آج کی شام بی بی کے نام


(ھنا خان)

\"hina-khan

آج بی بی کی بیسویں برسی ہے۔ وہ دن جب میں نے بی بی کو کھو دیا۔ جب ہم اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں تو ان کے ساتھ گزارے ہوے وقت کی یادیں ہی سہارا بن جاتی ہیں۔ بی بی کی بے پایاں شفقت اور بے انتہا محبت میری زندگی کی سب سے خوبصورت اور پائے دار یاد ہے۔ ان کی جہاں دیدہ شخصیت، اخلاق، مذاق، دنیا داری، عاقبت اندیشی، ان کا ذوق اور وسیع مطالع، کس کس چیز پہ روشنی ڈالوں !

مجھے یاد ہے راولپنڈی جنرل ہسپتال میں جب سرجری سے پہلے انھیں نیزوگیسٹرک ٹیوب Nasogastric tube لگائی گئی تو انہوں نے ”غالبانہ“ احتجاج کیا :

میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

بی بی کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ہی ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے والد نے دوبارہ عقد نہیں کیا۔ پھوپھیوں نے پرورش کی۔ کمسنی میں ہی تصویر دیکھ کر نیلی آنکھوں والے حسین جادوگر سے رشتہ طے کرا دیا گیا۔ بتایا گیا کہ لڑکا نیوی مرچنٹ ہے، اچھا کماتا ہے۔ شادی کا دن آن پہنچا۔ دلہا میاں نے جب ”قبول ہے “ کہنے کے لئے سہرا ہٹایا تو معلوم ہوا کہ موصوف ساٹھ سالہ باریش بزرگ ہیں۔ چہ مہ گویاں ہونے لگیں۔ جو جانچ پڑتال رشتہ طے ہونے سے پہلے کی جانی چاہیے تھی وہ برات کے دن ہو رہی تھی، عین بوقت نکاح۔ خفیف سی تفتیش سے معلوم ہوا کہ سہوا ً پرانی تصور بھیجی گیئی تھی اورفقط اتنا بتانا بھول گئے تھے کہ یہ ان کا عقد ثانی ہے !

اپنی بیتی ہوئی رنگین جوانی دے گا
مجھ کو تصویر بھی دے گا تو پرانی دے گا

جیسا کہ بر صغیر میں بارات کو خالی لوٹا دینا کفرعظیم کے مترادف سمجھا جاتا ہے، اور پھرنجیب الطرفین سید۔ اسی بات کے پیش نظر سولہ سالہ دلہن ساٹھ سالہ صالح دلہا کے ساتھ رخصت ہو گئی۔ کوہاٹ پہنچ کر مزید انکشاف ہوا کہ سوتیلے بیٹے عمر میں نو بیاہتا ماں سے بھی بڑے ہیں۔ دو سال میں دو تحفے، بیٹی اور بیوگی ان کی جھولی میں ڈال کرسید مصطفی شاہ جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

اٹھارہ سالہ بیوہ نے دوبارہ گھر بسانے کے مشورے پہ ہمیشہ یہی جواب دیا

میں نے یہ سوچ کے بوے نہیں خوابوں کے درخت
کون جنگل میں لگے پیڑ کو پانی دے گا؟

انھوں نے تمام زندگی خدداری سے گزاری۔ اکیلی، بے سہارا اٹھارہ سالہ بیوہ، اپنی دو سالہ بیٹی کے ساتھ، سب کا سہارا بن گئی۔ ساری عمر انھوں نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے، سوائے اپنے رب کے۔ ہمیشہ دعا کرتی تھیں کہ اللہ انہیں سوائے اپنے کسی کا محتاج نہ کرے، اور اللہ رب العزت نے ان کی دعا پوری فرما دی۔ اپنی وفات سے قریب ہفتہ قبل انہوں نے اپنا سب حساب کتاب مجھے ایک ڈائری میں لکھوا دیا۔ کس کو کیا دینا ہے، کتنا دینا ہے، کس طرح اور کب دینا ہے۔

میں جب بھی ان کے پیر دبانا چاہتی تھی وہ منع کر دیتی تھیں۔ اپنا سفید موم کا دوپٹہ آنکھوں پہ رکھ کر دوپہر کو سوتی تھیں۔ چھوٹے لقمے بنا کر کھاتی تھیں اور بدپرہیزی صرف تب کرتی تھیں جب بیحد خوش ہوں۔

\"old-pakistani-woman\"

یوں تو لوڈشیڈنگ کے کئی نقصانات ہیں، مگر میری کچھ پیاری یادیں اس سے وابستہ ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب لوڈشیڈنگ کے بھی کچھ اداب ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں بلاناغہ رات کے نو بجے بجلی جاتی تھی۔ ایک فائدہ تو یہ تھا کہ خبرنامے سے جان چھوٹ جاتی تھی اور دوسرا یہ کہ ہم موم بتی جلا کر بیت بازی کا مقابلہ کرتے تھے۔ بی بی نہایت صاحب ذوق تھیں۔ اردو شاعری سے لگاؤ بھی مجھے انہی کے سبب ہوا۔ صحیح تلفظ، شعر کی ادائیگی انہی سے سیکھی۔ مجھے قرآن شریف بھی بی بی نے ہی پڑھایا۔ ”ق“ کی آواز حلق سے نکالنے کا مرحلہ میں نے بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے بخوبی طے کر لیا۔ وہ ازراہے مذاق اکثر کہتی تھیں کہ جو ”ق“ کی آواز ٹھیک سے نہیں نکال سکتے وہ ہمیشہ محبوب کے ”فراک“ میں تڑپتے رہتے ہیں! یہی وجہ ہے کہ مادری زبان پشتو ہونے کے باوجود اردو پہ گلابی رنگ نہ چڑھا۔ بقول غلام اسحاق خان :

”اور جاز اوا میں پٹ گیی\”۔ والی گلابی رنگت!

بی بی بتاتی تھیں کہ ان کے والد بہت اچھے شاعر تھے اور ”تمنّا\” تخلص کرتے تھے۔ ان کا دیوان اشاعت کے لیے انجمن حمایت اسلام کے دفتر میں رکھا ہوا تھا۔ فسادات کے دوران جب دفتر نذر آتش کیا گیا تو انکا دیوان بھی وہیں جل گیا۔ وہ اس صدمے کی تاب نہ لا سکے۔

گرمیوں کی راتوں میں جب صحن میں چارپائیاں لگا کرتی تھیں تو ہم بچوں کی کوشش ہوتی تھی کہ بی بی کے ساتھ والی چارپائی ہمیں ملے۔ کسی ایک وقت میں گھر میں کتنے لوگ موجود ہیں یہ اندازہ کرنا مشکل تھا۔ گھر کے صحن کی طرح ان کا دل بھی کشادہ تھا۔ اللہ توکل ان کے ایمان کا بڑا حصّہ تھا، شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے دسترخوان میں بے بہا برکت رکھی تھی۔ ہمہ وقت صحن میں کئی مرغیاں گشت کر رہی ہوتیں تھیں اور کسی مہمان کی اچانک آمد پر کسی ایک مرغی کو دم پخت پلاؤ کی زینت بنا دیا جاتا تھا!

کوئی دور دراز گاؤں سے ملنے والا آتا تو ”انڈوں کا نذرانہ عقیدت“ پیش کرتا۔ ہم بچے خوب ہسنتے کہ یہ کیسا تحفہ ہے، مگر وہ ہمیشہ سمجھاتیں کہ دینے والے کا خلوص دیکھو۔

یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کوئی سائل ان کے گھر سے خالی ہاتھ لوٹا ہو۔ ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتی تھیں۔ میرے کم کھانے پہ بہت ناراض ہوتی تھیں۔ ان کو منانا بہت آسان تھا۔ گود میں سر رکھ کر لیٹ جاؤ اور بس۔ مزے مزے کی کہانیاں سناتی تھیں اور میں خوب ذوق و شوق سے سنتی تھی حالانکہ فائنل ایر ایم بی بی ایس میں تھی۔ ان کے جانے کے بعد بہت سی باتوں کا مطلب سمجھ آیا ” گھر واپس جب آؤ گے تم، کون تمھیں پہچانے گا، کون کہے گا تم بن سآجن یہ نگری سنسان“

جو خلا ان کے چلے جانے سے پیدا ہوا، اسے صرف ان کی یادیں ہی پر کر سکتی ہیں۔ کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ ایک ہستی کے ہونے سے ہی آپ کا پورے شہر سے تعلق ہوتا ہے۔ اس ایک ہستی کے نہ ہونے سے نہ صرف پورا گھر ختم ہو گیا بلکہ تمام شہر سے رابطہ و رشتہ ٹوٹ گیا۔

ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رھتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں

چھوٹی عید کے موقع پر وہ صبح سویرے اٹھ کر بڑی ساری دیگ میں پورے محلے کے لیے شیرخرما بناتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھیں صرف شیرخرما ہی بنانا آتا تھا! ہم بچے ںئے نویلے کپڑے پہن کر، کنگھی پٹی کر کے عیدی لینے نکل جاتے تھے۔ سادگی اور معصومیت کے دن تھے، دو روپے، پانچ روپے عیدی ملا کرتی تھی۔ کوئی بیس روپے دے دیتا تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہتا! اسی طرح بڑی عید پر تمام محلے میں گوشت بانٹنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ بہت احتیاط سے ان لوگوں کا حصّہ الگ کرتی تھیں جنھیں سال میں صرف بقرعید پر ہی ”گوشت“ کھا نے کی ”سعادت“ نصیب ہوتی ہے۔

ہماری ہر پریشانی کا حل تھا ان کے پاس! ”وظیفہ“۔

بڑے سے بڑا اور مشکل سے مشکل وظیفہ ہمارے لیے پڑھنا ان کے بایں ہاتھ کا کھیل تھا۔ شہاب نامہ ان کی پسندیدہ کتاب تھی۔ پتہ نہیں کیوں وہ پروین شاکر کو ہمیشہ شاکرہ پروین کہتی تھیں۔ بی بی اخبار روز پڑھتی تھیں۔ نوآئے وقت کا کالم ”سر را ہے “ ان کو پسند تھا۔ عمران خان کا ہسپتال بن جانے سے بہت خوش تھیں اور بہت دعا کرتی تھیں۔

یہ بتانا تو بھول ہی گئی کہ بی بی کا نام قریشہ خاتون تھا۔ کہتے ہیں ”خاتون“ منگولین زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں حاکمانا، شاندار، استقلال کی خصوصیات کی مظہر شخصیت۔ یہ لفظ شاہانہ بردباری اور قوت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر کوئی چیز شدید دباؤ کے تحت ٹوٹنے کی مدافعت کرے تو اسے خاتون کہا جاتا ہے۔ یہ لڑکے یا لڑکی کے نام کا حصہ بن سکتا ہے۔ اس لفظ کی پسندیدگی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اکثر مردوں نے ”خاتون تیمور“ جیسے نام اپنائے ہیں۔ اس کے لفظی معنی بنتے ہیں، ”آہنی ملکہ“ یا ”خاتون ہیرو“۔ اسی نام میں پوشیدہ خوبیوں کا اثر بی بی کی شخصیت میں اتر آیا تھا۔

قریشہ خاتون اسی معاشرے میں زندگی جینے کی جدوجہد کرتی رہیں جہاں ایک طرف تو عورت کو صنف نازک کا خطاب دے کرکمزور گردانا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف غیرت ملک وملت، اور دین اسلام، حتیٰ کہ خاندان کی عزت و حرمت کا بھی تمام بوجھ انہی کے ناتواں کاندھوں پر بڑی بے نیازی سے ڈال دیا جاتا ہے۔ ~ دل بے خبر نے یہ بوجھ بھی بڑے حوصلے سے اٹھا لیا۔ مگر معاشرہ یہ بھول جاتا ہے کے یہ عورت قریشہ ”خاتون“ ہے۔

کہتے ہیں جب دوستی پرانی ہو جائے تو آدھے فقروں میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔ آخری دنوں میں جب اندازہ ہو گیا کہ چل چلاؤ لگ رہا ہے تو ایک دوست نے پوچھا، ” مردان لے جاؤ گے؟ “ میں جواب دیا، ” نہیں، یہیں !“

14 اپریل 1996 کو بی بی کا انتقال ہوا۔ جس دن ان کی تدفین تھی، اسی روز شوکت خانم ہسپتال کے ایک حصّے پر بم دھماکا ہوا۔ دوستوں نے تسلی دیتے ہوے کہا، ”شکر ہے بی بی کو پتہ نہیں چلا ورنہ بہت ناراض ہوتیں!“

آج تک یہی محسوس ہوتا ہے کہ میں ان کی دعاؤں کے حصار میں ہوں۔ اللہ ان کو اپنی بے پایاں رحمت اور مغفرت کے سایے میں رکھے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، آمین۔

غالب، فیض، فراز کے علاوہ ان کے ایک اور پسندیدہ شاعر تھے ندیم قاسمی صاحب، جنکا شعر ان کی قبر کے کتبے پر لکھا ہوا ہے :

میں تو اس وقت سے ڈرتا ہوں کہیں پوچھ نہ لے
کہ اگر ضبط کا آنسو تھا تو ٹپکا کیسے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments