ریٹنگ آئے گی تو کمرشل آئے گا جتنا گراف اونچا اتنا اشتہار اونچا اور پیسہ زیادہ۔ ایسا کرنے سے پیسہ تو کما لیا جائے گا مگر شعبہ کی عزت اور وقار کہیں دولت میں گم ہو جائے گا اور ایک بار کھویا ہو ا مقام با آسانی واپس حاصل نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا کافی کچھ بہتر کیا جا سکتا ہے اور جو اپنی ٹی وی سکرینوں پر ہر وقت ہم قیامت کا منظر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس پر قابو پایا جا سکتا ہے تاکہ اس ستون کو گرنے سے بچایا جا سکے کیونکہ نقصان سب اٹھائیں گے۔ شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافیوں سے گزارش ہے کہ ان عناصر سے نبرد آزما ہونے کے لئے کوئی مضبوط و مستحکم پالیسی بنائی جائے تاکہ پھر کسی کو فیلڈ میں تھپڑ نہ کھانا پڑے یا کسی کو ریٹنگ کے لئے کسی کی جان نہ گنوانی پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments