مسائل کا حل سوچنا چاہیے


کچھ دن پہلے کی بات ہے ایک لڑکی جاب کے سلسلے میں کاؤنسلنگ لیتے ہوئے مجھے کہتی ہے کہ ٹیکس ایبل انکم سے تو میرے گورنمنٹ والے بینیفٹس کم ہوجائیں گے۔ اور پھر مجھے ٹیکس بھی ادا کرنا پڑے گا۔ میرے ذہن میں بہت پرانا فارمولا کلک کیا کہ ہمیشہ اپنے وسائل کو بڑھانے کا سوچنا چائئے نا کہ ایسے بینیفٹس لئے جائیں جس کے لئے ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے۔ گورنمنٹ کب تک ایسی سہولیات دیتی ہے اور پھر اگر کسی میں یہ قابلیت ہے کہ وہ اپنے وسائل اور آمدنی کو بڑھا سکے تو گورنمنٹ کے بینیفٹس کی امید لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ہم گورنمنٹ پر سے اپنا بوجھ کم کر دیں گے تو یہی سہولیات کسی ضرورتمند کے کام آسکیں گی۔ لیکن ہم کبھی اس پیرائے پر سوچتے ہی نہیں۔

ہمیں ساری سہولیات صرف اپنے تصرف میں چاہئیں۔ یہ سائیکل بہت پیچیدہ ہے اسے نہ کوئی سمجھتا ہے اور نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ ہمارا عمومی رویہ ہے جہاں زیادہ فائدہ ملے اور جہاں زیادہ سے زیادہ وہ سہولیات ہوں جن کے لئے ہمیں کچھ بھی نہ کرنا پڑے وہی کام بیسٹ ہے۔ جیسے فلاحی ریاستوں میں لوگ اس چیز کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لوگ اپنی انکم کم دکھا کر ٹیکس سے بچ جاتے ہیں اور اس طرح ہر طرح سے فلاحی بینفٹس اور سہولیات ان کو بآسانی میسر ہوتی ہیں

اور جو بیچارے انکم چھپا نہیں سکتے تو پھر وہ ہر طرح سے پِس رہے ہوتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل نے ایک لیکچر میں لوگوں کو یہ مسئلہ سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ مگر ہم اخلاقیات اورمذہب بھی صرف اتنا اپناتے ہیں جتنا بس ہمیں چائئے ہوتا ہے باقی سب پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔

بات نکلی تو دوسرے پیرائے میں ہی چل پڑی۔ حالانکہ آج کا موضوع مسائل کا حل تھا۔ ہر روز ہمارے سامنے مسائل کا انبار کھڑا ہوتاہے اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے۔ آج کل خصوصاً جو صورتحال ہے ہر کوئی گھر پہ ہے۔ بیماری کا خوف الگ اور مالی وسائل کی تنگی کا خوف الگ۔ جو کام کررہے ہیں اس کام کے ساتھ اس کام سے متعلقہ لوگوں کے مسائل کو بھی سننا پڑتا ہے اور انسانی ہمدردی اور جاب کا تقاضا پورا کرتے ہوئے ایک دوسرے سے انتہائی ہمدرددانہ اور مثبت گفتگو کرنی پڑتی ہے اور چاہیے بھی کیونکہ یہ وقت ہی ایسا ہے ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کا اور ساتھ لے کے چلنے کا بس پانچ فٹ کے فاصلے سے۔

ایسے میں بھی بہت سے لوگ اپنی ازلی منفیت پھیلارہے ہوتے ہیں۔ ایک دوست سے بات کی کافی دن بعد۔ پتہ چلا کہ اسے ڈپریشن ہورہا پے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ چونکہ اس کے شوہر میڈیکل فیلڈ میں کام کرتے ہیں ہسپتال میں ہوتے ہیں تو اس کی سارے جاننے والی فیملیز کی خواتین اسے فون کرکے ہمدردی جتارہی ہیں اور یہ بھی باور کرارہی ہیں کہ تمھارا شوہر تو ہائی رسک ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا ہے تو تمھیارے پورے خاندان کو کرونا کا بہت خطرہ ہے۔ وہ شوہر کو اب ہسپتال میں کام کرنے سے تو روک نہیں سکتی مگر خود پریشان رہ رہ کے ڈپریشن کا شکارہورہی ہے۔

اسے بہت ساری تسلیاں دیں۔ کتنے ہی مثبت پہلوؤں پر بات ہوئی تو اس کی طبیعت تھوڑی بہتر ہوئی
ادھر یہ عالم کہ جس کمپنی کی ساتھ میں خود کام کرتی ہوں دوہفتے سے اتنی کینسلیشنز آرہی ہیں کہ کام کرتے ہوئے میری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے یہ سوچ سوچ کہ آخر کمپنی کا بنے گا کیا۔ ہر طرف خوف اور پریشانی ہے ایسے میں کوفت اور بیزاری بھی انتہا کو پہنچنے لگتی ہے۔

اس ساری صورتحال سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے ہمیں اس وقت اس چیز پہ سوچنا چاہئئے۔ سارا وقت سوشل میڈیا پہ کھانوں کی تصویریں دیکھ کے دل بہت چاہتا ہے کہ یہ ساری ڈشز بنائی جائیں پر کبھی وقت نہیں ملتا اور کبھی بیزاری آڑے آجاتی۔

کوشش کرنی چاہیے کہ کچھ واک یا ایکسر سائز ہوسکے تاکہ جسم چست رہے اور فریش بھی۔ بچوں کو ساتھ لے کر نماز پڑھی جائے، ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مسائل ڈسکس کیے جائیں۔ ہم لوگ لانگ ڈرائیو پر تھے کہ بچوں کے فیورٹ عالم کا لیکچر فیس بک پر لائیو ہوا تو بچوں نے بڑے شوق سے نہ صرف سنا بلکہ سوالات بھی کیے اور انھیں اپنے سوالوں کے جواب بھی ملے۔ ٹاپک بھی جانوروں سے ہمدردی کا تھا ہمارے عالم اس ٹاپک پر بہت کم بولتے ہیں لیکن بچوں کو چونکہ جانوروں سے پیار ہوتاہے سو ان کی دلچسبی بڑھ گئی۔

مذہبی مسائل میں ہم ہمیشہ قیامت کے ہونے کے حوالے سے اور جنت میں جانے کے پیشِ نظر سب کچھ کرتے پائے جاتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ عام انسان کے پاس نیکی صرف مذہب کا حصہ ہے۔ نیکی فطرت میں شامل نظر نہیں آتی۔ جہاں پر پرندے کے انڈے واپس کرنے کے لئے نبی صلی اللہ وسلم نے اپنے صحابی سے کہا تو یہ کہا کہ پرندے کو بہت تکلیف ہوئی ہوگی آپ انڈے پرندے کو واپس کیجئے جو آپ نے چرائے ہیں۔ وہاں یہ بیان نہیں تھا کہ قیامت کو پرندہ اپنے انڈوں کا حساب لینے آئے گا۔ جب کہ ہمیں مذہب محض قیامت کے پیرائے میں پڑھایا جاتاہے۔ اور زندگی اور زندہ انسانوں کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دلائی جاتی کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔

مذہب زندگی گزارنے کے لئے لائحہ حیات ہے۔ قیامت سے پہلے کی زندگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی اپنی دوڑ میں بھاگے جارہا ہے۔ مسائل وہیں کھڑے ہیں۔ دورہ قرآن شروع ہوچکے ہیں بہت ساری جگہوں پر آن لائن۔ جو لوگ بھی فری ہیں اپنے مسلک کے حوالے سے جوائن کیجئے۔ بچے بھی آج کل گھر ہیں اونچی آواز میں لگاکے گھر کے باقی کام کیے جاسکتے ہیں۔ سیکھنے کاموقع بھی ملے گا بہت کچھ۔ ڈپریشن اور بیزاریت میں سکون بھی۔

سو ان دنوں میں خود کو مثبت رکھنا اور مثبت ایٹویٹیز کرنا بہت ضروری ہے۔ دوسروں کے لئے سکون اور آشتی کا باعث بنئے جن لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے جیسے بھی آپ کرسکیں ضرور کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments