تنقید ہمارا قومی مشغلہ ہے


”اخے کتھے لک گئے نیں (کہاں گئے ) مادر پدر آزاد، موم بتی ما فیا، سماجی کام کے ٹھیکیدار، انسانی حقوق کے علمبردار، امریکہ کے ایجنٹ، یہودی سازش کے سر کردہ لیڈرز؟ اب کہاں غائب ہیں جب لو گ گھروں میں قید بھوک سے مر رہے ہیں۔ “

حالیہ دنوں میں گلی، محلوں کی پنچائت سمیت سوشل میڈیا پر یہ ڈائیلاگ سن کر پنجابی فلموں کے مناظر آنکھوں میں گھوم جاتے ہیں، جہاں مخالفین دشمن کے گھر وں کے سامنے جا کر انہیں للکارتے دکھائی دیتے ہیں، یا عجیب و غریب اور بے تکی دھمکیاں یا الزامات عائد کرتے ہیں، لیکن ان خیالی دھمکیوں کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جیسے سول سوسائٹی کی طرف سے مذکورہ بالا بے سر و پا الزامات یا سوالات کا جواب دینے کوئی نہیں آتا۔

قوموں کی ترقی و خوشحالی اور سماجی بگاڑمیں سدھارمیں معاشر ے کے ہر فر د کا کرداربہت اہم تصور ہو تا ہے۔ گو کہ حقوق و فرائض کی تقسیم اور اس ضمن میں عائد ہونے والی ذمہ داری جدا ہے، لیکن ملکی وسائل میں تمام لوگ برابر کے حصے دار ہو تے ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ وسائل کی فراہمی کا ذمہ دار اور دوسرا ان وسائل کا وصول کنندہ ہو تا ہے۔ اسی طرح تنقیدی عمل میں بھی دو فریق شامل ہیں، ایک تنقید کرنے اودوسرا تنقیدسننے والاہوتا ہے۔

عموماً فریقین میں سے ہر دو کا کام خاصا مشکل اور محنت طلب سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں تنقید سننے والے کا کام قدرے آسان ہے کہ تنقید سن کر خاموش ہو رہے یا تردید کر دے۔ البتہ ہمارے ہاں تنقید کرنے والے سخت مشقت کرتے ہوئے دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے، اور صورتحال کا بغورمطالعہ کرتے ہوئے دوسروں کے کام سے وہ کیڑے نکالتا ہے جو پنجابی فلموں کے ڈائیلاگ ہی محسوس ہوتے ہیں۔ جیسے کہ کسی بھی مصیبت یا آفت کی صورت میں راشن تقسیم ہو تو کہے گا کہ راشن میں چاول ملے مگر بریانی مصالحہ تو دیا ہی نہیں، انصاف احساس پرگرام کے تحت جو پیسے ملے نئے نوٹ نہیں تھے، راشن کی تقسیم پر دکھاوا کس بات کا، ”انھاں ونڈے شیرینی بھوں چوں آپ دیاں نوں“ تمام شہریوں کو لاک ڈوان موبائل بیلنس کی سہو لت ملنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے بنائی جا نے والی پالیسیاں و سکیمیں اور ان کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے حکمتِ عملی تیار کرنا، آبادی کے تناسب کے مطا بق وسائل کی تقسیم اور ترسیل، اپنی رعایا کو سماجی و معاشی تحفظ دینا ریا ستی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔ جس سے وہ نبردآزما ہو کر موردِالزام چند ڈالر کے بیوپاریوں کو ٹھہراتے ہیں۔ کیونکہ اپنی غلطی اور ناکامی کا ذمہ دار کسی دوسرے کو ٹھہرانا انسانی جبلت میں شامل ہے۔

تنقید ایک ہنر ہے جو ہر انسان میں مو جود نہیں ہوتا اور جس کے پاس ہوتا ہے اس کا دماغ باقی انسانی دماغوں سے زیا دہ صحت مند اور تندروست ہوتا۔ تو ان حالات میں ایسے معززین جو دوسروں کے کاموں میں کیڑے نکالنے کا کام خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے ہیں اگر اپنی تمام تر توانا ئیاں اور دماغی مہارتیں ان چند کرپٹ اور ملک دشمن لوگوں کو (جو مٹھی بھر ہیں) کے ساتھ مل کر اس کیڑے کو جو ملک میں نہ صر ف انسانی جانوں بلکہ ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس سے بچنے اور لڑنے کی حکمتِ عملی تیار کرئے بلکہ اس کے نفاذ میں بھی اپنا حصہ ڈالے اور ایک قوم ہو نے کا ثبوت دیں جس کا دعویٰ ہم ہمیشہ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کی طرف سے مستحق افراد کے لئے ملنے والی سہولیات کی تشہیر، ان افراد تک سہو لیات کی رسائی کو ممکن اور بہتر بنانے میں اپنی آرا دیں۔ اورساتھ ہی ساتھ حکومت اور سماجی کام کرنے والے لوگوں کا بھر پور ساتھ دیں۔ اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کی نہ صرف مدد کریں بلکہ ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ تا کہ ملک میں سے کرونا وائرس کا جلد از جلد خاتمہ ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments