باچا خان کے دو بیانیئے


\"asaf’ہم سب‘ میں آج کل باچا خان کے بیانیے پر بحث ہورہی ہے ۔ میں اس بحث کے سبزہ زار پر قدم رکھتے ہوئے ڈرتا ہوں کیونکہ میں اپنے آپ کو اس بحث کی گیرائی کا اہل نہیں سمجھتا۔ البتہ باچا خان کی شخصیت کے دو پہلوﺅں کا ذکر کروں گا کیونکہ سرحدی گاندھی کو مجھے قدرے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
یہ 1946کے اوائل کی بات ہے ۔ میں مسلم قوم پرست تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میںثانوی جماعت کا طالب علم تھا۔ باچا خان کو میں نے پہلی بار جامعہ میں دیکھا تھا جب وہ کچھ روز کے قیام کے لئے جامعہ آئے تھے۔یہ میری خوش قسمتی تھی کہ شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے مجھے جامعہ کے طلبا کی اقامت گاہ محمود منزل میں انہیں ٹھہرانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری سونپی ۔ مجھے تعجب ہوا کیونکہ سرحدی گاندھی کو محمود منزل سے کہیں زیادہ آرام دہ جگہ پر ٹھہرایا جا سکتا تھا لیکن مجھے بتایا گیا کہ باچا خان طلبا کی اقامت گاہ میں یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ طالب علموں کو کیا سہولتیں حاصل ہیں اور وہ کس ماحول میں رہتے ہیں۔
محمود منزل میں باچا خان کے سلسلہ میں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ طویل القامت باچا خان کے لئے بچوں کی چھوٹی چارپائی بہت ہی چھوٹی تھی چنانچہ یہ طے کیا گیا کہ دو چارپائیوں کو ملا کر ، برابر برابر ملا کر نہیں بلکہ پائینتی اور سرہانے کو ملا کر بڑا کردیا جائے۔ لیکن یہ ترکیب بھی باچا خان کے قد کے لئے خاطر خواہ ثابت نہیں ہوئی ۔ ہم سب طلباءسخت پریشان تھے کہ باچا خان نے ہماری مشکل آسان کردی اور اصرار کیا کہ وہ نیچے زمین پر سو جائیں گے ۔ چنانچہ ان کے لئے فرش پر بستر لگا دیا گیا ۔
عبدالغفار خان جب جامعہ آئے تھے تو ان کے پاس کھدر کا صرف ایک تھیلا تھا جس میں ان کی شلوار قمیض کا صرف ایک جوڑا تھا۔ رات کو سونے سے پہلے وہ ایک جوڑا خود دھو تے تھے اور رات کو ٹانگ دیتے تھے اور صبح کو دھلا ہوا جوڑا پہن لیتے تھے۔ جتنے دن وہ محمود منزل میں رہے ان کا یہی معمول رہا۔
\"hqdefaultایک دن صبح سویرے باچا خان مجھے اپنے ساتھ برلا مندر لے گئے جہاں گاندھی جی کی پرارتھنا سبھا ہو رہی تھی۔ گاندھی جی نے بڑے تپاک سے سرحدی گاندھی کا خیر مقدم کیا اور اپنے ساتھ بٹھایا۔ عجیب منظر تھا۔ منحنی سے گاندھی جی کے ساتھ بلند قامت غفار خان کو بیٹھے دیکھ کر ایسا لگا جیسے اونچے تاڑ کے درخت کے ساتھ بیر کی جھاڑی کھڑی ہے۔اس وقت بھجن گایا جارہا تھا۔ \”ایشور اللہ ایکو ئی نام۔ سب کو سمتی دے بھگوان۔
دوسرا بیانیہ:
آٹھ سال بعد ، مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں جگتو فرنٹ کی زبردست کامیابی کے بعد جب حسین شہید سہروردی کراچی آئے تو آزاد پاکستان پارٹی کے سربراہ میاں افتخار الدین ، سندھ محاذ کے جی ایم سید اور شیخ عبدالمجید سندھی ، خدائی خدمت گار کے عبدالغفار خان اور عبدالصمد اچک زئی ، سہروردی صاحب سے ملے اور ان کو دعوت دی کہ ایک متحد اور مضبوط حزب مخالف منظم کرنے کے لئے سب جماعتیں متحد ہوں۔ حسین شہید سہروردی مشرقی بنگال کے انتخابات میں فتح کے نشہ میں اس قد ر سرشار تھے کہ انہوں نے یہ دعوت ٹھکرا دی۔ اس کے باوجود مولانا بھاشانی اور مشرقی پاکستان کی چند جماعتوں کے رہنما مغربی پاکستان کے رہنماوں کے ساتھ ۔حزب مخالف کی نئی جماعت منظم کرنے کی کوشش میں شامل ہوگئے ۔
کراچی میں سندھ مسلم سوسائٹی میں سائیں وسان کے مکان پر نئی جماعت کے منشور تیار کرنے کے لئے بھاشانی ، محمود علی، میاں افتخار الدین، عبد الغفار خان اور دوسرے رہنما جمع ہوئے۔ منشور کی تیاری میں کافی دن لگ گئے۔ میں روزنامہ امروز کے لئے اس اجتماع کو کور کر رہا تھا۔ جب منشور کی تیاری میں بہت تاخیر ہوئی تو میں نے میاں افتخار الدین سے دریافت کیاکہ منشور میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے جب کہ اس اجتماع میں شامل سب رہنما قریب قریب یک رائے ہیں ۔ میاں صاحب نے تشویش کے ساتھ بڑی رازداری میں کہاکہ منشور میں جاگیر داری کے خاتمہ پر اختلاف رائے ہے۔ میں نے میاں صاحب سے کہا کہ تعجب کی بات ہے کہ اس مسئلہ پر اختلاف ؟ میاں صاحب نے کہا ۔ ہاں میں خود ایک جاگیر دار ہوں لیکن میں جاگیرداری کے خاتمہ کے حق میں ہوں۔ میں نے پوچھا پھر کون مخالفت کر رہا ہے۔ میاں صاحب نے کان میں کہا۔ سرحدی گاندھی۔ مجھے سخت تعجب ہوا۔اور باچا خان کا جامعہ میں قیام یاد آگیا۔ میں نے میاں صاحب سے کہا کہ مجھے یقین نہیں آتاکہ آخر باچا خان کیوں مخالف ہیں ۔ میاں صاحب نے کہا صاحب زادے ، تمہیں نہیں معلوم ۔ غفار خان اپنے علاقے میں خود بڑے جاگیر دار ہیں۔ میرے سامنے باچا خان کی شخصیت کا ایک اور پہلو نمایاں ہوا جو اب تک میرے ذہن میں نقش ہے۔
اسی اجتماع کے بعد نئی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے قائم ہوئی۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments