وزیر اعلیٰ کے بہنوئی کی وفات اور عظیم خاتون رہنما کی دانش


دیکھا! اللہ بھی کیسا دکھا دیتا ہے، اب مزا آیا نا کیسا کورونا کورونا کا شور ڈالا ہوا تھا۔ پہلے اپنے بہنوئی کو سنبھالتے نا، بڑے لوگوں کو بھاشن دے رہے تھے، کہ گھروں میں بیٹھیں۔ اپنے گھر والے سنبھالے نہیں جا رہے اور دیکھو ذرا جھوٹا کتنا ہے کہ کورونا ٹیسٹ تو نیگیٹو آیا تھا۔ شرم آ رہی ہو گی نا، لوگوں کو بتاتے ہوئے کہ کورونا سے مر گئے۔ اب کرو نا ان کی تدفین، نہ غسل دو نہ جنازہ پڑھو۔ توبہ (اس توبہ میں کورونا سے آنے والی ’موت‘ سے نفرت کی سوچ، واضح جھلک رہی تھی) یقین کریں اس میں رتی بھر لفاظی نہیں ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں، جو میں نے اپنے کانوں سے ایک ’عظیم خاتون’ کو بولتے ہوئے سنے۔ اور جب وہ اپنے دہنِ مبارک سے اس شان دار فکر کا اظہار فرما رہی تھیں، تو میرے دل میں آیا کہ پلٹ کے پوچھوں، ‘میڈم ، پہلی بات تو یہ کہ وہ صاحب کورونا سے نہیں مرے اور اگر ان کی موت کی وجہ کورونا ہی ہے، تو بھی اس میں شرم کس بات کی؟ کیا مرحوم نے کسی کا ریپ کیا تھا یا کسی بے کس کی جان لے لی تھی، جو لواحقین کو موت کی وجہ بتاتے ہوئے شرم آئے’؟

مذہبی اور ثقافتی تعلیمات تو کہتی ہیں کہ مرنے والے کو برا نہ کہا جائے لیکن بہت معذرت کے ساتھ بظاہر دین دار نظر آنے والا طبقہ، اس قسم کی تنقید میں پیش پیش ہے۔ اپنے روایتی طنزیہ انداز اور ’سنہرے الفاظ‘ میں یہ خراج تحسین کسی اور کو نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ سندھ کے مرحوم بہنوئی کو پیش کیا جارہا تھا۔ جہاں تک ہماری ناقص معلومات ہیں۔ مہدی شاہ زیارتوں کے لیے ایران گئے تھے، جہاں سے واپسی پر آٹھ مارچ کو ان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا۔ وہ پہلے ہی دل اور گردوں کے امراض میں مبتلا تھے۔ کورونا نے پھیپھڑوں کو متاثر کیا، جس کی وجہ سے دل اور گردوں پر غیر ضروری دباو کے باعث زندگی کے بازی ہار گئے۔

بقول وزیر اعلیٰ سندھ، وہ کورونا کے خلاف جنگ جیت چکے تھے۔ اس کے باوجود ان کی تدفین کورونا سے بچاو کے تمام حفاظتی اصولوں کے تحت کی گئی۔ کورونا کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے وزیر اعلیٰ نے تو وضاحت کر دی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تواتر کے ساتھ مختلف موضوعات پر افراد خانہ کو اپنے ’زریں خیالات‘ سے رُو شناس اور علامہ گیری جھاڑنے والی خاتون انوکھی سوچ کی مالک نہیں۔ نہ یہ فرد واحد کی سوچ ہے۔ ہمارے اردگرد ایک وسیع طبقہ اسی ذہنی پستی اور جہالت کا شکار ہے۔ شاید اسی لیے مشہور صحافی اور تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی نے آج سوشل میڈیا پر رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’براہ کرم کورونا کے مریض افراد کے نام اور تصاویر شایع نہ کریں۔ ہم نے لڑ کر حکومت سے پابندی لگوائی ہے۔ دو بچوں کی تصویر دیکھ کر سخت صدمہ ہوا۔ کورونا کے مریض کو یہ معاشرہ پہلے ہی اچھوت سمجھ رہا ہے، دکھ اس بات کا کہ تصویر ہمارے ایک صحافی دوست نے شایع کی۔ اب ان بچوں کو زندگی بھر کورونا کے طعنے ملیں گے‘۔

یہ ہے اکیسویں صدی کا پاکستان، جہاں معصوم بچوں کو ایک ایسے قصور کی سزا ملے گی جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔ ناصر صاحب کی اس پوسٹ میں ہمارے معاشرے کے بودے پن کی صحیح عکاسی کی گئی ہے۔ کیوں کہ یہ وہ سماج ہے جہاں علامہ گیری کرنے والے عام افراد تو رہے ایک طرف، چند دن پہلے ہی حکومت کے چہیتے صوبائی وزیر بچوں کی معذوری کو اللہ کا عذاب قرار دے چکے ہیں۔

میرے پیارے دانش ورو! آپ اپنے عظیم خیالات کا اظہار ضرور فرمائیں، لیکن اللہ کے واسطے اس میں خدا کو نہ لائیں، کیوں کہ یہ کم تر خیالات آپ کے اپنے تو ہو سکتے ہیں، لیکن مذہب سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ معذور اولاد کو پالنے والے والدین کی اللہ کی نظر میں وہ جگہ ہے کہ اس کا بہترین اجر روز قیامت انہیں سرخ رُو کر دے گا، اور وبا میں مرنے والے افرادکو ’شہید‘ کا درجہ حاصل ہے۔

دنیا بھر میں کورونا آگہی مہم کے تحت ’کورونا سے ڈرنا نہیں کورونا سے لڑنا ہے‘ کا سلوگن پیش کیا جا رہا ہے، لیکن ہم کورونا سے لڑنے کے بجائے مریض سے لڑنا شروع ہو گئے ہیں اور مرض سے نفرت کے بجائے یہ نفرت مریض سے کی جا رہی ہے۔ ہم سب کے لیے یہ بات افسردہ کرنے کے لیے کافی ہو گی کہ کوئی شخص کورونا کے باعث زندگی کی بازی ہار جائے، لیکن یہ بات کسی بھی ذی شعور کے لیے مرنے کے مترادف ہو گی کہ کوئی مریض صرف اس لیے مر جائے کہ لوگوں نے اسے اچھوت سمجھ کر چھوڑ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments