کورونا موت سے قبل بھوک سے بچائیں!



کرونا وائرس سے پوری دنیا میں انسانی بحران کا خدشہ سر اٹھا رہا ہے، اس خدشے کو ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں ممکنہ بیروزگاری اور بھوک نے مزید بڑھا دیا ہے۔ کرونا سے نجات کے لئے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن جاری ہے، ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو کرونا سے ایک جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظروزیراعظم عمران خان نے عالمی مالیاتی اداروں اور اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں اور انہیں قرضوں میں ریلیف دیں، کیو نکہ ترقی پذیر ملکوں کو فکر ہے کہ کہیں ان کی غریب عوام کرونا سے بچنے کے بعد بھوک سے نہ مرجائیں۔

ترقی یافتہ ممالک تو ایسے معاشی بحران برداشت کرسکتے ہیں، مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو سنگین معاشی بحرانوں کا سامنا ہے۔ لاک ڈاؤن سے گھروں میں موجود لوگوں کو خوراک سمیت دیگر ضروریات کی قلت درپیش ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے نشاندہی کی ہے کہ امریکہ، برطانیہ، جاپان اور جرمنی جیسے امیر ممالک نے بڑی رقوم لوگوں کو معاشی مشکلات سے بچانے کے لئے مختص کی ہیں، جبکہ پاکستان محض 8 ارب ڈالر جاری کرسکا، جس سے 22 کروڑ لوگوں کی ایک حد تک ہی مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔ پاکستان جیسے دیگر بھی کئی ترقی پذیر ممالک ایسی ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کے ریاستی امور چلانے کا کافی حد تک انحصار عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر ہے، اس لیے عالمی اداروں کو ترقی پذیر ممالک کے مسائل پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم نے عالمی اداروں کے سامنے مقدمہ تو پاکستان کا پیش کیا، لیکن وکالت تمام ترقی پذیر ملکوں کی کی ہے۔ پاکستان پر پچھلے سال دسمبر تک 41 ٹریلین روپے کا غیر ملکی قرضہ واجب الادا تھا، جو ملک کے جی ڈی پی کا 94 فیصد بنتا ہے، گویا ملک کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ کورونا وائرس یہاں دیر سے پھیلنا شروع ہوا، مگر حکومتی اقدامات کے باوجود اس کی رفتار کم نہیں ہوئی ہے، ملک بھر میں متاثرین کی تعداد روز بڑھ رہی ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہے، حکومت اربوں روپے وبا، بیروزگاری اور کاروباربند ہونے سے متاثر ہونے والوں کی مدد کے لئے تقسیم کر رہی ہے، ابھی تک عالمی بینک 20 کروڑ ڈالر امداد دے چکا ہے جو ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اقوام متحدہ سمیت دیگرعالمی اداروں کو وزیراعظم کی اپیل کا مثبت جواب دیتے ہوئے اپنے قرضوں میں پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے لئے ریلیف فراہم کرنی چاہیے، تاکہ اس وبا کے اثرات کا مل کرموثرمقابلہ کیا جاسکے۔

کورونا وائرس دنیا عا لم کا مشترکہ مسئلہ بن چکا ہے، اس سے نمٹنے کے لئے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسی کردار کو واضح کیا ہے، اس حوالے سے پوپ فرانسس نے بھی ایسٹر پر پیغام میں کہا ہے کہ یہ ہمارے انسانی خاندان کا امتحان ہے، انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ اگر غریب ممالک کے قرضوں کو معاف نہیں کر جاسکتا تو کم کیے جائیں۔ عالمی برادری بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو انسانیت کی بقاء کے لئے غیرمعمولی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

کرونا وائرس شدید خطرات کی صورت میں دنیا کے سروں پر منڈلا رہا ہے، اس سے بہرصورت جلد یا بدیر نجات حاصل ہو ہی جائے گی، مگر اس کے تدارک کے لئے کیے گئے اقدامات اور انتظامات لاک ڈاؤن اس کی ایک شکل ہے۔ اس کے باعث ترقی پذیر ممالک میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، بھوک و افلاس سے لوگ مرنے لگیں گے، امن و امان کا مسئلہ درپیش ہوگا، لاقانونیت اور دہشت گردی سر اٹھا سکتی ہے، جس کے کسی نہ کی صورت اثرات ترقی یافتہ ممالک پر بھی مرتب ہوں گے، اس خطرناک صورت حال سے بچنے کے لئے ترقی یافتہ ممالک اور عالمی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

وزیر اعظم کا عالمی برادری سے اپیل کر نا درست اور بر وقت سہی، لیکن اس حقیقت کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ ملکی صورت حال حکومتی بلندوبانگ دعوؤں سے یکسر مختلف ہے۔ حکومتی سطح پر شعبہ صحت کے حوالے سے عدم تو جہی منظر عام پر آنا انتہائی الارمنگ ہے۔ کوروناوائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کوٹ نے نہ صرف ڈاکٹر ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کا کہا، بلکہ چیف جسٹس گلزار نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے، وزیروں ا ور مشیروں کی فوج ظفر موج پال رکھی ہے، مگر کار کردگی کچھ بھی نہیں ہے، ملک کی صنعتیں بند اور انڈسٹری بیٹھ گئی ہے۔ دوسری جانب تاجر برادری نے حکومت سے ملکی معیشت بچانے کے لئے فوری طور پر معیشت بچاؤ پیکیج کے اعلان کا مطالبہ کرتے ہوئے آرمی چیف سے مدد کے لئے رجوع کر لیا ہے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار وقت کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے اپنی کار کردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ عوام سخت اضطراب اور شدید معاشی مسائل کا شکار ہیں، بھوک اور بیچارگی آئے روز بڑھتی جارہی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے کوئی ایسی اجتماعی دانش وحکمت عملی نظر نہیں آرہی، جس میں امید کی روشنی کہیں تاریک سرنگ کے آخری حصے میں بھی نظر آئے، اس لیے انسانیت کی بقاء کے لئے غیرمعمولی اقدامات نا گزیر ہیں، حکو مت کوفیصلہ سازی ملک وقوم کے عظیم تر مفاد میں کرنی چاہیے، تاکہ عوام کو کورونا سے نجات کی کوئی دائمی نوید مل سکے۔ حکومت کو فیصلوں کے صائب ہونے کے انتظار میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام بار بار ہاتھ دھونے کی کوشش میں ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں اور بھوک و افلاس انہیں دبوچ لے، خداراعوام کو کورونا کے باعث آنے والی موت سے پہلے بھوک سے بچائیں، ورنہ اس بھوک سے کچھ بھی نہیں بچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments