انوکھی بات


خدا کو پانا سب کچھ کو پانا ہے پھر کیا رہ جاتا ہے جس کو پانا مقصود رہ جاتا ہو۔ مگر خدا کے پانے کی
تمنا کس کو؟
خدا اس کو ملتا ہے جو سب کچھ لٹا کر خدا کے سامنے سربسجود ہو۔ سربسجود ہونے کے لئے سب کچھ نفع و نقصان کو چھوڑ چھاڑ کر بھول بھال کر خدا کے حضور یکسو ہوں۔ پھر ایسوں کے لئے رب بزرگ و برتر نے قرآن کریم میں جا بجا ارشاد فرمایا۔

ولاخوف علیھم ولا ہم یحزنون
”نہ انہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے“

مومن ایک بے خوف اور بے غم فطرت کا مالک ہوتا ہے مومن ایسا پھلدار درخت ہوتا ہے جو ہر وقت پھل دیتا ہے اس کا سب سے میٹھا اور باراور پھل تب پکتا ہے جب انسانیت مصیبت میں سب سے زیادہ گھری ہوئی ہو۔ اس کا پھل مسلم و منکر کے لئے یکساں ہوتا ہے بھلا درخت کو اس سے کیا کچھ سروکار کہ اس کا پھل کھانے والا مسلم ہے یا مشرک۔ اس کا کام تو بس پھل دینا ہوتا ہے سو وہ دیتا ہے۔ وہ پھل توڑنے والے سے بدلہ میں کچھ نہیں مانگتا۔ خدا کی کبریائی پر یقین کامل سے اس کو فضا سے ہوا، پانی روشنی سب مل جاتاہے جسے خود رب ہی مل جائے اسے دنیا کے مال و اسباب، پانی و روشنی سے بھلا کیا مطلب؟

حضرت لبید عرب کے ایک مشہور شاعر تھے انہوں نے جب قرآن کو سنا تو وہ فوراً اس کے مؤمن بن گئے اس کے بعد ان کی شاعری چھوٹ گئی۔ کسی نے پوچھا آپ نے شاعری کیوں چھوڑ دی تو انہوں نے فرمایا:

آ بعد القرآن (کیا قرآن کے بعد بھی؟ )
قرآن کو پا لینے کے بعد کیا شاعری۔ کون سی شاعری؟
رب ورحمان پا لینے کے بعد کیا مال کیا اسباب۔ کیا نفع کیا گھاٹا۔ کیا میرا کیا تیرا؟

جس کو یہ یقین کامل ہو کہ موت کا بلاوا کبھی بھی۔ کسی بھی وقت۔ کسی بھی حالت میں کسی بھی فائدہ یا نقصان کی حالت میں یا تیرے اور میرے کے تکرار کی حالت میں آ سکتا ہے اور اسی وقت بغیر کسی تعقف کے سٹاپ کر دیا جاتا ہے اس حالت میں رہنے والے پر ہزار تعجب کہ وہ سالہ سال کی پلاننگ کر کے بیٹھا ہوا ہے رشوت سے گھر تعمیر کرنے کا سوچ رہا ہے دھوکہ دہی سے مال و اسباب جوڑنے میں لگا ہوا ہے۔ لاکھوں و کروڑوں کے باوجود بھوک سے بلکتے مسکین و ہمسایہ کو کھانا تک نھیں کھلاتا۔ دکان و مکان میں کام کرنے والے کو تنخواہ تک نہیں دیتا کہ کہیں میرا مال گھٹ نہ جائے کہیں سال کی پلاننگ خسارے میں نہ چلی جائے۔

دنیا کا سب سے عام واقعہ یہ ہے کہ آدمی پر موت آنی ہے مگر آدمی اس سب سے زیادہ عام واقعہ سے سب سے کم نصیحت لیتا ہے شاید اس سے زیادہ انوکھی بات اس روے زمین پر اور کوئی نہیں۔

ہر زندگی جو آج شاندار اور کامیاب دکھائی دیتی ہے وہ کل ایک ٹوٹا ہوا پتھر بن جاتی ہے۔ ہر پھول مرجھاتا ہے اور ہر مکان کھنڈر بن جاتا ہے مگر صد افسوس کہ انسان اس سے کوئی سبق نہیں لیتا۔ ٹوٹے ہوئے پتھروں کے ہجوم میں وہ اپنے بارے یہی سوچتا ہے کہ اس کا پتھر کبھی نہیں ٹوٹے گا! اس کی جاگیر دائمی رہے گی!

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے

شکیب لاشاری
Latest posts by شکیب لاشاری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments