کرونا جنگ میں حکومت شہباز شریف کی تجاویز پر عمل پیرا


سیماب صفت شہباز شریف کرونا کو پچھاڑنے، شکست دینے کے لئے میدان میں ہیں وہ لندن سے بلا خوف و خطر لاہور پہنچ کر قرنطینہ سے وڈیو لنک کے ذریعے رابطے کر رہے ہیں۔ ان کی تمام تجاویز قبول ہو چکی ہیں۔

نون لیگ کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے کورونا کی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کی بہت اچھی تجاویز دی تھیں، لیکن برا ہو سیاست کا جس نے دلوں کو لاک ڈاون کر دیا ہے، کہ اچھی تجاویز بھی سیاسی نفرتوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔

عمران خان نے وزارت عظمی کے منصب پر بیٹھ کر مولا علی کے فرمان عالی شان پر عمل کر دکھایا ہے کہ یہ مت دیکھ کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔ شہبازشریف کی پیش کردہ پر تمام تجاویز پر عمل ہو رہا ہے

حکومت نے نواز شریف کے بھائی اور اپنے سیاسی حریف کی بجائے، متحرک اور منتظم کے عملی تجربے سے استفادہ کر کے نئی مثال قائم کی ہے

کاش اے کاش جناب شہباز شریف بھی اس مشکل گھڑی میں مبینہ طور پر سوئٹزر لینڈ سے پاناما تک پاکستان کی چھپائی جانے والی دولت رضا کارانہ طور پر وطن عزیز میں واپس لانے کا اعلان کر دیتے تو ”دیوتا سمان“ بن جاتے اور عظمت ان پر ٹوٹ کر برستی۔ میدان سیاست میں دور دور تک ان کا کوئی حریف نہ رہتا۔

ویسے شہباز شریف نے اپنی ذاتی نگرانی میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کے تحفظ کے لئے چاروں صوبوں اور ریاست آزاد جموں و کشمیر بشمول گلگت بلتستان

(Personal Protective Equipment (PPE
حفاظتی لباس سمیت بھجوائی ہیں جس کی عدم دست یابی کی وجہ سے دو ڈاکٹر اور ایک نرس شہید ہو چکے ہیں۔

شہباز شریف کی کرونا کے خلاف جنگ اور متحرک کردار بارے میں توجہ محترمہ مریم اورنگ زیب نے دلوائی تھی۔ مدتوں بعد ان کی کال آئی اور شہباز شریف کی خدمات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ سچی بات یہ ہے یہ کالم نگار مریم اورنگ زیب کی بحثیت وزیر اطلاعات خدمات اور فہم وفراست سے بہت متاثر ہوا اور ذاتی طور پر ممنون اس لئے ہوں، الاستاذ پروفیسر عرفان صدیقی کی جرم بے گناہی میں اڈیالہ جیل سے رہائی کے موقع پر جب ساری لیگی قیادت کسی نامعلوم اشارے پر ”دائیں بائیں“ ہو گئی تھی، تو محترمہ مریم اورنگ زیب میرے آدھے پیغام پر اس کالم نگار سے پہلے اڈیالہ جیل کے باہر کھڑی تھیں۔

برادر مکرم پرویز رشید نے ابھی گزشتہ ماہ تازہ ترین ایک ایسی عنایت کی ہے، جس کی مدد سے اپنے وسیع و عریض خاندان میں در آنے والی پیچیدگیوں سے صاف بچ نکلا ہوں۔ جہاں تک مشتاق منہاس وزیر اطلاعات آزاد ریاست جموں و کشمیر کا تعلق یے، 80ء کی دہائی سے شروع ہونے والے سفر کو اب چار دہائیاں ہونے کو آئیں۔ دانشور تجزیہ نگار اور سابق اینکر مشتاق منہاس اب سیاستدان اور حکمران ہیں۔ یہ میڈیا ٹاون انھی کی عنایت ہے۔ ان کا صاحب زادہ ایان یوسف راجپوت میرا دست راست اور میڈیا ٹاؤن کے انتظامی امور کی نگرانی کرنے والی ٹیم 22 کا کمانڈر ہے۔

ان سب رشتے ناتوں کے باوجود اس کالم نگار کو مسلم لیگ نون کا کٹر مخالف گردانا جاتا ہے کہ شریف خاندان کی سیاست کو براہ راست بھگتا ہے۔

لندن سے واپسی کے بعد 22 مارچ سے شہبازشریف نے مسلسل مشاورت کا آغاز کیا۔ یہ اس لحاظ سے اچھا کام ہے کہ حالات میں متعلق شعبہ جات کی مشاورت خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا انھوں نے حکومت کی ذمہ داری اپوزیشن کے مورچے میں بیٹھ کر نباہی ہے۔ مشاورت کرنا، تجاویز اور آرا جمع کرنا، یہ در اصل حکومت کا کام ہوتا ہے۔ کسی ہنگامی یا قوم کی زندگی و موت کا معاملہ ہو تو حکومت اور اپوزیشن کی تقسیم مٹ جاتی ہے۔

1965ء کی جنگ، 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب میں قوم نے جس اجتماعی ایثار کا مظاہرہ کیا تھا، اسے ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔ بالخصوص زلزلے کی قیامت صغری میں عوام کا جذبہ دیدنی تھا۔ جنرل مشرف کی حکومت ہونے کے باوجود اس وقت ہم نے ایک وجود ہو کر اپنے بھائیوں، بہنوں کی مدد کی اور دنیا نے قومی جذبے کی اس خوش بو کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کی پذیرائی بھی کی۔ آج بھی ہم اس کی مثال دیتے ہیں۔ آج بھی یہی جذبہ درکار ہے۔

شہباز شریف نے لندن سے واپسی کے بعد تجاویز کا پورا دفتر مرتب کیا ہے۔ اچھا ہوا کہ حکومت نے ان تجاویز کا ٹھنڈے اور کھلے دل و دماغ سے جائزہ لے کر قابل عمل تجاویز پر عمل درآمد کر کے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا۔

شریف خاندان اور ان کی طرز سیاست کا شدید ناقد ہونے کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے، شہباز شریف نے بر وقت خطرات کی نشان دہی کی اور ان کا کہا وقت کے ساتھ ساتھ صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ انھوں نے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد میثاق معیشت کی ادھوری تجویز پیش کی تھی، جس میں پاناما میں چھپائی جانے والی کالی دولت کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لئے اس تجویز پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔

ڈینگی وبا پر شہباز شریف نے وقت ضائع کیے بغیر سری لنکا سے ماہرین کو بلوا کر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے۔ بر وقت فیصلوں نے پنجاب سے ڈینگی وبا کو بھگانے اور عوام کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

شہباز شریف نے کورونا کے لئے چین سے فوری رابطے اور ان سے تکنیکی اور دیگر امور پر رہنمائی کی تجویز پیش کی۔ دو ہفتے ہوتے ہیں پاک فوج اور چین کی سرخ فوج کے درمیان مشاروت کا آغاز ہوا، کاش یہ اقدام پہلے ہو جاتا تو ’لاک ڈاون ہونا ہے یا نہیں‘ کی بحث و تکرار میں وقت ضائع نہ ہوتا۔

بے پناہ متحرک شہباز شریف نے مارچ کے آغاز میں دہائی دینا شروع کر دی تھی کہ چین سمیت دنیا بھر سے وینٹیلیٹرز اور ضروری سامان منگوایا جائے۔ انھوں نے قومی سطح پر طبی ماہرین کی ٹاسک فورس اور وفاق اور صوبوں میں مشاورت کے لئے قومی فورم کی تشکیل پر بھی زور دیا۔

شہبازشریف نے مشاورت سے قومی حکمت عملی وضع کی جس میں قومی سطح پر آگاہی مہم شروع کرنے کی مثبت سفارش کی گئی تھی۔ عوام کو آگاہ کرنے کے لئے قومی زبان اردو، مقامی اور علاقائی زبانوں میں پیغامات چلانے پر زور دیا تھا۔ علاقائی میڈیا کی مدد لینے کی سفارش کی تھی۔

شہباز شریف نے یونین کونسل کی سطح تک اسٹیڈیم، شادی ہال، ہوٹل اور ایسی ہی دیگر نجی و سرکاری عمارات کو قرنطینہ مراکز بنانے کی تجویز دی۔ وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ عام اسپتالوں سے کورونا کے مریضوں کو الگ رکھیں، ورنہ ہر اسپتال کورونا کے مریضوں سے بھر جائے گا اور ہمارے پاس اس صورت حال سے نمٹنے کا کوئی حل موجود نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر، نرسیں اور طبی عملے کی تنخواہ کورونا کی وبا کے دوران میں دُگنا کرنے کی تجویز بھی انتہائی مناسب ہے۔

یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے عوام کو گھر کے اندر ہی راشن پہنچانے کی تجویز پر محکمہ ڈاک اور میٹر ریڈروں کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ٹیلی فون نمبر یا موبائل ایپلی کیشن سے عوام رابطہ کر کے ادویات اور خوراک تک رسائی حاصل کر سکیں۔ شہباز شریف کے خیال میں سبسڈی کو یوٹیلیٹی اسٹوروں کے ذریعے عوام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس طرح خوراک اور ادویات بھی سستی ہو جائیں گی اور عوام کا گھروں سے باہر آنے کا مسئلہ بھی خاصی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔ شہبازشریف کا یہ کہنا بجا طورپر درست ہے کہ اگر بجلی اور گیس کے بل گھروں میں کورونا کے دوران میں بھی پا بندی سے پہنچ رہے ہیں تو یہ عملہ گھر گھر خوراک بھی پہنچا سکتا ہے۔

یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ گھروں، دکانوں اور کاروباری مراکز کے کرائے، بنکوں کے اصل زر اور اس پر سود کی اقساط، بجلی گیس کے بلوں کی وصولی کو موخر کیا جا سکتا ہے۔ وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے تین ماہ بجلی گیس کے بل جمع نہ کرانے کا بیان تو جاری کیا۔

ساری دنیا کورونا کے آگے بے بس ہوکر رہ گئی ہے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کو موت کے سامنے نا چار چھوڑ دیا گیا ہے۔ بڑی بڑی حکومتیں، وسائل اور سائنس سبھی کورونا کے آگے پانی بھرتی نظر آتی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ اس وقت عالمی سطح پر تعاون کے دور دور تک آثار دکھائی نہیں دیتے۔ عقل کے ان اندھوں کو کون بتائے کہ قوم ہو گی تو ملک بھی ہو گا، لوگ ہوں گے تو ووٹ بنک بھی ہو گا۔ لوگ ہی نہ ہوئے تو کون سا ووٹ اور کون سا بنک؟

شہباز شریف کو سراہنا چاہیے کہ انھوں نے اچھی تجاویز دیں۔ اب تک ان کی تجاویز پر خاصی حد تک عمل ہوا ہے۔ وہ فخر کر سکتے ہیں کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی انھوں نے اچھی تجاویز سے حکومت کی رہنمائی کی۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کی آج ضرورت ہے۔ عمران خان کو بھی سمجھنا ہو گا کہ وہ اس وقت قوم کی جان ومال کے امانت دار کے منصب پر فائز ہیں۔ وہ یہ نہ دیکھیں کہ شہبازشریف نے کہا ہے، انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا کہا گیا ہے۔ دانائی اور دانش مندی کی بات پر عمل کرنے سے کہنے والے کی نہیں عمل کرنے والے کی بہتری ہوتی ہے۔ کرونا جنگ میں شہباز شریف کی پرواز جاری ہے۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments