یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے


(مکرم نیاز)

\"mukarram-niyaz\"

اس واقعے کے راوی راقم الحروف کے والد محترم ہیں۔ سقوط حیدرآباد کے بعد علاقے کے مشہور ہائی اس کول کا منیجمنٹ بھی تبدیل ہوا اور اگلے سال جب 15 اگست کا دن آیا تو ”یوم آزادی ہند“ کی تقریب میں پرچم کشائی کے لیے کرتا پاجامہ شیروانی جیسے مخصوص حیدرآبادی یونیفارم میں ملبوس سارے طلبا کو اسمبلی ہال میں جمع کیا گیا اور پرنسپل نے اعلان کیا کہ پرچم کشائی کے بعد قومی ترانہ ہند پڑھا جائے گا اور تمام طلبا پرچم کو سلام کریں گے۔ پرنسپل کے اعلان کے فوری بعد دینیات کے استاذ مولوی کمال الدین اٹھ کھڑے ہوئے اور پرنسپل کے سامنے مائک پر جا کر اپنی بلند آہنگ آواز میں کہا، ’مسلمان طلبا پرچم کو سلام کرنے سے مستثنیٰ ہیں‘

وہ محض ایک آواز نہیں تھی اور نہ عالمی یا ملکی سطح کی کوئی نام ور دینی علمی سماجی شخصیت تھی بلکہ وہ ایک متقی پرہیزگار، باکردار اور شریعت کے پابند ایک معمر مسلمان کا مضبوط اور پررعب لہجہ تھا کہ جس کے آگے غیر مسلم پرنسپل کو بھی تائید میں سر ہلانے کے کچھ اور نہ سوجھا۔

زائد از نصف صدی بعد آج جب ہم ”وندے ماترم“ کے مسئلے پر اپنے والد محترم سے دریافت کرتے ہیں کہ ”اتنے سارے ہنگامے اٹھانے کے بجائے کوئی ایک ایسی آواز سارے ملک میں کیوں نہیں گونجتی کہ مسلمان اس سے مستثنیٰ ہیں؟ اور اس آواز کی تائید میں سارے برادران وطن خاموشی سے سر ہلا دیں؟“

تو جواب ملتا ہے کہ اس کا جواب تم خود اپنے آپ سے پوچھو۔

پچاس سال قبل کی کیا بات کی جائے۔ ابھی دس پندرہ سال پہلے کے اور آج کے معاشرے میں ڈیجیٹل انفارمیشن ٹکنالوجی اور ڈش انٹینا کلچر کا جو انقلاب ہم دیکھ رہے ہیں، اس سے کچھ نہ کچھ تو نگاہوں کے سامنے ضرور واضح ہو رہا ہے۔ زہد و تقویٰ تو زرا دور کی بات ہے، ایک عام مسلمان کو مخلوط معاشرے میں بقا کے لیے جس رہنمائی کی ضرورت لاحق ہے اس فریضہ کا حق ادا کرنے کے لیے دانشورانِ امت کے کتنے نام ہمیں یاد ہیں؟ جس طبقے سے ہر سادہ لوح و سادہ دل مسلمان کی امیدیں وابستہ تھیں، اس نے دانشوری کے نام پر وہ وہ گل کھلائے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ اختلاف الرائے کے نام پر اس نے فریق مخالف کو دائرہ اسلام سے باہر کر دینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

شاید یہی سبب ہو کہ نام ور قلم کار اور سماجی مصلح علیم خان فلکی اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں۔

”سارے مذاہب و مسالک اس بات پر متفق ہیں کہ حقوق العباد اور کردار اسلام کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ کاش ایسا ہوتا کہ کوئی جماعت ’جماعت امانت دار‘ کہلاتی اور کوئی جماعت ’اہل سچ‘ کہلاتی۔ کسی جماعت کے ارکان کی پہچان ایماندار تاجروں سے ہوتی تو کوئی ’اہل تقویٰ‘ ہوتی۔ امانت یا عہد کی پابندی کا ذکر ہوتا تو لوگ کہتے کہ فلاں جماعت اس وصف کی حامل ہے۔ آج ایسا کہیں بھی سننے میں نہیں آتا کہ فلاں عقیدے کے لوگ عورتوں پر کبھی ظلم نہیں کرتے یا فلاں جماعت کے لوگ بالکل غیبت نہیں کرتے اور انصاف قائم کرنے میں مثالی ہیں۔ اوصاف حمیدہ، حقوق العباد یا کردار آج کسی جماعت کا تشخص نہیں رہا بلکہ اکثریت کا تشخص فقہی، صوفی، سلفی، شدتی، دہشتی، نیم دینی، نیم سیاسی بن گیا ہے۔ اپنے اپنے طریقۂ واردات کو اجاگر کرنے کے لیے مسجدوں کے مخصوص ٹائیٹل کے ساتھ ساتھ لوگوں نے پسندیدہ مخصوص نعرے بھی منتخب کر لیے ہیں جیسے۔ ’توحید‘، ’دعوتِ حق‘، ’دین کی محبت‘، ’اقامتِ دین‘، ’سپاہ علی‘، ’سپاہ صحابہ‘، ’سپاہ اولیا‘، غلامانِ فلاں اور غلامانِ فدائیان وغیرہ۔ مولویوں اور ملاؤں نے عوام کی غفلت، جہالت اور اندھی عقیدت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اپنے اپنے مزاج پر دین کا اسٹامپ لگایا اور اپنے اطراف جم غفیر جمع کرنے کے لیے، اسلام کو قائم کیے جانے والے موضوعات کو نظرانداز کر کے ایسے موضوعات پر علمی موشگافیاں کرنے لگے جن سے زیادہ سے زیادہ انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔

دوسروں پر انگلی اٹھانے سے زرا پہلے اگر ہر فرد خود ہی اپنے گریبان میں جھانک لے کہ سلف الصالحین کی تعلیمات کی نشر و اشاعت، تبلیغ و عمل کا دعویٰ کرنے والوں نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران آخر کون سا قابل تحسین کارنامہ انجام دیا ہے کہ امت میں اتحاد کا جذبہ پیدا ہوا ہو یا پھر وہ قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کی سمت واپس لوٹ آئی ہو؟ تقلید و پیشوائیت کا جو شکوہ غیروں سے عموماً کیا جاتا ہے، کیا اس فہرست میں ہر مسلک کے اسمائے گرامی نمایاں نظر نہیں آتے؟

انفارمیشن ٹکنالوجی کے عروج اور سوشل نیٹ ورکنگ کے پھیلاؤ نے غالباً ہمارے رہنماؤں کی سوچ و سمجھ کو معطل کر کے رکھ دیا ہے۔ اپنی سیٹ کو بچانے یا اپنی روزی روٹی کے خیال سے دانشوری کی ایک ایسی نئی تعریف متعین کی گئی ہے جس کے تانے بانے یا تو عصر حاضر کے سیاست دانوں سے جا ملتے ہیں یا پھر انھی مقلد مذہبی پیشوائیان سے جن کو ہمہ دم جوتی کی نوک پر رکھا جانا ضروری متصور کیا جاتا رہا ہے۔

فروعی مسائل ہوں یا تقابل مسالک کا معاملہ یا اپنے مسلک یا طبقہ کی شناخت۔ ان کا یکسر انکار ممکن نہیں مگر سوال یہ ہے کہ دین میں ”ترجیحات“ کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ جب ہر جانب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ امت اور معاشرے میں مسلسل تنزلی، انتشار و افتراق ہے اور اس امت بچاری نے اتحاد و اتفاق کی آس میں دگرگوں حالت بنا رکھی ہے، اس کے ازالے کے لیے اس طبقے کے پاس، وہ کون سی راہ عمل ہے جو دیگر طبقات سے ما بہ الامتیاز مانی جائے؟

کچھ انٹرنیٹ کے حوالے سے ہی گفتگو ہو جائے کہ ہماری معلومات کے مطابق نوجوان طبقہ اس میدان کا کچھ زیادہ ہی اسیر ہے۔ زرا یوٹیوب سرچ کر کے دیکھ لیتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کوئی ایسا مناظرہ نہیں جہاں فلاں فلاں جماعت کے علماء نے ناکامی کا منہ دیکھا ہو۔ کوئی ایسا مکالمہ موجود نہیں جہاں نامی گرامی مقلد یا غیرمقلد ہستیوں کو شکست فاش نہ دی گئی ہو۔ ایک صاحب نے کبھی کہا تھا کہ عربی میں تو بہت تھیں اب اردو میں بھی ایسی ویب سائیٹس کی باڑھ نکل آئی ہے، جن کا بصد اصرار دعویٰ ہے کہ وہ دین اسلام کی حقیقی خدمت کے لیے سامنے آئے ہیں اور حق کی تعلیمات عوام الناس تک پہنچانا چاہتے ہیں مگر اصلاً ہو یہی رہا ہے کہ جن تعلیماتِ اسلامی کی آج امت کو ضرورت ہے، اس کے بجائے تقابل مسالک اور اختلافی موضوعات پر منحصر کتب کا ایک جم غفیر سادہ لوح عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

ہمیں صاحب موصوف کی اس بات سے لاکھ اختلاف سہی مگر اس کڑوی حقیقت کا اظہار شاید اس معمولی واقعے سے بھی ہو جو راقم الحروف کے علم میں آیا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے تقابل مسالک پر مبنی کتب کا تازہ بہ تازہ مطالعہ شروع کیا تھا۔ تبلیغی جماعت کے خلاف تحریر کردہ ایک مشہور کتاب کے مطالعے سے جب وہ فارغ ہوئے تو انہیں ایسا لگا جیسے اب تک تو وہ علماء کی ”اصل کارگزاریوں“ سے ناواقف تھے اور اب انھیں صحیح معنوں میں مقام و درجے کا علم ہوا ہے۔ لہذا جب اپنے کزن کے ہاں تھانوی ترجمہ قرآن دیکھا اور شروع کے چند صفحات پر تعویذ سے متعلق تفصیلات بھی لکھی دیکھیں تو پہلا کام یہ کیا کہ وہ کاغذات پھاڑ ڈالے اور بھائی و بھاوج کو سامنے بٹھا کر مترجم قرآن کی ”علمی حیثیت“ پر جو زبان درازی شروع کی تو پھر مسلمانی کے نچلے درجے تک بے چارے مترجم علیہ الرحمۃ کو گھسیٹتے چلے گئے۔ کوئی تو ان سے پوچھتا کہ کیا انہیں کشف ہوا تھا کہ ترجمہ قرآن میں متذکرہ اوراق مترجم نے بصد اصرار خود پبلشر سے کہہ کر شامل کرائے تھے؟ آخر ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے حسن ظن کی تلقین دین میں کی گئی ہے کہ نہیں؟ اور وہ جو خطبہ حجۃ الوداع میں ’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘، ’ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت کا احترام‘ جیسے احکامات بیان ہوئے ہیں کیا وہ غیروں کے لیے ہیں؟ نتیجہ تو ظاہر ہے کہ وہی نکلا کہ آج ان کی بات سننا تو دور کا معاملہ، ان کے کزن کے گھر کے دروازے ہی جناب موصوف پر بند ہیں۔

دراصل ہوا یہ ہے کہ جب انفارمیشن ٹکنالوجی کا جادو چل گیا اور عام آدمی کے ہاتھ معلومات کا ایسا جادوئی چراغ آ گیا کہ انگلی کی ایک زرا سی جنبش پر وکی پیڈیا [wikipedia] اور گوگل [google] کے جن نے اس کے سامنے اچھی بری صحیح غلط تحقیق کے انبار لگانے شروع کر دیئے تب شاید رہ نما طبقے کو احساس ہوا کہ یہ بوتل سے نکلا جن تو انہیں لے ڈوبے گا اور عوام اب چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے نہ ان کے پاس آئیں گے اور نہ انہیں خاطر میں لائیں گے۔ گو کہ یہ تصور ہی غلط تھا اور اگر عوام ایسا قدم اٹھاتے تو وہ بھی غلط ہوتا کیوں کہ کسی ”لائیبریری“ میں اور ایک عالم دین میں بہرحال زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن کیا کیا جائے دانشوری کی اس پخ کو جس نے اچھے اچھوں کو زمینی صورت احوال کا اندازہ لگائے بغیر گدلے سمندر میں ڈبکی لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔

لہذا دانشوری کی ایک نئی تعریف یہ ایجاد کی گئی کہ اپنے طبقے کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ سلف الصالحین کی تعلیمات کی تحریک و رجحان کو علاحدہ و انفرادی مسلک کے طور پر اور اپنے تفوق اور برتری کے ثبوت میں دیگر مسالک سے اپنے اختلافات کو سنگین سے سنگین تر بنا کر پیش کیا جائے اور اس کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے تحقیقی مقالے سامنے لائے گئے کہ اگر آدمی فلاں فلاں لیبل نہ لگائے تو گویا وہ مومن و متبع نہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ تقلید کے خلاف ہزاروں لاکھوں صفحات سیاہ کیے گئے ہیں مگر جب بات خود پر آئی اور پوچھا گیا کہ کہاں ہادی مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ”لیبل“ کی تاکید کی تھی اور کہاں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تقویٰ کا معیار عمل کے بجائے ”مسلکی شناخت“ کو قرار دیا ہے تو جھٹ سے ثبوت میں احادیث صحیحہ کے بجائے اقوال رجال پیش کر دیئے گئے اور اجماع کا دعویٰ ٹھونک دیا گیا۔ ایک زمانے میں ایک خاص جماعت کے متعلق سنا اور پڑھا جاتا تھا کہ اس کے اعلیٰ حضرت نے اپنے معتقدین کو دانستہ یا نادانستہ شخصیت پرستی اور غلوِ عقیدت میں اس قدر مبتلا کر دیا ہے کہ ان بے چاروں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو گئی ہے۔ کیا بعینہ یہی صورت احوال بلاتفریق مذہب و مسلک آج کی تمام جماعتوں میں محسوس نہیں کی جا رہی؟

حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے مولانا مودودی علیہ الرحمۃ کی مشہور زمانہ متنازع کتاب کے خلاف تحریر کردہ اپنی تحقیقی کتاب میں ایک چشم کشا واقعہ ایک مقام پر کچھ یوں لکھا تھا کہ ایک دفعہ دور دراز سے ایک حکیم صاحب مولانا مودودی سے ملاقات کے لیے آئے اور کہا کہ : آپ کی کتاب ”خلافت و ملوکیت“ پڑھنے کا جو اثر مجھ پر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ میں نے اب معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو ”رضی اللہ عنہ“ کہنا چھوڑ دیا ہے۔

حافظ صاحب نے برسوں پہلے یہ قصہ سنایا تھا، ہم بصد احترام و خلوص مودبانہ طور سے ان سے عرض کرنا چاہیں گے کہ حضور! جماعت اسلامی کے عظیم رہ نما کی وہ عظیم غلطی تھی مگر آپ بھی زرا چند لمحے فرصت کے نکالیے، انٹرنیٹ کی سیر کیجیے اور دیکھیے کہ خود آپ ہی کے اپنے طبقے نے سیکڑوں بلکہ ہزارہا کتب یا تراجم کتب کے ذریعے آج کی نوجوان نسل کی کس طرح ذہنی آب یاری کر رکھی ہے کہ بقول علیم خان فلکی کے ”انا الحق کے نشے میں چور، اپنے علم اور عقیدے پر مغرور ضدی، ہٹ دھرم اور شدت پسند مولویوں نے دین کی اپنی خودساختہ تعبیر اختیار کی اور ان معصوم، کم عقل، کم پڑھے لکھے اور جذباتی لوگوں کو ورغلایا اور ان کے ذہن میں یہ بات راسخ کر کے چھوڑی کہ جو بھی عالم دین ان کے مسلک سے اتفاق نہ کرے، ان پر نہ صرف تنقید کی جا سکتی ہے بلکہ ان پر لعن طعن کرتے ہوئے انہیں نشانۂ ملامت بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ’‘

اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ بے شمار سادہ دل لوگ بالخصوص نوجوان انھی شدت پسند مولویوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان بے چاروں کو نہ عربی آتی ہے، نہ سلیقے کی اردو اور جو قرآن و حدیث بھی بمشکل پڑھ سکتے ہیں۔ اگر پڑھتے بھی ہیں تو کبھی اس کا ترجمہ نہیں پڑھتے۔ یا پھر ترجمہ پڑھتے ہیں تو احکامات کی اصل حکمت و تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ انھوں نے خطبہ حجۃ الوداع بھی کئی بار پڑھا ہوگا لیکن اس کا نفاذ کب، کیسے، کہاں اور کس پر ہوتا ہے، انھوں نے یہ کبھی نہیں سوچا ہوگا، چوں کہ یہ جذبۂ ایمانی سے سرشار ہوتے ہیں لہذا تنگ نظر متعصب ملاؤں کی صحبت میں چند مخصوص آیات، احادیث، قصے کہانیاں اور غیرمنطقی دلائل رٹ لیتے ہیں اور اسلام کی اصل تعلیمات کی تبلیغ کرنے کے بجائے اپنے مسلک اور اپنے علما کے سیلزمین یا ایڈوکیٹ بن کر ان کی تشہیر کرنے نکل جاتے ہیں۔ اب آگے چل کر ان کی جسارت کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ امام ابو حنیفہ (رحمۃ اللہ علیہ) یا امام شافعی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فلاں جگہ غلطی کی ہے اور امام احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ علیہ) یا امام مالک (رحمۃ اللہ علیہ) نے فلاں جگہ غلطی کی ہے کہہ دینے میں زرا بھی نہیں جھجھکتے۔ ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے ان عظیم علماء کے خلاف ’بغض و عناد‘ علانیہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔

یہاں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) اور علمائے عظام کا تقابل مقصود نہیں بلکہ اس سوال کو اجاگر کرنا مقصد ہے کہ سلف الصالحین کی تعلیمات کی ترویج و فروغ کی آڑ میں امت کو قرآن و سنت کی طرف واپس بلایا جا رہا ہے یا انتشار بین المسلمین کی راہ ہم وار کی جا رہی ہے؟

ہم انفارمیشن ٹکنالوجی سے استفادہ کے قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آج سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے اپنے نظریاتی مخالفین سے ڈائیلاگ یعنی مکالمہ نہایت ضروری امر ہے۔ لیکن خدارا اپنی خود ساختہ دانشوری کو ایک طرف رکھ کر وہ اصول تو اپنائیے جس کے متعلق فرمان نبوی ہے کہ ’‘حسن الخلق أثقل فی المیزان یوم القیامة۔ (روز قیامت میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی شئے نہ ہوگی)۔

آپ کا یہ کیسا مکالمہ یہ کیسا مناظرہ ہے کہ مخاطب قائل ہونے کے بجائے گھائل ہوتا ہے اور پھر کبھی نہ تو آپ اور نہ ہی آپ کے کسی ہم مسلک داعی کی جانب پلٹ آنے کو راضی ہوتا ہے۔ چلیے یہ بھی نہ سہی کہ تحمل، صبر و برداشت، رواداری اور انکساری جیسے رویوں کی کمی کے باعث آپ کو عصر حاضر کے مکالمے (حالاں کہ اسے ”نبوی مکالمہ“ کہنا درست ہوگا) کے اصول و ضوابط پر قائم رہنا مشکل بلکہ ناممکن لگتا ہے۔ تو پھر ایسی صورت میں وہ کردار یا وہ تقویٰ ہی اپنے اندر کیوں کر پیدا نہیں کیا جاتا کہ اگر بدعات و خرافات کے خلاف آپ بس ایک جملہ یوں کہہ دیں کہ ’‘مسلمان ان فضولیات سے مستثنیٰ ہے‘‘ تو ہر مسلک، ہر طبقہ اور ہر گروہ جماعت کا عامی آپ کے کردار اور تقویٰ کے پیش نظر آپ کی بات کو سر جھکا کر سن لے، قبول کر لے۔

اچھا ہوا کہ آج مفکر ملت علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) حیات نہیں ورنہ ”تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو“ کہنے کے بجائے سوچتے کہ تقلید، رفع یدین، آمین بالجہر، بیس رکعات تراویح، نماز وتر۔ جیسے سلسلے تو صدیوں سے جاری ساری ہیں مگر۔

؎ یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments