ڈبوں میں بٹی قوم


پچھلے تین ہفتوں سے ہم گھر کی چار دیواری میں پابند ہیں۔ کھلی فضا اور کشادگی کو ترس رہے ہیں۔ مگر کیا ہم حقیقی معنوں میں کبھی کھلی فضا اور کشادگی میں رہ پائے ہیں؟ یا اپنے اپنے ڈبوں میں مقید رہے ہیں؟ بھانت بھانت کے رنگ برنگے ڈبے۔

مزے کی بات ہے کہ ہم بیک وقت کئی ڈبوں میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ اپنی گم کردہ شناخت کے پیچھے مذہب، فقہ اور فرقہ، صوبہ، زبان، ذات پات، پیشہ، برادری، رنگ نسل، سیاسی وابستگی اور ناجانے کون کون سے ڈبوں میں سموئے رہتے ہیں۔

”بھئی ہم تو مسلمان ہیں“۔ ہم صرف مسلمان ہیں ”۔ “ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کا خون نہیں بہا سکتا ”، معذرت کے ساتھ ان فقروں کا مفہوم ہی بدل جاتا ہے جب ہم اپنے اپنے عقیدے کے ڈبے میں قید ہو کر انہیں کہتے سنتے ہیں، بھئی ہم تو مسلمان ہیں، یعنی کہ ہم تو ہیں اور کوئی نہیں، ہم صرف مسلمان ہیں یعنی صرف ہم ہی ہیں۔ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کا خون نہیں بہا سکتا، مطلب جو دوسرے عقیدے والے نے کل مسجد یا امام بارگاہ میں خون بہایا، وہ تو مسلمان ہی نہیں۔

یوں جتنے بھی لبرل ہوجائیں، مگر رشتہ ڈھونڈتے ہوئے یاد آتا ہے کہ ہم چٹھے ہیں تو آرائیں سے رشتہ نہیں ہو سکتا۔ اردو سپیکنگ سے تو عموماَ دہرا پھڈا ہوجاتا ہے ذات بھی فرق اور اگر نقوی، بخاری، رضوی ہوگئے تو یک نہ شد دو شد۔

آپ شاید کہیں کہ نہیں ہم تو ایسے نہیں۔ شاید درست بھی ہو، اپنی ذاتی زندگیوں میں شاید ہم اس قدر سختی سے ان خانوں میں مقید نہ ہوں۔ عام حالات میں ہم ان خانوں اور ڈبوں میں سے باہر نکل کر ایک دوسرے سے میل جول بھی بنائے رکھتے ہیں۔ ہمارے حلقہِ احباب میں دوسرے صوبوں، نسلوں، علاقوں، فرقوں اور ذاتوں کے افراد شامل بھی ہوتے ہیں۔ مگر جیسے ہی اجتماعی رویوں کی بات آتی ہے، ہم فوراَ سے ان دڑبوں میں جا گھستے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ابھی کچھ ماہ پہلے لاہور میں پی آئی سی میں ڈاکٹروں اور وکلاء کا ٹاکرہ یاد کر لیں اور ڈھونڈ دکھائیں کسی صفِ اول کے ڈاکٹر نے ڈاکٹروں کے خلاف یا کسی وکیل نے وکلا کے خلاف واشگاف دو ٹوک الفاظ میں بات کی ہو۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ موقع بہ موقع یہ نظر نہ آنے والے خانے اور ڈبے اچانک سے تعصب، نفرت، مفاد اور نظریات کے بڑے بڑے دبیز پردوں اور پرتوں کے ذریعے نمودار ہو کر ہمیں بانٹ دیتے ہیں۔ مگر ایک خانہ ایسا بھی ہے جو ہمیں ہر وقت اور مسلسل بانٹے رکھتا ہے اور وہ خانہ ہے سوشل سٹیٹس کا، معاشی کلاس کا۔ یہ خانہ بندی اتنی بھاری موٹی اور قوی دیواروں سے تشکیل پاتی ہے کہ ہم اس کے پار جھانکنا تو دور کی بات، اس کے پار کا منظر تصور بھی نہیں کر پاتے۔ اس بات کا شدت سے احساس مجھے اس لاک ڈاؤن کے دوران ہوا۔
اس وقت ہر طرف لاک ڈاؤن کے باعث غریب سفید پوش طبقے کی مشکلات کا ذکر ہو رہا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر امداد کا سلسلہ بھی جاری ہے، متعدد تجاویز بھی آرہی ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے سوشل سیٹ اپ میں اس طرح بٹے ہوئے ہیں کہ ہمیں ان ضرورت مند طبقات کی اصلی ضرورتوں، مشکلات اور مسائل کا اندازا ہی نہیں۔ غریب کا ذکر آتے ہی ہمارا ذہن جھگیوں، کچی آبادیوں اور سرونٹ کوارٹروں کی جانب چلا جاتا ہے اور بس۔

میڈیا بھی یہی دکھاتا ہے۔ حکومت بھی لنگر خانے اور پناہ گاہیں کھول کر پر سکون ہو جاتی ہے۔ اور بس۔ ہمارے دل غربا کی امداد کے لئے پسیجتے بھی ہیں، مگر یقین جانئے، یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہمیں غریب سفید پوش طبقے کی پہچان ہی نہیں ہے۔ ہمارا سماجی ڈھانچہ اس قسم کا ہو گیا ہے کہ ہمارا میل جول انیس بیس کے فرق سے اپنے جیسی مالی استطاعت والے لوگوں سے ہی ہوتا ہے۔ نئی آبادیوں کی کتربیونت اسی طرح ہوتی ہے کہ گلی محلہ، بلاک عموماَ ایک ہی سائز کے گھروں پر مشتمل ہوتے ہیں لہٰذہ وہی بات کہ ایک جیسی مالی حیثیت کے گھرانے ہمسائے ہوتے ہیں۔

مجھے اس لاک ڈاؤن میں ذاتی طور پر یہ تجربہ ہوا کہ احباب نے مل کر ضرورت مند خاندانوں کی مدد کا منصوبہ بنایا، ۔ ایک دو دن میں اچھی خاصی خطیر رقم چندے میں جمع بھی ہوگئی اور تقریبا چھ سو لوگوں کے لئے راشن بیگز تیار ہوگئے۔ طے پایا کہ بجائے کسی کچی آبادی میں پھینک آنے کے، ذاتی جان پہچان والے مستحقین تک پہنچا جائے۔ لیکن تقریباَ تین ہزار گھروں کی سوسائیٹی میں سے ذاتی حوالے والے مستحقین کی نشاندہی میں ہفتے سے زیادہ وقت لگ گیا۔ اس لئے کہ اپنے ذاتی گھریلو ملازمین کے علاوہ ذاتی حیثیت میں کسی غریب خاندان سے لوگوں کا تعلق واسطہ ہی نہیں تھا۔

یہی حال سرکاری اور اجتماعی سطح پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چونکہ ہم معاملات کو خانوں میں بانٹ کر دیکھنے کے عادی ہیں اس لئے سرکاری اور غیر سرکاری تجاویز بھی خانوں میں بٹی ہوئی آ رہی ہیں۔ تازہ فرمان یہ جاری ہوا ہے کہ دو ماہ کرایہ دار سے کرایہ طلب نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں؟ کیونکہ ہمارے خانہ دار تصور میں کرایہ دار غریب ہے اور مالک مکان تو ”لینڈلارڈ“ ہے یعنی امیر۔ اب اس ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو کون سے خانے میں ڈالا جائے جس نے ساری عمر کی جمع پونجی سے پانچ مرلے کا مکان بنا کر نیچے خود رہائش رکھی اور اوپر کرایہ دار رکھ لیا تاکہ عزت سے دال روٹی چلتی رہے۔ دوسری جانب اس ہول سیل کے کاروباری کو کہاں فٹ کریں جس نے اپنا تھوک کا مال رکھنے کے لئے دو کنال کا گھر کرائے پر لے رکھا ہے۔ کیونکہ ہمارے خانہ دار پالیسی سازوں کے نزدیک تو کرایہ دار کا خانہ غریب کا اور مالک مکان کا خانہ امیر کا ہے۔

کرونا کا سانحہ گزر جائے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کے جانے کے بعد دنیا واپس اپنے پرانے سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کی طرف نہیں لوٹے گی۔ ہر قوم اور معاشرہ اس سے اپنے اپنے تجربے کے مطابق سبق سیکھ کر ایک نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل دے گا۔ کاش ہم ڈبوں میں بٹی ہوئی قوم اس تجربے سے اپنے ڈبوں کو توڑ سکنے کا سبق سیکھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments